شجاعت و بہادری کا پیجر اعتزاز بنگش
شیئر کریں
ذکی ابڑو
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
نومولود ابھی ماں کی کوکھ میں تھا کہ باپ نے بیٹے کی خواہش ظاہر کردی ادھر ماں کی گود ہری ہوچکی تھی اور بیٹے کی خواہش رکھنے والا باپ محنت مزدوری کے لیے اس سے کوسوں دور بیٹھا تھا،ماں نے باپ کی خواہش پوری کی اور اپنے بیٹے کا نام اعتزازحسن رکھ دیا،پردیس میں بیٹھے باپ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا اسے اس کے خوابوں کی تعبیر کی تعبیرملک چکی تھی جسے مکمل کرنے وہ واپس گائوں لوٹ آیا سبھی کے چہرے اس ننھے اعتزاز کو دیکھ کر خوشی سے کھل اٹھے تھے،بچپن سے ہی قد کاٹھ اور خوبصورت رنگ و روپ نکالنے والے ننھے اعتزاز کو بچے موٹا موٹا پکار کر چھیڑا کرتے انہیں نہیں معلوم تھا کہ بڑا ہوکر اعتزاز کا یہی قد کاٹھ اپنے انہی دوستوں کی جان بچانے کے لیے دشمن کے سامنے سیسہ ہلائی دیوار بن جائے گا ،روز سنگلاخ چٹانوں اور پگڈنڈیوں سے گزر کوسوں میل پیدل اسکول آنا اعزازحسن بنگش کا معمول تھااسے کیا خبر تھی کہ انہی راستوں میں اس کا دشمن کا بھی گھات لگائے بیٹھا ہے،آج سے 6 سال قبل 6 جنوری 2014ء جمعرات کے روزحسب معمول ہنگو کے علاقے ابراہیم زئی سے تعلق رکھنے والا اعتزاز حسن بنگش دوستوں کے ہمراہ اسکول کے لیے جب گھر سے نکلا تو اسکول کی اسمبلی سے
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
کی سدائیں ابھی گونجنے ہی والی تھیں کہ خدا نے ان سینکڑوں بچوں کی دعائوں کو لب پر آنے سے پہلے ہی سن لیا، اعتزاز حسن آج ایک پروانے کی صورت اپنے اسکول کی ان ننھی ننھی ٹمٹماتی شمعوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے روشن رکھنے کا عزم لیے ان پر قربان ہونے کوتیار بیٹھا تھا،راستے میں اسے ایک اجنبی شخص ناپاک عزائم کے ساتھ اسکول کی جانب بڑھتا ہوا نظر آیا،اعتزاز نے اپنے ساتھیوں کے بارہا منع کرنے کے باوجود دہشت گرد کے ناپاک عزائم کو بھاپنتے ہوئے اسے پوری قوت سے جکڑ لیا،خودکش بمبارابراہیم زئی اسکول پر حملہ کرنے جارہا تھا،جہاں اس وقت دو ہزار کے لگ بھگ طلباء اسمبلی کے لیے موجود تھے،اعتزاز حسن نے جرات اور بہادری کی شاندار مثال قائم کرتے ہوئے خودکش بمبار کو اسمبلی کی جانب بڑھنے سے پہلے ہی دبوچ لیااور اسوقت تک دشمن کو اپنے شکنجے میں جکڑے رکھاجب تک کہ خودکش جیکٹ پھٹ نہ گئی،ایک طرف دہشتگردوں کا تربیت یافتہ بمبارجنت کے لالچ میں حوروں کے خواب دیکھ رہاتھادوسری طرف اپنی ماں کی تربیت میں پلنے والا اعتزاز احسن اپنے ساتھیوں کی جان کے درپہ آنیوالے خودکش حملہ آور کو واصل جہنم کرکے جنت میں اپنی ماں کا ممتنی ہوکر اپنے ماں ، باپ کے استقبال کوآج بھی ان کے استقبال کے لیے کھڑا ہے۔
16 سالہ طالبعلم اعتزاز حسن نے علم دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے جام شہادت نوش کرلیا،چھ فٹ لمبا اعتاز کا قد دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوارثابت ہوا ہرسال دسمبر میں جب بھی سردیوں کی صبح آتی ہے تو اسکول کے اساتذہ اورسردی سے ٹھٹھرتے ہوئے بچے سہم جاتے ہیں کہتے ہیں کہ دشمن پھر سے کہیںہماری تاک میں نہ بیٹھاہو؟اسکول کے اساتذہ اورطالبعلم کہتے ہیں کہ دسمبر جب بھی آتاہے ہمیں شدت سے اعتزاز بنگش کی یاد دلاتاہے ہماری آنکھ بھرآتی ہے،اعتزاز حسن کو اس کی شجاعت اور جرات مندانہ اقدام کے باعث 6 ستمبر 2015ء کو تمغہ شجاعت سے بھی نوازا گیاجبکہ ہیرالڈ میگزین کی جانب سے اسے ’ہیرو آف دی ایئر‘ قرار دیا گیا،اعتزاز حسن سال 2014ء کے لیے ’ہیرالڈ‘ کی بہترین شخصیت قرار پایاواضح رہے کہ ہیرالڈ کی سال کی بہترین شخصیت کا ایوارڈ اس پاکستانی شخصیت کو دیا جاتا ہے جو سال بھر خبروں کی دنیا پر چھائے رہیہوں ،یوں تو ہمارے ہمارے ملک میں بہادر لوگوں کی کمی نہیں مگر آج بھی جب 16 دسمبر آتاہے اعتزاز حسن کا یہ جراتمندانہ اقدام ہمارے دل ودماغ پر چھاجاتایے،سیکڑوں طالبعلموں کو بچانے کے لیے اعتزازحسن کی شہادت ہمت، بہادری اور جرات کی ایک تابندہ مثال ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔