میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مو۔لانا۔۔

مو۔لانا۔۔

ویب ڈیسک
اتوار, ۲۱ نومبر ۲۰۲۱

شیئر کریں

دوستو،ایک بار ایساہوا کہ ایک دفعہ مولانا ظفر علی خان کے نام مہاشہ کرشنؔ، ایڈیٹر ’’پرتاب‘‘ کا ایک دعوت نامہ آیا جس میں لکھا تھاکہ۔۔(فلاں) دن پروشنا (فلاں) سمت بکرمی میرے سُپّتر ویرندر کا مُونڈن سنسکار ہوگا۔ شریمان سے نویدن ہے کہ پدھار کر مجھے اور میرے پریوار پر کرپا کریں‘‘۔ (شُبھ چنتک کرشن)(فلاں دن میرے بیٹے ویرندر کی سرمنڈائی ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ تشریف لاکر مجھ پر اور میرے خاندان پر مہربانی کریں)۔۔مولانا نے آواز دی۔۔سالک صاحب! ذرا آیئے گا۔ فرمایا کہ مہربانی کرکے اس دعوت نامے کا جواب میری طرف سے آپ ہی لکھ دیجیے۔ برسات کے دن ہیں، بارش تھمنے کا نام نہیں لیتی۔ میں کہاں جاؤں گا۔ معذرت کردیجیے۔۔سالک صاحب نے اسی وقت قلم اٹھایا اور لکھا کہ۔۔جمیل المناقب، عمیم الاحسان معلی الالقاب، مدیرِ پرتاب السلام علیٰ من التبع الہدیٰ نام عنبر شمامہ شرفِ صدور لایا۔ ازبسکہ تقاطرِ امطار بحدے ہے کہ مانعِ ایاب و ذہاب ہے۔ لہٰذا میری حاضری متعذّر ہے۔العُذر عِندَ کِرامِ النَّاسِ مقبول۔الرّاجی الی الرحمۃ والغفران۔ظفر علی خان۔۔مہاشہ کرشن نے یہ خط پڑھنے کی کوشش کی۔ کچھ پلے پڑنا تو درکنار، وہ پڑھنے میں بھی ناکام رہے۔ آخر مولانا کو دفتر ’’زمیندار‘‘ ٹیلی فون کرکے پوچھا۔۔’’مولانا! آپ کا خط تو مل گیا، لیکن یہ فرمایئے کہ آپ آسکیں گے یا نہیں؟‘‘اس پر مولانا ظفر علی خان نے بے اختیار قہقہہ لگایا اور مہاشہ جی سے کہا کہ۔۔آپ کا خط میں نے ایک پنڈت جی سے پڑھوایا تھا۔ آپ بھی کسی مولوی صاحب کو بلاکر میرا خط پڑھوا لیجیے۔۔۔
مولانا حضرات سے ہمیں دلی لگاؤ رہا ہے ہمیشہ سے۔۔ بچے کی پیدائش سے لے کر نمازجنازہ تک ہر قدم پر مولانا کی موجودگی لازمی ہوتی ہے۔۔ ہم بطور مسلمان اتنے کم علم ہیں کہ ۔۔ہمیں قدم قدم پر مولانا کی محتاجی ہوتی ہے۔ بچے کے کان میں ہم خود بھی اذان دے سکتے ہیں لیکن آتی ہو تو دیں؟ اس لیے مولانا کو بلوایاجاتا ہے، نماز جنازہ ہم خود بھی پڑھا سکتے ہیں، لیکن مسئلہ وہی کہ آتی ہوتو پڑھائیں۔۔بطور مسلمان ہمیں اپنا مذہب، اپنا دین اتنا آنا چاہیے کہ ہم روزمرہ کے معاملات بااحسن و خوبی اداکرسکیں۔۔نمازکے اختتام پر مولوی صاحب نے دس منٹ تک رقت انگیز دعامانگی۔۔ پہلی صف میں ایک نامور سیاست دان بھی تشریف فرما تھے، مولانا سے کہنے لگے۔۔حضرت سیاست دانوں کے لیے بھی دعائے خیرفرمادیجیے۔۔مولوی صاحب نے اس کی طرف دیکھا۔ پھر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ یا اللہ ہمارے ملک کو ہر آفت سے محفوظ رکھ۔۔ایک مولوی صاحب پاکستان سے لندن پہنچ گئے۔۔انہوں نے لندن میں مسلمانوں کے گھروں میں جا جا کر انہیں یہ بتانا شروع کر دیا کہ اب وہ یہاں آ گئے ہیں لہذا انہیں اپنے مذہب اور ایمان کی فکر کی ضرورت نہیں رہی ۔۔کسی دل جلے نے کہا۔۔’’مولوی صاحب یہ کیا ظلم کیا ہے ہم تو آپ کے شر کے خوف سے پاکستان چھوڑ آئے تھے اور آپ یہاں بھی پہنچ گئے ہیں‘‘۔
مولوی صاحب نے اپنی تقریر میں کہا۔۔میری زندگی کے سب سے سہانے شب و روز جس عورت کے ساتھ گزرے وہ عورت میری بیوی نہیں تھی۔ حاضرین کو سانپ سونگھ گیا کہ مولوی صاحب کیا کہہ رہے ہیں؟
تھوڑے توقف کے بعد مولوی صاحب نے کہا۔۔ جی، وہ عورت کوئی اور نہیں میری ماں تھی۔۔ایک صاحب کو یہ بات بہت اچھی لگی، اس نے سوچا کیوں ناں گھر جا کر اس کا تجربہ کر لے۔ سیدھا کچن میں گیا جہاں اس کی بیوی انڈے فرائی کر رہی تھی، اسے کہا کہ میری زندگی کے سب سے سہانے شب و روز جس عورت کے ساتھ گزرے وہ عورت کم از کم تم نہیں تھی۔چار دن کے بعد جب ان صاحب کے منہ سے پٹیاں اتاری گئیں اور تیل کی جلن کچھ کم ہوئی تو بولے۔۔ کاپی پیسٹ ہمیشہ بھی سود مند نہیں ہوا کرتا۔۔مولوی صاحب سے ایک آدمی نے پوچھا۔’’مولوی صاحب کیا ہمیں جنت میں سب چیزیں ملیں گی؟ مولوی صاحب نے جواب دیا۔ کیوں نہیں وہاں پر ہر شے ملے گی۔ پھر وہ آدمی کہنے لگا۔۔ کیا ہمیں سگریٹیں بھی ملیں گی۔ ’’ہاں ملیں گی مگر جلانے کے لیے جہنم میں جانا پڑے گا۔‘‘۔۔ایک مولوی صاحب کسی گاؤں میں پہنچے انھیں تبلیغ کا شوق تھا، جمعے کا خطبہ پورے ایک ہفتے میں تیار کیا لیکن جمعے کے دن صرف ایک نمازی مسجد میں آیا۔ انھوں نے اس شخص سے کہا تم واحد آدمی ہو جو مسجد میں آئے ہو۔ بتاؤ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ وہ بولا مولوی صاحب میں ایک دیہاتی آدمی ہوں مجھے اتنا پتہ ہے کہ اگر بھینسوں کے لیے چارہ لے کر پہنچوں گا اور وہاں صرف ایک بھینس ہو تو میں اسے چارہ ضرور دوں گا۔ مولوی صاحب بہت خوش ہوئے انھوں نے بھی پوری تقریر کر ڈالی۔ اس کے بعد انھوں نے دیہاتی سے پوچھا کہ بتاؤ خطبہ کیسا تھا؟ دیہاتی نے لمبی جمائی لی اور کہا مولوی صاحب میں ایک دیہاتی آدمی ہوں صرف اتنا جانتا ہوں کہ اگر میرے سامنے صرف ایک بھینس ہوگی تو میں ساری بھینسوں کا چارہ اس کے آگے نہیں ڈالوں گا۔۔
جس قوم میں پڑوس کی بیٹی کنواری بیٹھی ہو اور بیواؤں اور یتیموں کا کوئی آسرا نہ ہو۔۔ اورقوم کے دولت مند لوگ عمرہ پرعمرہ اور حج پہ حج کررہے ہوں، کیا وہ قوم ترقی کر سکتی ہے؟۔۔۔ جس قوم کے غریب بیماروںکے پاس علاج کا کوئی بندوبست نہ ہو،حکمراں اور لیڈران معمولی سر کے درد کا علاج بھی بیرون ملک کراتے ہوں، کیا وہ قوم ترقی کر سکتی ہے؟۔۔ جس قوم کے ہونہار نوجوان بیروزگاری کے شکار ہوں اور قوم کے مالدار لوگ اپنے محلّات سجانے اور سنوارنے میں لگے ہوں ، کیا وہ قوم ترقی کر سکتی ہے؟۔۔۔ جس قوم کے لوگ اپنے امام اور مؤذن کا خون چوس رہے ہوں،اورمسجدیں سنگ مرمر سے سجائی جارہی ہوں، کیا وہ قوم ترقی کر سکتی ہے؟ہمارے ملک کا حال سب کے سامنے ہے لہسن ادرک چین سے منگائے جارہے ہیں، ٹماٹر ایران دے رہا ہے، پیاز اور کیلے بھارت سے آرہے ہیں اور پھر ہمارا دعویٰ ہے کہ ’’زراعت ہماری ریڑھ کی ہڈی ہے۔۔‘‘ہم نے انسانی تاریخ کی سب سے لمبی جنگ پاکستان میں دیکھی ہے کیونکہ جب یہ ملک بنا ہے اسے ہم نے ’’حالت جنگ‘‘ میں دیکھا ہے۔۔آپ جس طرح سانپوں سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ پھنکارنا اور ڈسنا چھوڑ دیں اسی طرح سیاست دانوں سے درخواست بھی نہیں کرسکتے کہ وہ جھوٹ بولنا اور کرپشن کرنا چھوڑ دیں۔۔ ہمارے یہاں گوالے اور ادارے پچھلے ستر برس سے عوام کو خالص دودھ اور اصلی احتساب کے نام پر مسلسل چونا لگارہے ہیں۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔مذہب کے نام پر لوگ اتنی عبادت نہیں کرتے جتنی بحث کرتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں