بچے "غیر سیاسی" ہوتے ہیں
شیئر کریں
پاکستان میں اس وقت سیاسی ہل چل اپنے عروج پر یے۔ سیاست اقتدار و اختیار کی راہداریوں سے ہوتی ہوئی ڈرائنگ رومز میں پہنچی اور اب بات میل ملاقاتوں تک آن پہنچی۔ لاہور کی معروف ترین شاہراہ پر قائم ظہور الہٰی پیلس سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں نمایاں مقام رکھنے والے سیاسی رہنما ق لیگ سربراہ اور جہاندیدہ سیاست دان چودھری شجاعت حسین کی تیمارداری کے بہانے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری۔ پی ڈی ایم کے قائد مولانا فضل الرحمٰن۔ ن لیگ کے صدر شہباز شریف اور اہم کیو ایم کے قائدین کا آنا ملکی سیاست میں بھونچال پیدا کر چکا ہے۔ چودھری برادران سے آپ لاکھ اختلاف کر لیں لیکن یہ بات آپ کو ماننا پڑے گی کہ چودھری برادران سیاست کے بڑے کھلاڑی ہیں اپنے دھیمے مزاج اور سب کے ساتھ بنا کر رکھنے میں انہیں جو ملکہ حاصل ہے اس کا عشر عشیر بھی دوسرے سیاسی رہنماؤں کو میسر نہیں۔ گجرات کے ان چودھریوں کو اسٹیبلشمنٹ کے قریب ترین جانا جاتا ہے اور اس تعلق کو وہ چھپاتے بھی نہیں۔ چھپانا تو دور کی وہ اس تعلق پر ہمیشہ سے نازاں ہیں۔ اس بات کا برملا اظہار گزشتہ دنوں ق لیگ کے سینیٹر کامل علی آغا نے مختلف ٹی وی چینلز پر انٹرویو میں کیا۔ اس تعلق کو نا پسند کرنے والی نمایاں سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی۔ پی ڈی ایم اور ن لیگ جیسی بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کا بہت اہتمام کے ساتھ کے ساتھ چودھریوں کے ڈیرے پر جانا اور "روٹی شوٹی” کھانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ آج بھی سیاست کے "گرو” ہیں۔ ان سے "فیض” حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے اہم ترین سیاسی کھلاڑیوں کا چکر لگانا انتہائی اہم ہے۔
ان رہنماؤں کا ظہور پیلس جانا کوئی اچانک رونما ہونے والا واقعہ نہیں ہے اس کے لیے باقاعدہ ہوم ورک کیا ہوگا۔ ملاقات کا ایجنڈا طے کیا گیا ہوگا ان ملاقاتوں کی گرد ابھی بیٹھی نہ تھی کہ چودھری پرویز الٰہی کے صاحب زادے اور وفاقی کابینہ کے رکن چودھری مونس الٰہی نے ایک تقریب میں وزیراعظم عمران خان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ یہ جو ہمارے سیاسی تماشہ لگا ہوا ہے آپ اس سے نہ گھبرائیں۔ ہم سیاسی لوگ ہیں ایسی سیاسی ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔ ہم تعلق نبھانے والے لوگ ہیں آپ سے یہ تعلق نبھانے کے لئے بنایا ہے۔ مونس الٰہی کی یہ بات سن کر وزیراعظم کا چہرہ کھل اٹھا۔ مونس الٰہی کے اس بیان سے دو باتیں سامنے آئیں کہ وہ سیاسی رہنما جو دعویٰ کرتے ہیں کہ میں 22 سالہ سیاسی جدوجہد کے بعد وزارت عظمیٰ کی کرسی تک پہنچے ہیں۔ وہ ایک "بچے” کے دو جملوں کی مار ثابت ہوئی۔ دوسری جانب یہی دو جملے اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کی کئی دہائیوں پر محیط سیاسی زندگی پر بجلی بن کر گرے۔ سننے میں آیا ہے چودھری پرویز الٰہی نے اپنے اس "ہونہار” سپوت کے کان کھینچے ہیں کان کھینچنے بھی چاہئے تھے کہ ان کا بچہ ہی ان کی کئی نسلوں کی روایات جو صرف ایک وزارت یا اپنی نا سمجھی کی وجہ سے دریا برد کرنے پر تل گیا تھا۔ سنا ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کو اپوزیشن رہنماؤں سے معزرت بھی کرنا پڑی اور اس کے ثبوت کے طور پر وزیراعظم سے طئے شدہ ملاقات منسوخ کرکے اسلام آباد بھی جانا پڑا شائد اسی لیے کہا جاتا ہے کہ بچوں کو سیاست سے دور رکھیں کہ بچے "غیر سیاسی” ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔