میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سرکاری ملازمت کیلئے کوئی تو میرٹ اور طریقہ کار ہونا چاہیے،سپریم کورٹ

سرکاری ملازمت کیلئے کوئی تو میرٹ اور طریقہ کار ہونا چاہیے،سپریم کورٹ

ویب ڈیسک
منگل, ۱۴ دسمبر ۲۰۲۱

شیئر کریں

سپریم کورٹ میں برطرف ملازمین کیس جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا ہے کہ سرکاری ملازمت کیلئے کوئی تو میرٹ اور طریقہ کار ہونا چاہیے،عدالت نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے،عدالتی فیصلے مستقل کیلئے بطور نظیر پیش ہوتے ہیں جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ دس سال سروس پر ملازمین کو کوئی ریلیف دینا چاہیے تو دے سکتی ہے جس پر اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا ہے کہ پارلیمان حکومت اور میرے ذریعے ایکٹ کا دفاع کر رہی ہے ،۔سپریم کورٹ میں سیکڈ ایمپلائز ایکٹ 2010 کالعدم قرار دینے سے متعلق نظر ثانی درخواستوں پر سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا 7 نومبر 1996 کے خط کے تحت ان ملازمین کو نکالا گیا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کتنے اداروں کے ملازمین سپریم کورٹ کے فیصلے سے متاثرہ ہیں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ 16 اداروں کے 16 ہزار ملازمین بتائے جا رہے ہیں ، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے کہا کہ 5 ہزار متاثرہ ملازمین ہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا قانون کے مطابق ان ملازمین کی پنشن کا حق بنتا ہے؟ اٹارنی جنرل بولے میرے خیال سے قانون کے مطابق ان ملازمین کے پنشن کا حق ابھی نہیں بنے گا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آئین سپریم کورٹ کو مکمل انصاف کا اختیار دیتا ہے،عدالت نے اپنے فیصلے میں بھی بھرتی کے طریقہ کار کا جائزہ لیا ہے، سرکاری عہدوں پر بھرتی کیلئے معیار تو ہونا چاہیے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ درست ہے کہ غیرآئینی قانون سازی میں ملازمین کا کوئی کردار نہیں تھا،بحالی کا قانون دوبارہ نہیں بن سکتا کیونکہ عدالتی فیصلہ آچکا ہے۔جسٹس قاضی امین نے کہا کہ کیا آئین سے بڑھ کر کوئی گورننس سسٹم ہو سکتا ہے؟ حکومت نے پہلے ملازمین کی بحالی کی مخالفت کی اور اب نظرثانی میں بحال کرنا چاہ رہی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں