میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
میں بھول گیا تھا، وہ چیف آف آرمی اسٹاف ہے!!

میں بھول گیا تھا، وہ چیف آف آرمی اسٹاف ہے!!

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۴ اکتوبر ۲۰۲۱

شیئر کریں

یاد آیا، آج وہ جنرل بے طرح یاد آیا۔ وہ داستان سناتا تھا، شعری ٹانکے ساتھ لگاتا جاتا۔ اپنے صحافتی مناقشوں میں وہ آزردہ کرنے والے دن تھے۔ اپنا ہی شہر خفا خفا!! بوری بند لاشوں کا زمانہ ، ایسے میںدوست ناراض،مگر میںاپنے موقف پر ثابت قدم!! جنرل ریٹائر ہو چکے تھے، مگراپنے صحافتی رفیقوں کے بابت ایک جھگڑے میں ناراض تھے۔ محمد طاہر تم جانتے نہیں ہو!!ہمت کی ، جنرل صاحب آپ بھی کب جانتے تھے، قبل از وقت ریٹائر ہونا پڑا!! اس جواب کی امید نہ کرتے تھے۔ وہ چونک گئے۔پھر مسکرا دیے!کیا شاندار آدمی تھے۔ اُنہیں آمادہ پایا، تب ایک سوال کی معمولی چٹکی لی۔آپ کے ساتھ ہوا کیا تھا؟ پھر وہ داستان سنا گئے، جو بانداز ِدگر آج اسلام آباد کی فضاؤں میں دُہرائے جانے کی منتظر ہے۔ یہ دشتِ امکان میں نقشِ پا کو ٹٹولتی ایک کہانی ہے۔
جنرل حمید گل کون تھے؟ وہ کچھ لوگوں کے لیے افسانوی کردار میں تب ڈھل چکے تھے۔ سیاست میں بہت سی پنیریاں اُن کی ہی لگائی ہوئی تھیں۔ اب ماند یادداشت میں واقعات کیسے اُجاگر ہوں،وزیر اعظم عمران خان سے کون جاکر پوچھے ، جنرل حمید گل اور محمد علی درانی کی قیادت میں قائم پاسبان میں شمولیت کیسے کی تھی؟یہ 1994 کا شرمندہ رکھنے والا قصہ ہے، تحریک انصاف کا قیام ذرا بعد کا یعنی اپریل 1996ء کا پراسرار واقعہ ہے۔ کبھی وہ داستان بھی لکھیں گے، کہ حکیم محمد سعیدمدہم الفاظ مگر مستحکم لہجے میں ان کے متعلق کیا فرماتے تھے۔
جنرل حمید گل مگر ایک الگ موضوع ہے۔ سیاست کی خار ِ مغیلاں میں فوجی ملازمت کے دوران اور بعداُن کے کردار پر اُنگلیاں اُٹھتی رہیں، مگر اُن کا ایک شاندار عسکری دور بھی تھا۔ جنرل 1983 ء سے 1987 ء تک ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس رہے ۔ پھر جنرل اختر عبدالرحمان کی جگہ وہ ڈی جی آئی ایس آئی بنائے گئے۔ جنرل حمید گل 29 مارچ 1987ء سے27 مئی 1989ء تک اس منصب پر رہے۔ یہ سرد جنگ کا زمانہ تھا، مگر ہماری دہلیز پر تو افغانستان کی صورت گرم جنگ بھی اُتر آئی تھی۔ یہ خوف ناک واقعات کا عہدِ تاریک تھا۔ پاکستان اس سردوگرم جنگ کا ایک حصہ تھا۔ آنجہانی سوویت یونین کا منہ پھٹ وزیراعظم خروشچیف اعلان کر چکا تھاکہ اُس نے پشاور کے گرد سرخ دائرہ لگادیا ہے۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو جنرل کا ”ناکام ”قرار دیتے ہیں۔ یہ فیصلہ تاریخ کرے گی، مگر دیوارِ برلن 1989ء میں گراد ی گئی تو اس کا ایک ٹکڑا جنرل حمید گل کو بھی تحفتاً بھیجا گیا، یہ سوویت یونین کے زوال اور کمیونسٹ نظریے کو دفن کرنے میں پاکستان کے کردار کا” پتھرا ”دینے والاستائشی اعتراف تھا۔ جنرل کی مہمان گاہ میں پتھر کا یہ ٹکڑا مہمانوں کو خوشگوار حیرت میں مبتلا رکھتا۔ جنرل حمید گل آئی ایس آئی سے کورکمانڈر ملتان تعینات کردیے گئے۔ اُن ہی کے زیرانتظام نومبر ، دسمبر 1989ء میں” ضربِ مومن ” کے نام سے مشہور فوجی مشقیں ہوئیں، جسے 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد سب سے بڑی فوجی سرگرمیوں کے طور پر دیکھا گیا۔ یہ وہ پس منظر ہے، جس میں جنرل حمید گل ایک افسانوی کردار کے طور پر پیش کیے جاتے، پاکستان کے تمام حلقوں میں انتہائی مقبول تھے۔ سیاسی منظرنامے پر چھائے ہوئے فوج کے پسندیدہ سیاست دان تب” ہمارے” آج کے” ووٹ کو عزت دو والے”نواز شریف تھے۔ اُس وقت صدر اختیار میں یہ ”بے دانت ”والے ڈاکٹر عارف علوی نہ تھے، 58ٹو (بی) والے غلام اسحق خان تھے۔ جنرل حمید گل دونوں کے ہی پسندیدہ تھے۔ سیاسی حلقوں میں ہی نہیں، وہ زندگی کے تمام شعبوں میں اپنی مقبولیت رکھتے تھے۔وہ صحافتی ”اکابرین”جو بعد میں اپنے فدویانہ اُسلوب کے باعث نوواردوں کی تضحیک کا نشانا بنے، جنرل کو اُٹھائے اُٹھائے پھرتے۔ جنرل سے تعلق انہیں ممتاز بناتا تھا۔
اب تاریخ کا وہ صفحہ اُلٹتے ہیں، جو اسلام آباد میں پائے جانے والے” ایک صفحے ”کی کہانی کا مستقبل بھی ہے۔ جنرل حمید گل نے ابھی وہ واقعہ اس خاکسار کو سنانا شروع نہیں کیا۔ ابھی تو جنرل کور کمانڈر ملتا ن ہیں۔ ایک اور کورکمانڈر جنرل آصف نواز بھی ہیں، جو کورکمانڈر کراچی (وی کور) تعینات ہیں۔ چیف آف جنرل اسٹاف کے طور پر راولپنڈی آچکے تھے۔وہ پاکستان میں زیادہ زیر بحث نہیں رہے، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل مرزا اسلم بیگ اور جنرل حمید گل ہر جگہ چھائے رہتے۔ وزیراعظم نوازشریف کو تب چیف آف آرمی اسٹاف کی تقرری کا مرحلہ درپیش تھا۔ اللہ کی شان کیا حیرت انگیز مماثلت ہو گی۔ فہرست میں لیفٹیننٹ جنرل حمید گل وہی ”چوتھے نمبر ”پر سنیارٹی میں آتے تھے، اُن سے پہلے کے تین میں لیفٹیننٹ جنرل آصف نواز جنجوعہ، لیفٹیننٹ جنرل شمیم عالم اور لیفٹیننٹ جنرل ذوالفقار اختر ناز(زیڈ اے ناز) تھے۔ وزیراعظم عمران خان کا انحصار کچھ پراسرار قوتوں پرہے۔نوازشریف بھی بے نظیر بھٹو کی طرح ایک ”بابے دھنکے” سے ”سوٹیاں” کھاتے، مگر زیادہ اباجی پر انحصار کرتے تھے۔ اباجی نے لیفٹیننٹ جنرل آصف نواز جنجوعہ کا نام بطور آرمی چیف طے کرلیا۔ بس پھر کیا تھا!! ہمارے ممدوح جنرل حمید گل کی داستان اب شروع ہوتی ہے ، جو سنیارٹی میں چوتھے نمبر پر ہیں، فوج کی ڈارلنگ کہلاتے ہیں۔ دیوارِبرلن کا ستائشی ٹکرا ساتھ رکھتے ہیں، ایم آئی ، آئی ایس آئی میں رہ چکے ہیں۔ مقبول ترین کورکمانڈر ہیں۔ ضرب ِمومن کی مشقوں سے عوامی حلقوں میں پہنچ گئے ہیں۔ اسی پسِ منظر میں خاکسار کا سوال تھا: آپ کے ساتھ ہوا کیا؟
جنرل حمید گل براہِ راست جواب دینے کے بجائے تب کی واقعاتی تاریخ اُلٹ پلٹ کرتے رہے۔ اب حافظے کو ٹٹولنا پڑتا ہے۔ غالباً الخالد ٹینک کی افتتاحی تقریب کا ذکر کیا، جب جنرل کچھ سینئر صحافیوں کے جمگھٹے میں تھے۔ ابھی فوجی سربراہ جنرل اسلم بیگ ہی تھے، مگر نئے چیف آف آرمی اسٹاف کے طور پر جنرل آصف نواز جنجوعہ کا نام طے ہو چکا تھا۔ جنرل آصف کے ملٹری سیکریٹری نے جنرل حمید گل کے کان میں آکر سرگوشی کی کہ جنرل آصف نواز نے آپ کو یاد کیا ہے۔جنرل تب کن ہواؤں میں ہوں گے، اُنہوں نے کہا آرہا ہوں، اُنہوںنے جمگھٹے میں اپنی ادھوری بات کو مکمل کرنے کے لیے بس ایک دو منٹ صرف کیے ہوں گے، اور جنرل آصف نواز کی طرف لپکے، مگر وہ جاچکے تھے۔ جنرل خاموش رہے۔ جنرل صاحب دومنٹ! میرے سوال پر جنرل حمید گل نے کہا طاہر صاحب ، شاید اس سے بھی کم!!مجھے محسوس ہوا کچھ غلط ہو گیا۔ میں نے اُنہیں فون کیا، سر میں آپ کی خدمت میں دفتر حاضر ہو جاؤں۔ اُن کا سادہ جواب تھا۔ اب ضرورت نہیں۔ میں ایک لفظ ہی ادا کرسکا تھا، پھر ! جنرل اپنی اُداسی چھپاتے رہے، ہلکے سے مسکرائے، کہا: پھر کھیل ختم۔ کہاں ختم ہوا؟میں نے اُکسایا۔جنرل کی چند لمحوں کی خاموشی برسوں میںڈھلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ جیسے اپنے الفاظ تول رہے ہوں۔معاً خیال آیا کہ جنرل فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد جتنے محتاط ہیں، دورانِ ملازمت ہوتے تو فوجی سربراہ ہوتے۔ جنرل پھر ضبط نہ رکھ سکے۔جنرل آصف نواز نے اگست 1991 میں فوجی سربراہ بنتے ہی مجھے کورکمانڈر ملتان سے ڈی جی ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا بھیجنے کا حکم صادر کردیا۔ وہ خاموش ہوگئے۔ واقعات میری آنکھوں کے سامنے تھے۔ مجھے تصدیق مطلوب تھی۔ پھر غلام اسحق خان نے کچھ نہیں کیا؟ یہ سادہ سوال ہے، مگر اس سے فوج کا تنظیمی شعور اور فیصلوں کی بنیادی نوعیت واضح ہوجاتی ہے۔ جنرل حمید گل فوری صدر مملکت غلام اسحق خان سے ملے، غلام اسحق خان نے اُنہیں یقین دلایا کہ وہ چیف آف آرمی اسٹاف سے بات کریں گے۔ جنرل حمید گل نے وقت پر نئی تقرری کے پروانے پر اپنی حاضری کی مہر نہیں لگائی۔غالباً جنرل آصف نواز امریکا دور ے پر فوراً چلے گئے تھے، اُنہوں نے وہاں سے رابطہ کیاہوگا۔ جب اُنہیں معلوم ہوا کہ جنرل حمیدگل صدرِ مملکت سے ملے ہیں۔ صدرِ مملکت ابھی سفارش تو کیا کرتے، فوجی سربراہ نے حکم صادر کردیا۔ جنرل حمید گل اب ڈی جی ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا کے طور پر بھی فرائض انجام نہیں دیںگے، یہاں تک کہ اسلام آباد اور پنڈی کے کسی میس میں بھی داخل نہ ہو سکیں گے۔ الفاظ آج بھی سخت لگتے ہیں، مگر جنرل حمید گل راندۂ درگاہ ہو چکے تھے۔ جنرل صاحب کے الفاظ مجھے آج بھی بھولتے نہیں ۔ طاہر صاحب! میں بھول گیا تھا ، وہ چیف آف آرمی اسٹاف ہے”۔ جب وہ الفاظ ادا کررہے ہوں گے، تو اُن دو منٹوں سے کم وقت کو یقینا کوس رہے ہوں گے۔ وہ خاموش تھے۔ دیوارِ برلن کے گرنے کا خروش ابھی تھمانہ تھا۔ میرے ذہن میں جنرل آصف نواز کے الفاظ بھی گاہے گونجتے ہیں، شاید وزیراعظم عمران خان کے کسی کام کے ہوں۔ سابق وزیراعظم نوازشریف نے کسی محفل میںچیف آف آرمی اسٹاف کے لیے کہا کہ ”وہ ہمارے آدمی ہیں”۔ چیف کو اُسی شام کسی نے یہ زرق برق فقرہ پہنچایا۔ تب جنرل آصف نواز نے رسان سے کہا تھا: جس کے ایک اشارے پر پانچ لاکھ اُنگلیاں بندوق کے ٹریگر پر چلی جائیں، وہ کسی کا نہیں،خود اپنا آدمی ہوتا ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں