میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نیٹوکے جارحانہ بیانات،روس کی ایٹمی فورس ہائی الرٹ

نیٹوکے جارحانہ بیانات،روس کی ایٹمی فورس ہائی الرٹ

ویب ڈیسک
پیر, ۲۸ فروری ۲۰۲۲

شیئر کریں

روس کے صدر ولادمیر پیوٹن نے ملک کی نیوکلیئر مزاحمتی فورسز کو ہائی الرٹ پر رہنے کا حکم دیا ہے اور عالمی برادری نے اس عمل کو غیرذمے دارانہ قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے۔خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق انہوں نے ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں کہا کہ میں نے وزیر دفاع اور روس کی مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف کو حکم دیا ہے کہ وہ روس کی نیوکلیئر مزاحمتی فورسز کو تیار رہنے کا حکم دیں۔روس کے صدر نے یہ اعلان ایک ایسے موقع پر کیا ہے کہ جب دنیا بھر کی طاقتوں کی جانب سے ان پر پابندیاں لگائے جانے کا سلسلہ جاری ہے جس کے نتیجے میں روس کی معیشت بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔پیوٹن نے کہا کہ انہوں نے جوہری فورسز کو ہائی الرٹ پر رہنے کا حکم مغربی طاقتوں کے رویے کو دیکھ کر دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ فیصلہ روس پر عائد کی جانے والی پابندیوں اور نیٹو رہنماں کے جارحانہ بیانات کے بعد لیا ہے۔پیوٹن کے اس اعلان کے بعد امریکی حکام نے خبردار کیا ہے کہ روس کے صدر کے اس فیصلے سے صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ایک سینئر امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ واضح ہے کہ اگر ذرا سی بھی بداحتیاطی ہوئی تو اس سے صورتحال مزید خطرناک ہو جائے گی۔ادھر نیٹو کے سیکریٹری جنرل نے جوہری مزاحمتی فورسز کو الرٹ پر رکھنے کے پیوٹن کے حکم کو غیرذمے دارانہ رویہ قرار دیا ہے۔جین اسٹول ٹنبرگ نے سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ خطرناک بیانیہ ہے اور یہ رویہ انتہائی غیرذمے دارانہ ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر آپ اس بیانیے کو یوکرین میں جاری زمینی کاروائی کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو صورتحال انتہائی سنگین شکل اختیار کر جاتی ہے۔پیوٹن کے اس اعلان کے بعد یورپی یونین نے تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی ملک کے لیے ہتھیار خریدنے کا اعلان کیا ہے۔یورپی یونین کی کمشنر ارسلو وون در لیئن نے کہا کہ پہلی مرتبہ یورپی یونین حملے کے شکار ایک ملک کے لیے ہتھیار خریدنے کے لیے رقم فراہم کرے گا جبکہ ہم روس پر سخت پابندیاں بھی عائد کریں گے۔انہوں نے کہا کہ روس کی زیر ملکیت یا ان کی جانب سے چلائے جانے والے طیاروں کے یورپ کی فضائی حدود میں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔یورپی یونین نے روس کے ساتھ ساتھ اس کے اتحادی بیلاروس پر بھی پابندیاں لگانے پر اتفاق کیا ہے۔دوسری جانب یوکرین کے صدر ولادمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ ان کا ملک روس کے ساتھ امن مذاکرات شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو سے فون پر گفتگو کے بعد یوکرین کے سربراہ نے کہا کہ وی بیلاروس اور یکرین کی سرھد پر مذاکرات کے لیے وفد بھیجنے کے لیے تیار ہیں۔ولادمیر زیلنسکی نے کہا کہ ہم نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ یوکرین کا وفد پہلے مقرر کردہ کسی شرط کے بغیر روسی وفد سے ملاقات کرے گا۔ادھر ابتدائی رپورٹس کے برخلاف یوکرین نے اتوار کی دوپہر دعوی کیا کہ روسی فوج کی جانب سے حملوں کے باوجود ملک کا دوسرا بڑا شہر خارکیف اب بھی ان کے کنٹرول میں ہے۔اس سے قبل یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ روس کی فوجیں یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارکیف میں داخل ہو گئی ہیں اور شہر کی سڑکوں پر لڑائی جاری ہے۔خارکیف کی علاقائی انتظامیہ کے سربراہ اولیح سینہوبوف نے کہا تھا کہ یوکرین کی افواج شہر میں روسی فوجیوں سے لڑ رہی ہیں اور شہریوں سے کہا کہ وہ اپنے گھروں سے باہر نہ نکلیں۔جبکہ روسی فوج یوکرین کے شہر خار کیف پر قبضہ کرنے میں تاحال ناکام رہی ہے، دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان خونریز جھڑپیں جاری ہیں۔ 15 لاکھ کی آبادی والا شہر خار کیف دارالحکومت کیف کے بعد یوکرین کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ یوکرین کے صدارتی آفس کے مطابق روس کی فوج نے خار کیف شہر میں گیس پائپ لائن اڑا دی۔ یوکرینی حکام کے مطابق گیس پائپ لائن کی تباہی ماحولیات کے لیے تباہ کن ہو سکتی ہے۔ یوکرینی حکام نے لائن کی تباہی کے بعد خارج ہونے والی گیس کے اثرات سے بچنے کے لیے شہریوں کو کھڑکیاں بند رکھنے کی ہدایت کی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں