میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سیاسی جماعتوں کی ناکامی اور نیا سوشل کنٹریکٹ

سیاسی جماعتوں کی ناکامی اور نیا سوشل کنٹریکٹ

ویب ڈیسک
بدھ, ۲۹ دسمبر ۲۰۲۱

شیئر کریں

محمدسمیع گوہر

پاکستان کی سیاست میںگزشتہ پچاس ساٹھ برس سے عوام یہ مسلسل یہ سنتے چلے آرہے ہیں کہ ملک اس وقت شدید بحران کا شکار ہے، ملکی سلامتی کو خطرہ ہے ،جانے والی حکومت کی کرپشن نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا کر گئی ہے، قومی خزانہ خالی ہے،غربت،مہنگائی اور بے روزگای بڑھ گئی ہے،ملک پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے،بجلی و گیس کی شدید قلت ہے لہذا ملکی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے ہمارے پاس قرض لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے ۔ یہی راگ وزیر آعظم عمران کی پی ٹی آئی کی حکومت گزشتہ تین سال سے الاپتی چلی آرہی ہے ۔نہ جانے ہمیں یہ بات کب سننے کو ملے گی کہ اب ملک کو کسی بحران کا سامنا نہیں ہے قومی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں اور ملک کی معاشی صورتحال بھی بہتر ہیں اور عوام مطمئن ہیں۔بے شک وزیر آعظم، وفاقی وزرا، مشیر اور ترجمان اپنی حکومت کے بارے مین کتنی خوشنما باتیں کرتے رہیں لیکن پی ٹی آئی کی حکومت تین سال مکمل کرلینے کے بعد ان کے دور حکومت میں دیوار پر جو لکھا ہے وہ صاف نظر آرہا ہے۔ ملک میں ضروریات زندگی کی اشیاء کی مہنگا ئی میں اضافہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، بے روزگاری میں اضافہ کا امڈتے ہوا طوفانے نوجوانوں کو جرائم کی طرف راغب کرنے پر مجبور کررہا ہے، غریب لوگ غربت اور مہنگائی سے تنگ آکر خود کشیاں کررہے ہیں یہ اپنی اولاد بیچنے پر مجبور ہیں،کرائم کی صورتحال روز بروز بد تر ہوتی جارہی ہے، مذہبی جنونیت کا اشتعال پھیلاکر غیر مسلموں کو نفرت و انتقام کا نشانہ بنیا جارہا ہے،بچوں کے ساتھ زیادی کے واقعات بڑھ رہے ہیں، سرکاری اداروں کی کرپشن کے ماضی کے سارے ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں ،حکومتی اداروں کی کارکردگی خراب تر ہوتی جارہی ہے ،غیر ملکی قرضے کم ہونے کے بجائے بڑھتے جارہے ہیں،برآمدات میں اضافہ،ترسیلات زر کی وصولیابی بہت اچھی ہوجانے،تعمیرات کے شعبہ کی بہتر کارکردگی اور زرمبادلہ کے ذخائیر میں اضافہ کے ساتھ اقتصادی کے ترقی کے مثبت اشارے کا ڈھول پیٹنے کے بعد عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ انکی حالت بہتر ہونے کے بجائے کیوں روز بروز مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔برآمدات کے مقابلہ میں درآمدات میں تشویشناک اضافہ نے تجاری خسارہ بھی سنگین مسلہ بنا دیا ہے۔آئی ایم سے مسلسل قرضے لینے سے ایک انتہائی سیاہ تصویر سامنے آرہی ہے اور اس کے مطالبہ پر بجلی و گیس کا ٹیرف بڑھانے،ٹیکسز پر دی جانے والی ہر قسم کی سبسڈی کی دی جانے کی رعایت واپس لینے،محاصل کی وصولایابی میں اضافہ کرنے،اسٹیٹ بنک آف پاکستان پر حکومت کا کنٹرول کرکے ایک خود متار بنانے اور سوشل ڈیویلپمنٹ پروگرام کو مزید کم کرنے کے اقدامات ملک کی اقتصادی ترقی کے دعوں کی نفی کرتے نظر آرہے ہیں۔
سیاسی صورتحال کی طرف آئیں تو اس سال اکتوبر میں ڈی جی آئی آئی ایس آئی کی تقرری کے تنازعہ کے بعد حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر نظر نہیں آرہے ہیں ،حزب اختلاف لانگ مارچ اور احتجاجی سیاست کے بجائے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے سرجوڑ کر بیٹھ گئی ہے،پی ڈی ایم کے رہنماوں نے مارچ کے مہینہ میں اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا ،مگر اب اس کے رہنما کہہ رہے کہ لانگ مارچ کی نوبت ہی نہیں آئے گی کیونکہ اس وقت تک عمران خان کی حکومت ہی مارچ کرچکی ہوگی۔پاکستان پیپلز پارٹی نے جنوری کے مہینہ سے حکومت کے خلاف تحریک شروع کردیا ہے۔ سابق وزیرآعظم نواز شریف کے اسٹیبلشمنٹ سے رابطے اور وطن واپسی کے اعلان نے پی ٹی آئی کی حکومت پر بوکھلاہٹ طاری کردی ہے۔خیبر پختوخواہ کے بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کی ناکامی کے بعد پاکستان تحریک انصاف میں پائے جانے والے انتشار اور پارٹی میں گروپ بندی کی وجہ سے وزیر اعظم عمران خان کو پارٹی کے پرانے تنظیمی ڈھانچہ کو ختم کرکے نیا سیٹ اپ اعلان کرنا پڑا۔ حکومت قومی اسمبلی اور سینٹ میں قانون سازی کرنے سے ڈر ہی ہے،پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلاکر ایک دن میں درجنوں بل منطور کررہے ہیں، پارلیمنٹ کو بے اثر کردیا گیا ہے، وزیر آعظم اور وزراء خود قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس میں شرکت نہیں کرتے، اسمبلی اجلاس کے دوران شدید ہنگامہ آرائی کی جاتی ہے اور گھٹیا الزم تراشی کی جاتی ہے۔حکومت کے لاتعداد مشیر اور ترجمان روزآنہ ٹی وی پر آکر حزب اختلاف کے خلاف بیان بازی کرنے میں مصروف نظرتے ہیں ۔عمران خان ماضی میں اپوزیشن لیڈر کے طور پر ملک سدھارنے اور تبدیلی کے دعوے کرتے رہتے تھے لیکن وزیرآعظم بنے کے بعد یو ٹرن لے کر وہ کررہے ہیں جو نہیں کرنا چاہیے تھا اس لیے پورے ملک میں کہیں کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے۔
آج کی صورتحال یہ ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ کیا پی ٹی آئی کی حکومت اپنی پانچ پانچ سالہ مدت پوری کرسکے گی یا نہیں؟ یا وزیر آعظم عمران خان اسمبلیاں توڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔اسی طرح حزب مخالف کی سیاسی جماعتیں بھی متحد نہ ہونے کی بنا پر کوئی مشترکہ لائیحہ عمل مرتب کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں، وہ اس حکومت کو عوامی احتجاج یا لانگ مارچ کے ذریعہ گھر بھیج سکیں گی یا پھر عدم اعتماد کی کامیابی کے ذریعے اس حکومت کو چلتا کر سکیں گی۔ان کی صفوں میں بھی انتشار پایا جاتا ہے، ملک کی دو اہم جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون ایک وسرے کے خلاف صف آراء ہیں۔ ،دونوںجماعتیں ایک دوسرے پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خفیہ ڈیل کرنے میں مصروف نظر آتی ہے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی میں مصروف ہیں، پیلز پارٹی کے شریک چئیر مین آصف زرداری اپنے بیٹے بلاول بھٹو کو اور مسلم لیگ کے صدر نوز شریف اپنی بیٹی مریم نواز یا بھائی شہباز شریف کو وزیر آعظم کی مسند پر دیکھنے کے لیے طاقتور حلقوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے جوڑ توڑ میں مصروف نظر آرہی ہیں۔ یہ ساری صورتحال کسی اچھے مستقبل کا پیش خیمہ نہیں ہے، پاکستان ایک ناکام ریاست کی طرف گامزن ہو چکی ہے اور ملک کے دیوالیہ ہونے کی بھی چہ مگویاں کی جارہی ہے۔ عالمی سطح پر بھی ہمیں کوئی کامیابی دیکھنے کو مل رہی ہے،نئی افغان حکومت کی حمایت پر بھی ہماری مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے، دہشتگردی اور منی لانڈرنگ روکنے کے معاملہ پر ابھی تک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل نہیں پارہے ہیں ۔کشمیر کے معاملہ پر ہم عالمی سطح پر اس مسئلہ کی اہمیت تسلیم کرانے میں ناکام نظر آتے ہیں ۔ تحریک طالبان کے خلاف بڑی کار وائی کے بعد بھی ہم ان کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اب افغانستان میں طالبان کی حکومت میں آنے کے بعد ایک بار پھر متحرک ہو گئے ہیں اور شمالی و جنوبی وزیرستان کو پاکستان سے علیحدہ کرکے ایک آزاد پشتون ریاست کے قیام کے لیے کا م کررہے ہیں۔گزشتہ دنوں سیالکوٹ میں کھیلوں کا سامان بنانے والے سری لنکا سے تعلق رکھنے والے ایک مینیجر کے ایک اشتعال انگیز ہجوم کے ہاتھوں قتل کے ہولناک واقعہ کے بعد پاکستان کو عالی سطح پر بڑی ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اور اس کی وجہ سے دہشتگردی کے خاتمہ کے لیے ہمارے اقدامات پر بین القوامی سطح پر سوالات اٹھ گئے ہی۔منی ؒانڈرنگ مکمل طور پر روکنے میں بھی ناکامی پر سوالات اٹھائے جارہیں ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت پورے ملک میں کوئی ایسی جماعت نہیں ہیں جو چاروں صوبوں میں یکساں مقبولیت رکھتی ۔کوئی ایک جماعت ایسی نہیں ہے جسے جمہوری جماعت کہا جاسکے ،ہر سیاسی جماعت اپنے سربراہ کے نام سے پہچانی جاتی ہے،کسی دوسرے لیڈر کی پارٹی میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی،پارٹی سربراہ جس لیڈر کو چاہے پارٹی سے نکال کر پھینک دیتا ہے،پارٹی رہنما کی دن رات تعریفیں کرکے ہی لیڈر اور کارکن بڑے عہدے حاصل کرتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ اگر آصف زرداری، نواز شریف، عمران خان، مولانا فضل الرحمان، اسفندر یار ولی، چودھری شجاعت اور محمود خان اچکزئی جیسے قومی سیاستدانوں کو اگر سیاست سے خارج کردیا جائے تو پھر ملک کی تمام سیاسی جماعتیں زمین بوس ہو جائیں گی کیونکہ ان جماعتوں میں موجو لوگ د کسی دوسرے لیڈر کی قیادت پر ہرگز متفق نہیں ہونگے اور یہ سیاسی جماعتیں انتشار کا شکار ہو جائیں گی ۔ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کی سیاست میں حصہ لینے پر پابندی کے بعد اس جماعت کو جو حشر ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہی۔اس صورتحال میں کہا جائے کہ اس وقت ملک میں کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں ہے جو ملک کو درپیش مسائل سے نمٹ سکے ،اگر کسی جماعت میں یہ اہلیت ہوتی توگزشتہ 74سال میں ہمارے یہ مسائل پیدا نہ ہوتے۔چین ،ملائیشائ،کوریا، ویت نام اور انڈونیشیا نے ہمارے بعد آزادی حاصل کی آج وہ کہاں ہیں اور ہم کہاں؟ بنگلہ دیش 1971میں آزاد ہوا آج وسیاسی اور اقتصادی شعبوں میں ہم سے بہت بہتر ہے۔اس کا ہمیں تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم کوئی مشکل فیصلہ کریں ،قومی سیاسی جماعتوں کو خود اپنی اصلاح کی ضرورت ہے ان کو جمہوری طرز پر استوار کرنے کی ضرورت ہے ،پارٹی میں ہر سطح پر انتخابات کرانے کا پابند کیا جائے جس کی مدت دوسال ہو، کوئی پارٹی سربراہ چار سال کی مدت پوری کرنے کے بعد کسی دوسرے رہنما کے لیے جگہ خالی کرے تو پھر ایسی صورتحال میں پارٹیاں ایک قومی جمہوری رول ادا کرنے کے قابل ہو سکیں گی۔ملک کو درپیش مسائل کا حل نکالنے کی طرف گامزن ہونے کے لیے قومی اسمبلی توڑدی جائے۔موجودہ آئین کے تحت سینٹ آف پاکستان اور صدر مملکت کا عہدہ قایم رہے گا،ان کی زیر نگرانی ملک کے ہر شعبہ کے قابل ترین افراد پر مشتمل دو سال کے کے لیے ایک عبوری حکومت قائم کی جائے جس کی سپریم کورٹ آف پاکستان کی منظوری لی جائے تاکہ ہم اپنی معاشی، سیاسی اور مالیاتی مسائل پر قابو پاکے سیاسی جماعتوں کی اصلاح کرکے اگلے عام انتخابات کرائے جاسکیں۔علاوہ ازیں اس دو سال کے اندر ایک سچائی اورمصالحتی کمیشن
( Truth and Reconciliation Commission) جس میں تمام سیاستدانوں کو پیش ہوکر ان کا نقطہ نظر پیش کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔اس کے ساتھ ملک کے موجودہ تمام احتساب کے ادارے ختم کرکے سینٹ آف پاکستان ایک نیا،آزاد اور خود مختار ادارہ بنایا جائے جو کرپشن، لوٹ مار،اقربا پروری، اختیارات کا ناجائز استعمال اور دہشتگرد کاروائیوں میں ملوث افراد کے بلا فریق کاروائی کرسکے۔یہ ہی پاکستان کے مستقبل کے لیے ایک بہتر فیصلہ ہو سکتا ہے۔خدا پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں