شمال مشرقی شام کو نہیں بھولنا چاہیے
شیئر کریں
(مہمان کالم)
بل ٹریو
شمال مشرقی شام کا منظر نامہ ایف سکاٹ فٹزجیرالڈ کی راکھ کی وادی کے سٹیج کی طرح افق تک بری طرح پھیلا ہوا ہے۔کبھی یہ شام کی خوراک کی پیداوار کا علاقہ تھا، لیکن اب یہ خطہ متعدد جنگوں، معاشی بحران اور حال ہی میں خشک سالی اور آلودگی کی وجہ سے تباہ ہو چکا ہے۔ وہ جگہیں جو دھول اور سموگ کی دھند میں تحلیل ہو چکی ہیں، جو سکاٹ فٹزجیرالڈ کے اندازِ بیاں میں اگر بیان کریں تو، عمارتوں، دیہاتوں اور کاریگروں کی تیل کی ریفائنریوں کی شکل اختیار کرلیتی ہیں، لوگ تیزی سے مایوس ہو رہے ہیں۔کچھ عرصے کے لیے دنیا کے اس نسبتاً چھوٹے کونے پر ایک عالمی توجہ شدید تھی جہاں 20 لاکھ سے زائد افراد رہتے ہیں۔ یہ صورت حال اس وقت عروج پر پہنچ گئی جب یہ دولت اسلامیہ کی وحشیانہ خلافت کا خودساختہ دارالحکومت بنا اور اس طرح دہشت گرد گروہ کو ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی میدان جنگ بن گیا۔
2019 میں یہ خطہ جو اب تقریباً مکمل طور پر کرد انتظامیہ کے زیر انتظام ہے، ایک بار پھر سرخیوں میں آ گیا جب ترکی نے حملہ کیا اور اس کے بعد سرحدی خطے کے کچھ حصوں پر قبضہ کرلیا۔اب جبکہ داعش کو جغرافیائی طور پر بڑی حد تک شکست ہوئی ہے اور ترکی کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر جنگ بندی کی گئی ہے تو یہ کسی حد تک فراموش کیا جاتا محسوس ہوتا ہے باوجود اس کے کہ وہاں ہر روز انسانی اور ماحولیاتی بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے۔اس سال کے اوائل میں اقوام متحدہ کے خوراک اور زراعت کے ادارے نے خطے میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے خشک سالی بلکہ تنازعات (اور ممکنہ طور پر سیاسی ہیرا پھیری) کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ جیسا کہ پیش گوئی کی گئی ہے کہ اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ فرات کے معاون دریا خشک ہوچکے ہیں، فصلیں ناکام ہو چکی ہیں اور میں نے جن کسانوں سے بات کی تھی انہوں نے کہا ہے کہ وہ اگلے سال کے لیے ہل چلانے اور اپنے بیج لگانے سے ڈرتے ہیں کیونکہ یہ فصل بھی ممکنہ طور پر دوبارہ ناکام ہو جائے گی۔
سیو دی چلڈرن‘ نے گذشتہ ہفتے ہی کہا تھا کہ اہم دریاؤں میں پانی کی کم سطح اور پانی کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے لاکھوں افراد کی زندگیاں ’خطرے میں ہیں۔‘ انہوں نے عالمی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ اگلے ہفتے گلاسگو میں شروع ہونے والے اقوام متحدہ کے سی او پی 26 سربراہ اجلاس سے قبل آب وہوا کے بحران سے نمٹیں۔ انہوں نے انسانی امداد بڑھانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔اس علاقے کی مشکلات میں عالمی وبا اور طبی رسد کی کمی کی وجہ سے اضافہ ہورہا ہے۔ ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے گذشتہ ہفتے خبردار کیا تھا کہ شمال مشرقی شام روزانہ کوویڈ-19 کیسز کے حوالے سے اپنا ریکارڈ توڑ رہا ہے اور یہاں ویکسینیشن کی شرح انتہائی کم ہے۔اس میں ایک اہم عنصر یہ بھی ہے کہ 2020 میں شمال مشرقی شام میں اقوام متحدہ کی امداد کی فراہمی کا واحد کراس بارڈر پوائنٹ بند رہا تھا۔ الیاروبیہ سے ترکی تک اقوام متحدہ کی کارروائیوں کی جگہ حکومت کے زیر قبضہ دارالحکومت سے ترسیلات کی جانی تھیں لیکن ایمنسٹی کے مطابق افسر شاہی کی رکاوٹوں اور رسائی پر پابندیوں کی وجہ سے علاقے تک پہنچنے والی امداد خصوصاً طبی امداد کے حجم میں تیزی سے کمی واقع ہوئی۔اس سال اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس بارے میں رائے شماری کرنے میں ناکام رہی کہ آیا کراسنگ کو دوبارہ کھولا جائے یا نہیں اور یہ دکھ بھری کہانی جاری ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام نے یہاں تک خبردار کیا ہے کہ اگر کچھ نہ کیا گیا تو ان تمام عوامل کو بڑے پیمانے پر فاقہ کشی یا شمالی شام میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔
’یہ پہلے ہی ہو رہا ہے۔ لوگوں کو پہلے ہی اس علاقے سے نکلنا پڑا ہے۔‘ یہ بات مجھے ایک خاتون گلہ بان نے ایک خشک دریا کے کے کنارے بیٹھے بتائی، جس کا میں نے گذشتہ ہفتے انٹرویو کیا تھا۔ یہ دریا کبھی اس علاقے کے متعدد دیہات کو پانی مہیا کرتا تھا۔’لیکن میں کہاں جا سکتی ہوں؟‘ اس نے اپنی بکریوں کو خشک زمین کی بڑھتی ہوئی دراڑوں سے نکلے کانٹوں پر چرتے ہوئے دیکھا۔ ایسے ہی الفاظ کی بازگشت قریبی دیہات کے باشندوں سے بھی سنی۔ ان سب نے ایک جیسے مسائل کو دہرایا: ’نہ پانی، نہ کام، خوراک کی فراہمی میں کمی، تباہ حال مکان اور کہیں نہ جاسکنا۔اب بھی جنگ کا دائمی خطرہ موجود ہے۔ ترکی کے ساتھ سرحدی علاقوں میں کشیدگی بڑھ رہی ہے جس پر کرد حکام نے ڈرون حملے جاری رکھنے اور اپنے قصبوں پر گولہ باری کا الزام عائد کیا ہے۔
دیر ایزور کے مزید جنوب میں جو کبھی داعش کے زیر قبضہ تھا لیکن اب کرد اور حکومتی کنٹرول کے درمیان تقسیم ہو چکا ہے، رہائشیوں نے مجھے اتحادی ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کی حمایت سے ممکنہ حکومتی حملے اور علیحدہ طور پر داعش کے سلیپر سیلوں کے حملوں کے بارے میں اپنے خدشات کے بارے میں بتایا، جو بظاہر طاقت کو دوبارہ اکٹھا کر رہے ہیں۔وسیع کیمپوں میں دولت اسلامیہ سے وابستہ اندرونی طور پر بے گھر افراد اور خاندانوں (بشمول برطانوی شہریوں) کے تشدد میں اضافے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ یہ یقیناً کردوں کے زیر قبضہ شمال مشرقی شام کے لیے منفرد نہیں ہے۔ شمال مغربی شام میں بھی خشک سالی، قحط اور تشدد کی وارننگ اتنی ہی تشویشناک ہے۔شام میں حزب اختلاف کے آخری ٹھکانے کے ساتھ ساتھ حکومت کے زیر قبضہ علاقوں میں بھی جہاں شام کا معاشی بحران متاثر کر رہا ہے۔ یہ سال بہت سے افسوسناک انسانی ریکارڈ توڑ رہا ہے اور تمام اشارے ظاہر کرتے ہیں کہ اگلا سال اس سے بھی بدتر ہو سکتا ہے۔ بہت دیر ہونے سے پہلے ہمیں اب عمل کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔