نیب کی ساکھ شدید خطرے میں، افسران بدعنوانیوں میں ملوث
شیئر کریں
پاکستان کے اہم احتسابی ادارے قومی احتساب بیورو (نیب ) کی ساکھ شدید خطرے میں آگئی ہے۔ نیب کے موجودہ اور سابق ملازمین پر لین دین کے ایسے الزامات سامنے آرہے ہیں جو ادارے کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں، کراچی میں مختلف بلڈرز ، فارما صنعت ،بلدیاتی اداروں کے افسران اور مختلف محکموں کے سرکاری ملازمین پر مختلف اوقات میں مختلف کیسز کا ذکر ذرائع ابلاغ میں ہوتا رہا ہے، اگر اس کی فہرست ہی مرتب کرکے نیب سے معلوم کیا جائے تو ان کے پاس کوئی جواب نہیںکہ ان کے خلاف تحقیقات کا اب تک کیا ہوا۔ تاہم نیب میں مختلف تفتیش کا سامنا کرنے والے مذکورہ مبینہ بدعنوانوں سے ان تحقیقات پر بات کی جائے تو وہ طنزیہ ہنسی کے ساتھ نیب کا مزاق اڑاتے دکھائی دیتے ہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ چمک کے خرگوش نیب میں مختلف قسم کے سوراخ بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں، جس کے بعد ثابت شدہ بدعنوانیوں سے لے کر زیرتفتیش مقدمات تک سب کو کنارے لگانے کے مختلف طریقے اس خوب صورتی سے وضع کرلیے گئے ہیں کہ ملک بھر کے بدعنوانوں کو یہ معلوم ہے کہ کس کیس میں کیسے جان چھڑائی جاسکتی ہے۔ درحقیقت نیب کے بدعنوان دوست طریقے نے بدعنوانوں کو کھل کھیلنے کا حوصلہ فراہم کردیا ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے نیب چھوڑنے والے افسران سے لے کر نیب میںموجود افسران تک کے متعلق ایسی خبریں گردش کررہی ہیں کہ وہ کس طرح بدعنوان عناصر کو مختلف طریقوں سے پھانس کر اپنی خواہشات کو پورا کرتے ہیں۔ حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے بینکنگ امور کے ماہر منور گوپان پر الزام ہے کہ اُس نے مختلف کیسز کے آئی اوز کو شامل کیے بغیر بیس کروڑ روپے کی رقم اکٹھی کرلی ہے۔ اسی طرح نیب کے ایک اور نچلے ملازم زین نے تین کروڑ کی پلی بارگین کے لیے اپلائی کررکھا ہے۔ کراچی نیب چھوڑ جانے والے اسامہ یونس کا قصہ بھی کچھ ایسا ہی ہے جس نے ملازمت چھوڑنے کے باوجود کسی اور جگہ ملازمت کرتے ہوئے نیب کے نام پر مختلف بدعنوانوں سے مختلف ڈیلیں بنائیں۔ وہ اس وقت چھ کروڑ کی پلی بارگین اپلائی کرچکے ہیں۔ نیب کراچی کے ایک اسٹینو منیر کو ملتان ٹرانسفر کیا گیا تھا، مگر اُس پر بھی اسی نوع کے مختلف الزامات سامنے آنے کے بعد نیب ملتان سے گرفتار کرنے کے بعد کراچی منتقل کردیا گیا ہے۔ سندھ گورنمنٹ کے گریڈ اٹھارہ کے ایک افسر ضمیر عباسی کبھی نیب میں فرائض انجام دے چکے ہیں مگر وہ بھی مبینہ بدعنوانیوں پر ان دنوں نیب ریڈار پر ہے۔ مگر وہ عدالت سے ضمانت قبل ازگرفتاری لے چکے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ نیب کے نچلی سطح پر سامنے آنے والے نہایت معمولی کیسز ہیں ، مگر بڑے بڑے بلڈرز ،بڑی بڑی فارما مافیائیں، بلدیاتی اداروں کی بڑی مچھلیاں، سرکاری اداروں کے مگرمچھ، اور سیاسی شخصیات کے بدعنوانی کے معاملات اونچی سطح پر طے اور تہہ کیے جانے کے مسلسل اشارے مل رہے ہیں۔ جس نے نیب کی ساکھ کو بُری طرح مجروح کردیا ہے۔