وزیراعلیٰ بلوچستان سے دوبارہ حلف اٹھانے کا مطالبہ
شیئر کریں
فرور ی 2008 ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی۔ پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر محض چھ امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ چونکہ مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی۔ اس بنا آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے اراکین اسمبلی پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔ چناں چہ نواب اسلم رئیسانی کی وزارت اعلیٰ میںمسلم لیگ قائداعظم، ن لیگ، جمعیت علماء اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی اور عوامی نیشنل پارٹی پر مشتمل مخلوط حکومت کی تشکیل ہوئی ۔تقریبا تمام ارکان وزیرو مشیر لیے گئے۔ ایک محکمہ کے لیے دو دو وزیر مقرر ہوئے۔ سردار یار محمد رند اور نوابزادہ طارق علی مگسی حزب اختلاف کے بنچ پر بیٹھ گئے۔سرداریار محمد رند البتہ حلف لینے کے بعد اسمبلی کے کسی اجلاس میں شریک نہ ہوئے۔ آصف علی زرداری طاقتور صدر مملکت تھے۔ ان کی اور نواب اسلم رئیسانی کے درمیان تعلق خوشگوار نہ ٹھہر سکا۔ نواب رئیسانی دور حکومت میں صوبے کے اندر بدامنی انتہاء پر تھی۔ سرکاری ملازمین، صوبے کے آباد کارشہریوں اور دوسرے صوبوں سے آئے ملازمین و مزدور پیشہ افراد کے قتل کے واقعات تواتر کے ساتھ رونما ہوتے۔ پولیس، لیویز اور فرنٹیئر کور کے اہلکار تو تھے ہی نشانے پر ۔ نیز اس پورے عرصہ کوئٹہ کے ہزارہ عوام پر بھی قیامت ٹوٹی رہی۔ خودکش حملوں اور ہدفی قتل کے واقعات میں سینکڑوں مرد وزن پیوندخاک کردیے گئے۔ گویا حکومت کی عملداری صفر ٹھہری۔ اس صورتحال میں مختلف جانب و حلقوں کی تشویش اور اٹھنے والی آواز نے وفاقی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہیجان میں مبتلا کر رکھا۔ جنوری2013ء کو علمدار روڈ پر یکے بعد دیگرے دو خودکش دھماکوں کے باعث بھاری جانی نقصان ہوا۔ مرنے والوں میں اکثریت ہزارہ افراد کی تھی جس کے خلاف علمدار روڈ پر میتوں کے ہمراہ دھرنا دیا گیا۔ دھرنے نے حکمرانوں کے ہوش اڑادیے ۔ ملک بھر سے سیاسی و مذہبی شخصیات اور نمائندے اظہار یکجہتی کے لیے آئے۔ ہدف تنقید پوری طرح نواب اسلم رئیسانی کی حکومت تھی۔ حالانکہ خود نواب اسلم رئیسانی اور اس کا خاندان محفوط نہ تھا ،نواب رئیسانی پر بم دھماکا ہوچکا تھا۔ ان کے بھائی سراج رئیسانی پر مستونگ میں بم حملہ ہوا ،وہ فٹبال میچ میں مہمان خصوصی تھے۔ کالعدم بی ایل اے کے اس حملے میں ان کا جوں سال بیٹا میر حقمل رئیسانی جاں بحق ہوگئے۔ پھر نوابزادہ سراج رئیسانی کو بھی کالعدم مسلح مذہبی گروہ نے 2018ء کے انتخابات کے دوران انتخابی جلسہ میں خودکش حملہ کراکر ابد کی نیند سلادیا۔ کئی دوسرے بے گناہ وغریب لوگ بھی جان سے گئے۔
گویا آصف علی زرداری کی حکومت نے ان حالات میںحالات کی خرابی کا سارا کا بوجھ و زمے داری کا بوجھ ڈالتے ہوئے بلوچستان کی حکومت کو بَلی کا بکرا بنایا۔ خود کو بری الذمہ کیا اور عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے صوبے میں گورنر راج نافذ کردیا۔ مگر بھر بھی حالات جوں کے توں ہی رہیں، دہشتگردی کے واقعات میں کمی نہ آسکی۔ بلکہ خیبر پشتونخوا اور قبائلی علاقوں میں بھی بدامنی شدت کے ساتھ موجود رہی۔ نواب اسلم رئیسانی البتہ مستعفی نہ ہوئے، دو ماہ کے گورنر راج کے بعد حکومتی ذمے داریاں واپس سنبھال لیں اور مدت پوری کرلی۔ بہرحال صوبے کے اندر گورننس خراب رہی،بے یقینی چھائی رہی۔دیکھا جائے تو جام کمال کے ہٹانے کے لیے قطعی حقیقی جواز موجود نہ تھا۔ صوبے میں سرکاری و حکومتی مشنری بہتر کام کررہی تھی۔ البتہ اس محلاتی سازش کے بعد بے یقینی و عدم اطمینان کی کیفیت پیدا ہوچکی ہے ۔ صوبے کے عوام کا استحقاق مجروح ہوا ہے۔ آئین و دستور کی آڑ میں در اصل قانون کی پامالی ہوئی ہے ۔پستی کا نمونہ تو صوبہ بن ہی چکا ہے ۔مزیدعبدالقدوس بزنجو کی قیادت میں متحدہ حزب اختلاف کی جماعتوں جمعیت علماء اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی ملی بھگت سے باقی ماندہ مدت حکومت میں بڑی کرخ تاریخ رقم ہوگی ۔بد قسمتی سے صوبے میں اکثران لوگوں کو نوازا گیا ہے، جن کی فی الواقع خدمات نہ رہی ہیں۔ نواب زہری کی حکومت میں ادھر ادھر سے اٹھا کر،اقرباء اور دوسرے چہیتے سینیٹرز بنائے گئے ۔ ایسا بلوچستان عوامی پارٹی کی حکومت میں بھی ہوا۔ مال و زر اور دست شفقت کو اہمیت دی گئی ہے ۔
نوابزادہ سراج رئیسانی کی مثال لے لیجئے جو ہر لحاظ سے سینٹ آف پاکستان کے ٹکٹ اور کامیابی کے حقدار تھے ۔جن کی ریاست کے ساتھ وفاداری ثابت تھی۔جوان بیٹا گنوایا ۔مگر انہیں دانستہ نظر انداز کیا جاتا رہا ۔بالآخر سراج رئیسانی کو پی بی35مستونگ کے لئے بی اے پی کا ٹکٹ دیا گیا وہ بھی بڑے بھائی نواب اسلم رئیسانی کے مد مقابل جو نہ صرف خاندان کے بڑے ہیں بلکہ رئیسانی قبائل کے بھی نواب ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ریاست اور اس کے اداروں سے اخلاص و فکری ہم آہنگی کی پاداش میں خودکش بم حملے کا نشانہ بن گئے۔ دراصل سراج رئیسانی کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہوئی۔برعکس ایرے غیرے کامیاب کراکر ایوان بالا بھیجے جاتے۔ بہر کیف تادیر کشمکش کے بعد 7نومبر کو 14رکنی کابینہ نے حلف اٹھالیا ہے۔کابینہ بلوچستان عوامی پارٹی، تحریک انصاف، بلوچستان نیشنل پارٹی( عوامی)،عوامی نیشنل پارٹی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی پر مشتمل ہے۔وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کے 29اکتوبر کو عہدے کے حلف پر قانونی سوال ٹھایا گیا ہے ۔جس میں اس نے غلطیاں کیں۔ـ’اپنے فیصلوں پر کسی کو اثر اندازنہیں ہونے دوں گا ‘کی بجائے اپنے فیصلوں پر کسی کو نظر انداز نہیں ہونے دوں گا پڑھا۔مملکت کا مکمل نام بھی غلط لیا۔چناں چہ قانون دان امان اللہ کنرانی نے گرفت کرتے ہوئے دوبارہ حلف اٹھانے کی جانب تو جہ دلائی ہے ۔
یہاں یہ پہلو بھی پیش نظر ہو کہ عبدالقدوس بزنجو نے اسپیکر کے منصب پر ہوتے ہوئے جام کمال کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے لئے کھلم کھلا مہم چلائی ہے۔ اور آخری دنوں میں حزب اختلاف کے ارکان اور جام مخالف دوسرے اراکین اسمبلی بزنجو کی رہائشگاہ پر مقیم رہے۔ لہٰذا امان اللہ کنرانی یا کوئی بھی قانون دان عدالت عالیہ سے رجوع کریں تاکہ آئندہ کے لئے کوئی تجاوز کا مرتکب نہ ہو اور منصب کا اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کرے ۔ بزنجو کو فریق بنایا جائے اور عدالت ان سے اس بابت وضاحت طلب کرے۔ نواب اسلم رئیسانی کی حکومت میں چونکہ نوابزادہ طارق مگسی ہی حزب اختلاف کے تنہاء رکن تھے اور قائد بھی تھے، تو حکومت کی مدت پوری ہونے سے چند دن قبل جمعیت علماء اسلام کے اراکین نے مستعفی ہوکر حزب اختلاف کے بنچوں پر بیٹھنے کے لئے اسپیکر کو درخواست دے دی۔ مقصد یہ تھا ہ نگراں وزیراعلیٰ او رکابینہ کی تشکیل باہمی طور کی جائے ۔ اقدام اسمبلی قاعدے اور ضابطے کے تحت درست تھا ،کہ کوئی بھی پارلیمانی جماعت یا رکن کسی بھی وقت و لمحہ ایسا کرنے کا حق رکھتا ہے ،تاہم اخلاقاً و روایتاً یہ درست نہ تھا۔ یوں طارق مگسی ، شیخ جعفر خان مندوخیل نے اقدام بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ۔ قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس تھے چناں چہ ان پر مشتمل بنچ نے فیصلہ طارق مگسی کے حق میں دے دیا۔ اسمبلی رولز نظر انداز ہوئے، یعنی اس پہلو پر دوبارہ عدالت سے رجوع ہو۔ واضح ہو کہ شیخ جعفر خان مندوخیل تب بلوچستان اسمبلی میںمسلم لیگ قائداعظم کے پارلیمانی لیڈر تھے ،ق لیگ نواب اسلم رئیسانی کی حکومت کا حصہ تھی ۔شیخ جعفر مندوخیل نے وزارت نہیںلی تھی۔ آخر وہ طارق مگسی کے ساتھ حکومت مخالف صف میں کھڑے ہوگئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔