محکمہ ماحولیات سندھ میں کرپشن ،ڈی جی نعیم مغل کے دفتر کی رپورٹس پر جعلی دستاویزات بننے کا انکشاف
شیئر کریں
(رپورٹ: علی کیریو)محکمہ ماحولیات سندھ کے ماتحت اداروں میںمنصوبوں کی جعلی منظوری کا انکشاف ہوا ہے، سیپا افسران اور ایجنٹس نے کروڑوں روپے وصول کرکے جعلی دستاویزات جار کردیئے، منصوبوں کی جعلی منظوری میں ملوث افسران اور ایجنٹس کی تلاش کے لئے تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔ جراٗت کو موصول دستاویز کے مطابق محکمہ ماحولیات سندھ کے ماتحت سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) کے ڈائریکٹر جنرل نعیم احمد مغل کے دفتر کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹس کے بنیاد پر مختلف منصوبوں کی منظوری کے جعلی دستاویز ات بن گئے ہیں، جعلی دستاویزات کی منظوری میں سیپا کے افسران کے ساتھ نجی ایجنٹ بھی ملوث ہونے کا شبہ ہے ۔ سیپا،انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (ای پی آئی) اورنجی ایجنٹ کے بارے میں تحقیقات کے لئے ڈائریکٹر(ٹیکنیکل) وقار پھلپوٹو کی سربراہی میں کمیٹی قائم کردی گئی ہے، ڈائریکٹر ٹیکنیکل ہیڈکوارٹر ٹو ڈاکٹر عاشق علی لانگاہ اور ڈپٹی ڈائریکٹر ٹیکنیکل ٹو عمران صابر تحقیقاتی کمیٹی میں میمبر کے طور پر فرائض سرانجام دیں گے۔ کمیٹی تمام متعلقہ افسران سے بات چیت کے بعدسندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) کی طرف سے منصوبوں کے جعلی طور پر منظور کئے گئے دستاویزات کی نشاندہی کرے گی، کمیٹی تحقیقات کے بعد جعلی دستاویزات جاری کرنے میں ملوث سیپا افسران اور نجی ایجنٹس کے ناموں کی بھی نشاندہی کرے گی اور کرپشن میں ملوث افسران کے خلاف قانونی کارروائی بھی تجویز کرے گی، تحقیقاتی کمیٹی اپنی رپورٹ15 دن میں پیش کرے گی، جبکہ کمیٹی چیئرمین وقار پھلپوٹو، ڈاکٹرعاشق علی لانگاہ اور عمران صابر اپنی مرضی سے مدد کے لئے کسی افسر کوشامل کرسکتی ہے۔ واضح رہے کہ ہر نئے بڑے ترقیاتی منصوبے کے لئے انوائرمنٹل امپیکٹ اسسمنٹ (ای آئی اے) ، درمیانی منصوبے کے لئے انیشل انوائرمنٹل ایگزامنیشن (آئی ای ای ) اور چھوٹے ترقیاتی منصوبے کے لئے لئے چیک لسٹ کرانا لازمی ہے۔ محکمہ ماحولیات کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سیپا افسران بڑے ترقیاتی منصوبے کے لئے 30لاکھ روپے، درمیانے منصوبے کے لئے 15 لاکھ روپے اور چھوٹے ترقیاتی منصوبے کے لئے 3 سے 5 لاکھ روپے رشوت لیتے ہیں ، عام طور پر روزانہ 3 درمیانے اور 5 چھوٹے منصوبے منظور ہوتے ہیں ، جبکہ 15دن میں ایک بڑا منصوبہ منظور کیا جاتا ہے ۔ افسر کے مطابق صنعتکار اور ریئل اسٹیٹ سے وابسطہ کاروباری افراد بھاری رشوت کے باعث ایجنٹس کے ذریعے جعلی دستاویز تیار کرواتے ہیں ایسے دھندے میں سیپا اور ای پی آئی افسران بھی ملوث ہیں۔