میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سیپاکراچی میں خطرناک کیمیکلزخارج کرنیوالی فیکٹریوں سے لاعلم

سیپاکراچی میں خطرناک کیمیکلزخارج کرنیوالی فیکٹریوں سے لاعلم

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۷ دسمبر ۲۰۲۱

شیئر کریں

محکمہ ماحولیات کے ماتحت ادارے سیپا کے نان کیڈر ڈی جی نعیم مغل 9 سالہ دور میں سمندر میں گرنے والے آلودہ پانی کی درجہ بندی کرنے میں ناکام ہوگئے، سیپا کے پاس سندھ بھر میں موجود صنعتوں کا ڈیٹا ہی موجود نہیں۔ جرأت کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات پر قائم کردہ جسٹس محمد اقبال کلہوڑو اور جسٹس امیر ہانی مسلم کی واٹر کمیشن میں سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) کے بارے میں حیرت انگیز انکشاف ہوئے ہیں، سیپا کراچی سے سیوریج سمیت صنعتوں کے سمندر میں گرنے والے پانی کی درجہ بندی بھی نہیں کرسکا، سیپا کے پاس کراچی سمیت سندھ بھر کی صنعتوں کے اعداد و شمار و تفصیل ہی موجود نہیں ، کراچی میں خطرناک کیمیکلز خارج کرنے والے فیکٹریز کا بھی سیپا کو علم نہیں، واٹر کمیشن کے سوالات پر سیپا کے اعلیٰ افسران نے آگاہ کیا کہ زیادہ خطرناک کیمیکلز کو اے کیٹیگری، کم درجہ کے خطرناک کیمیکلز کو بی کیٹیگری اور خشک فضلہ کے مواد کو سی کیٹیگری میں شامل کیا گیا ہے، لیکن سیپا کے پاس سمندر میں گرنے والے پانی اور خطرناک کیمیکلز کا کوئی بھی مستند رکارڈ موجود نہیں، کراچی میں سینکڑوں فیکٹریز کا خطرناک کیمیلز والا پانی سمندر، دریائوں اور کینالز میں چھوڑ دیا جاتا ہے جس سے انسان اور جانور آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ محکمہ ماحولیات کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سیپا کے نان کیڈر ڈی جی نعیم مغل اور اس کے دو چہیتے افسران کی پوری توجہ کراچی میں موجود فیکٹری مالکان سے این او سی اور انوائرمنٹل امپیکٹ اسسمنٹ کے بہانے وصولی کرنے پر ہے، سیپا کے اختیار رکھنے والے افسران نے فیکٹریز سے خارج ہونے والے خطرناک کیمیکلز اور سمندر میں گرنے والے پانی کی درجہ بندی یا اس کے اثرات کم کرنے پر کوئی بھی توجہ نہیں دی جس کے باعث سمندر میں مچھلی اور دوسری حیاتیات کو شدید خطرات لاحق ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں