سیکورٹی کانفرنس اور ٹرائیکا اجلاس کا اعلامیہ
شیئر کریں
موجودہ دور میں کوئی ملک عالمگیر نظم سے کٹ کر آگے نہیں بڑھ سکتا۔معاشی بقا کے لیے اِس نظم سے ریاستوں کی وابستگی لازم ہے ۔معاشی بقا کے ساتھ آزادی و خودمختاری کا تحفظ بھی عالمی برادری کا حصہ بنے بغیر ممکن نہیں ۔دوستانہ تعلقات کے لیے نہ چاہتے ہوئے بھی کئی معاملات پر عالمی برادری کے ساتھ چلنا پڑتا ہے۔ ایسی صورتحال ہی آج کل افغانستان کو درپیش ہے کیونکہ طالبان قیادت منتخب نہیں بلکہ بزوربازو حکمران بنی ہے۔ اسی لیے دنیا کو تشویش ہے کہ اگر طالبان اقتداربرقرار رکھنے اور سیاسی و اقتصادی بحالی میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو کہیں دنیا میںدوبارہ طاقت کے بل بوتے پر فتوحات کا سلسلہ شروع نہ ہوجائے ۔ اسی لیے طالبان کو عالمگیریت کا حصہ بننے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ حالانکہ طالبان نے پہلے دور کی بہ نسبت رویہ کافی لچکدار کر لیا ہے۔ نہ صرف خواتین پر تعلیم کے دروازے مرحلہ وار کھولے جا رہے ہیں بلکہ ہمسایہ ممالک کو یقین دہانی کرائی جارہی ہے کہ دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین استعمال کرنے کی کسی کو ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی بلکہ داعش خراسان کے خلاف فیصلہ کن کارروائیاں بھی کی گئی ہیں ۔یہ ایک غیر معمولی تبدیلی ہے پھر بھی دنیا کی بے اطمینانی اور بداعتمادی برقرارہے۔ دنیا کے لیے خودکو قابل ِ قبول بنانے کی جدوجہد میں مصروف طالبان کو ابھی تک کسی ہمسایہ ملک یا عالمی طاقت نے تسلیم نہیں کیا۔ابھی تک مطالبات کیے جارہے ہیں ،افغان عوام کو درپیش مسائل کا جائزہ لینے اور طالبان کوعالمگیریت کا حصہ بنانے کے حوالے سے پہلے بھارت میںسیکورٹی کانفرنس منعقد ہوئی جس کے فوری بعد اسلام آباد میںٹرائیکا پلس اجلاس ہوا جن میں افغانستان کے متعلق متفقہ لائحہ عمل بنانے پر غورو خوض کیا گیا۔
10نومبر کو بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے دہلی میں علاقائی ممالک کی کانفرنس رکھی وسطی ایشیائی ممالک کے علاوہ روس،چین ،ایران اور پاکستان کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی پاکستان نے تو شرکت سے ہی دوٹوک انکار کر دیا ۔چین نے بھی شرکت نہ کی اِس کانفرنس کا مزید تاریک پہلو یہ ہے کہ جس ملک افغانستان کے لیے یہ کانفرنس بلائی گئی، اُس نے بھی شرکت سے گریز کیا جبکہ بھارت کے موجودہ قریبی اور پُرجوش اتحادی امریکا کی عدم شرکت بھی سب کو کھٹکتی رہی پھر بھی بھارتی کوششوں سے افغانستان کے آٹھ پڑوسی ممالک شامل ہوئے لیکن چند ایک مطالبات کے سوا کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے جو کانفرنس کی ناکامی ہے۔ مزید قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اِس کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ کے علاوہ روس نے خاص طور پر اپنا ایک الگ بیان جاری کرنا ضروری سمجھا جو بھارت کی طرف سے جاری کیے بیان سے بہت مختلف ہے ۔ یہ الگ بیان اِس امر کا عکاس ہے کہ روس نے معاشی و اقتصادی ضرورتوں کی بنا پر کانفرنس میں شرکت تو کر لی لیکن اختلافِ رائے کے طور پردنیا کے سامنے الگ موقف رکھا ۔ایران کی شرکت بھی معاشی ضرورتوں کی مرہونِ منت ہے۔ بھارت کی اولین کوشش ہے کہ کسی طرح افغانستان کو امداد پہچانے کے لیے پاکستانی گزرگاہیں استعمال کرنے کا اجازت نامہ مل جائے تاکہ وہ کشمیریوں کو یہ باور کرا سکے کہ کشمیر کی تبدیل شدہ حقیقت کو پاکستان نے بھی تسلیم کر لیاہے، اسی لیے تجارتی راہداریاں کھولی گئی ہیں حالانکہ اگست میں طالبان کے کابل داخلے پر بھارتی حکومت کئی ہفتوں تک ہکا بکا رہی مگر یہ اچانک بھاگ دوڑ اِس امر کی اغماض ہے کہ بھارت کو افغانوں کی بہتری سے غرض نہیں وہ اپنے اہداف کے تعاقب میں ہے جس میں طالبان کو کشمیریوں سے فاصلے پر رکھنا بھی شامل ہے۔ بار بار دہرایا جارہا ہے کہ افغان سرزمین کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہیں بننے دیا جائے گا ،قبل ازیں ہمسایہ ممالک کے خلاف بھارت افغان سرزمین استعمال کرتا رہا ہے دہلی کی سیکورٹی کانفرنس کا اسلام آباد کے ٹرائیکا پلس اجلاس سے موازنہ کیا جائے تو دہلی کانفرنس کی ناکامی عیاں حقیقت ہے کیونکہ چین ،پاکستان اور افغانستان کی عدم شرکت سے کانفرنس کامقصد ہی ختم ہوگیا۔
گیارہ نومبر جمعرات کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں افغانستان کے حوالے سے ٹرائیکا پلس اجلاس کا آغاز ہوا جس پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ سمیت تینوں بڑی طاقتوں امریکہ ،روس اور چین کے نمائندوں نے شرکت کی۔ یہ اجلا س ہر حوالے سے ایک مکمل اور جامع تھا جس میں افغانستان کے قائم مقام وزیرِ خارجہ کوپاکستان میں مکمل سرکاری پروٹوکو ل دیا گیا اِس اجلاس کی خاص بات یہ ہے کہ طالبان سے روابط رکھنے پر شرکا نے کامل اتفاق کرنے کے ساتھ ایک جامع اور ہر حوالے سے نمائندہ حکومت بنانے ، غیرملکی افراد اور اِداروں کے تحفظ ،خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم تک یقینی رسائی ،ہمسایہ ممالک سے دوستانہ رویہ اپنانے،بین الاقوامی دہشت گرد گروپوں سے تعلقات ختم کرنے اورتجارتی ہوائی ٹریفک قبول کرنے والے ہوائی اڈے بنانے کے مطالبات پیش کیے گئے۔ قائم مقام وزیرِ خارجہ امیرخان متقی کی موجودگی سے شرکا کو ایک دوسرے کا نقطہ نظر جاننے کااچھا موقع ملا افغانستان کی نئی انتظامیہ نے انسانی بحران کے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے عالمی برادری سے فوری مدد کی اپیل کی ہے ۔اجلاس میں افغانستان میں حالیہ دہشت گرد حملوں کی شدید مذمت کی گئی ممکنہ تباہی ،انسانی بحران اور پناہ گزینوں کی نئی لہر کے امکانات پر بھی غور کیا گیا۔پاکستان نے افغانستان کے مالی اثاثے ضبط کرنے کے عمل سے دہشت گردگروہوں کے خلاف کارروائیوں کو دھچکا پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا، جس کا مطلب ہے کہ ٹرائیکاپلس اجلاس میں تمام پہلوئوں پر تفصیلی غوروخوض کیا گیا ہے۔ اِس لیے مثبت نتائج کی قوی امید ہے پاکستان کا یہ مطالبہ درست ہے کہ افغانستان کو بھوک ،بیماری اور ہلاکتوں کے خطرات سے بچانے کے لیے فوری عالمی تعاون ناگزیر ہے۔ ایک طرف افغانستان بحرانوں کی زد میں ہے تو بھارت جیسا جارحانہ عزائم رکھنے والا ملک مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے پھر سرگرم ہونے لگا ہے جس پر علاقائی ممالک کو نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ عالمی طاقتوں کو بھی چاہیے کہ افغان مسائل حل کرنے کی کوشش کے دوران مسائل بڑھانے کے اقدامات سے پرہیز کریں ۔ افغانستان میں دوبارہ بھارت کو پائوں جمانے میں اعانت کرنا مسائل بڑھانے کی اجازت ہے۔ عالمگیریت میں لانے کے لیے طالبان کو وقت ملنا چاہیے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ دبائو ڈالنے کے بجائے دلائل سے قائل کرنے کا عمل زیادہ سود مند ہوتا ہے ۔
٭٭٭٭