آرٹس ایک دھبہ ہے ،کراچی میں ہرطرف گندگی ،بدبوہے ،چیف جسٹس
شیئر کریں
سپریم کورٹ نے ہندو جیم خانہ کو اصل حالت میں بحال، مارکی اور دفاتر ختم کرنے کا حکم دیدیا، عدالت عظمی نے ریمارکس دیئے متبادل جگہ تک ناپا کو ہندو جیم خانہ سے نہ نکالا جائے کیا جائے۔جمعہ کوسپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ہندو جیم خانہ کی بحالی سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔دورانِ سماعت سیکرٹری کلچر سندھ، کمشنر کراچی و دیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے۔ثقافتی عمارتوں کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے پر چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد سیکرٹری کلچر پر برہم ہو گئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر تاریخی عمارت کے اندر کوئی نئی تعمیرات ہوئیں تو گرانا پڑے گی۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اس طرح کل مہتہ پیلس پر تعمیرات کر دیں گے،ایسے تو کوئی تاریخی عمارت نہیں بچے گی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ناپا کو تاریخی عمارت میں نئی تعمیرات کی اجازت کس نے دی؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ناپا نے خود سے کیسے تعمیرات کیں؟ ناپا کو تو صرف اپنی سرگرمیوں تک جگہ دی گئی تھی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا سندھ حکومت نے ناپا کو آڈیٹوریم بنانے کی اجازت دی؟ ناپا کے وکیل فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے موقف دیا کہ ہم نے تھیٹر بنایا جو عمارت سے بہت دور ہے۔ تھیٹر کا جیم خانہ عمارت سے کوئی تعلق نہیں۔ خاتون سرکاری وکیل نے موقف اپنایا کہ ہندومندر کو ختم کردیا گیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ہر عبادت گاہ ہمارے لیے محترم ہے،آپ مذہبی جذبات سے متعلق اس پر بات نہ کریں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ مارکی کیوں بنائی گئی جیم خانہ میں؟ اس مارکی کو تو یہاں نہیں ہونا چاہیے۔ تقسیم سے پہلے مسلم اورہندو جیم خانہ الگ الگ بنائے گئے تھے۔ آج مسلم جیم خانہ اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ مگر ہندو جیم خانہ کی اراضی علی گڑھ یونیورسٹی و دیگر کو دے دی گئی۔ علی گڑھ یونیورسٹی کو بھی وہاں سے ختم ہونا چاہئے۔ جسٹس قاضی محمد امین احمد نے ناپا وکیل سے مکالمہ آپ بھی تو قابض ہوئے۔ فیصل صدیقی نے موقف دیا کہ اگر ہم نے مندر کو توڑا ہو یا متاثر کیا ہو تو تھیٹر بھلے سے توڑ دیں۔ ناپا کی تعمیرات بالکل پیچھے اور مندر سے ہٹ کر ہیں۔ سپریم کورٹ نے کمشنر کراچی سے مکالمہ میں کہا کہ قائد اعظم مزار کے ارگرد آثار قدیمہ کا علاقہ ہے ان سب کو گرا کر عمارتیں کیسے بن رہی ہیں؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے انہیں کون اجازات دے رہا ہے عمارتیں بنانے کی؟ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس میں کہا کہ جو تاریخی بلڈنگ گرانا ہو، خستہ قرار دو، گرائو اور نئی بلڈنگ کھڑی کردو۔ سول لائن پر سب پرانے گھر گراتے چلے جا رہے ہیں،دنیا میں دیکھا ہے، جتنی قدر ہوتی ہے آثار قدیمہ کی۔ لیاقت لائبریری کہاں بنا دی کوئی جاتا ہی نہیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کمشنر کراچی کو جھاڑ پلا دی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کمشنر کراچی کہاں تھے صبح؟ آپ کو بلایا تھا، کہاں تھے آپ؟ کمشنر کراچی صاحب، آپ نئے نئے آئے ہیں، آپ کو رعایت دے رہے ہیں۔ ورنہ ایسی کوتاہی برداشت نہیں کرتے۔ کمشنر کراچی نے کہا کہ میں معذرت خواہ ہوں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ معذرت کی کیا بات ہے۔ ناپا کو آرٹس کونسل میں جگہ دینے سے متعلق کمشنر کراچی کے بیان پر عدالت برہم ہوگئی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے آرٹس کونسل ایسا ہوتا ہے؟ آرٹس کونسل کے نام پر دھبہ ہے۔ آرٹس کونسل دنیا میں ایسے ہوتے ہیں۔ آرٹس کونسل میں آرٹس والی کوئی چیز نہیں۔ کنکریٹ کا ڈبہ بنا دیا ہے آرٹس کونسل کو۔کمشنر صاحب، یہ آپ کا شہر ہے، کچھ نہیں پتہ؟ کراچی کو کتنا دیکھا آپ نے؟ کمشنر کراچی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ دیکھا ہے 50 فیصد تک کراچی دیکھ چکا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اصل شہر کی شکل تو دیکھی نہیں آپ نے،گولی مار گئے، بنارس، گورنگی گئے آپ کبھی؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا آپ کا تعلق کہاں سے ہے۔ کمشنر کراچی نے کہا کہ میرا تعلق حیدرآباد سے ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حیدرآباد کے حالات تو کراچی سے بھی برے ہیں۔ زیب النساء روڑ پر سب عمارتیں گرا دیں۔ کسی کے دل میں کوئی درد نہیں ہوا۔بندو والا بلڈنگ کو بھی گرا دیا گیا۔ کراچی کیا سکھر بھی ختم کردیا۔سکھر میں بیراج کالونی کے بنگلے گرا دیئے۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری کلچرپر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ آثار قدیمہ تباہ کرنے پر تلے ہیں۔ سارے سیکرٹری اپنے دفاتر میں بیٹھے رہتے ہیں،ان کو کیا پتہ کلچر کیا ہوتا ہے۔سیکرٹری کلچر سندھ نے کہا کہ کلچر کے لیے بڑی رقم رکھی ہوئی ہے۔