میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
امریکا سیاحوں کے لیے مہنگا ترین ۔۔لیکن شاپنگ کرنے والوں کی جنت

امریکا سیاحوں کے لیے مہنگا ترین ۔۔لیکن شاپنگ کرنے والوں کی جنت

ویب ڈیسک
اتوار, ۵ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

امریکا میں قیام آسان کام نہیں ، اس کے لیے آپ کے پاس خاصی رقم ہونا بہت ضروری ہے
آپ امریکا سے یورپ جانا چاہتے ہیں تو ٹیکس کی وجہ سے امریکا میں بھاری خریداری آپ کے گلے پڑسکتی ہے
صباحیات نقوی
امریکا جانے کا شوق صرف پاکستان، بھارت ،بنگلا دیش اور تیسری دنیا کے دیگر ملکوں کے عوام کے دلوں ہی میں نہیں ہے بلکہ اب دنیا بھر کے نوجوانوں میں امریکا جانے، وہاں گھومنے پھرنے، ملازمت کرنے اور شاپنگ کرنے کا شوق بڑھتا جارہا ہے ،اور چونکہ اب قانونی طور پر خاص طورپر ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی عہدے پر فائز ہونے کے بعد امریکا کا سفر مشکل ترین ہوتا جارہا ہے اس لیے امریکا میں داخلے کے غیر قانونی ذرائع کو فروغ مل رہا ہے اور امریکا میں داخلے کے نت نئے طریقے ایجاد ہوچکے ہیں ۔
امریکا جانے والوں کو یہ سوچ لینا چاہئے کہ جس طرح امریکا میں داخلہ ایک مشکل کام ہے اسی طرح امریکا میں رہنا بھی مشکل ترین کام ہے ،امریکا میں قیام آسان کام نہیں ہے اس کے لیے آپ کے پرس میں خاصی رقم ہونا بہت ضروری ہے ،اگر آپ امریکا کی سیر کرنا چاہتے ہیں تو یہ سمجھ لیجئے کہ آپ کی کئی سال کی جمع پونچی اس پر خرچ ہوسکتی ہے اور اس کے باوجود بھی آپ بہت کچھ نہیں دیکھ سکیں گے ، مثال کے طور پر اگر آپ اپنے بچوں کے ساتھ ڈزنی لینڈ کی سیر کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے 2 بالغ افراد اور 2 بچوں کے داخلے کے لیے آپ کو کم از کم 250 ڈالر یعنی کم وبیش ساڑھے 13 ہزار روپے کا ٹکٹ خریدنا پڑے گا۔
اگر آپ یہاں کچھ کھانا چاہتے ہیں تو یہ تو ہوسکتا ہے کہ آپ کھانے کے بجائے فاسٹ فوڈ پر گزارا کرلیں لیکن کھانے کے لیے آپ کو کم از کم 20 ڈالر یعنی 1200 روپے خرچ کرنا ہوں گے جبکہ اس پر ٹیکس اور ویٹر کی ٹپ کی رقم شامل نہیں ہے یہ سب ملا کر آپ کا بل کم وبیش ڈیڑھ ہزار روپے کا بن جائے گا۔ اگر آپ امریکا کا سفر سیر وتفریح کے لیے نہیں بلکہ خریداری یعنی شاپنگ کے لیے کرتے ہیں تو یقین کیجئے کہ ان دنوں امریکا کو شاپرز یعنی خریداری کرنے والوں کی جنت کہا جاتا ہے ،امریکا میں آپ جہاں بھی چلے جائیں، سلے سلائے ملبوسات اور دیگر اشیا آپ کو کم قیمت پر مل سکتی ہیں ۔ امریکا میں شاپنگ کرنے والوںکو یہ سہولت صر ف اس وجہ سے حاصل ہوئی ہے کہ اب امریکا کے بڑے ملبوسات تیار کرنے والے اداروں نے اپنی فیکٹری میں اپنی مصنوعات کی فروخت کا سلسلہ شروع کردیا ہے جس کے نتیجے میں اب آپ وہی جینز جو آپ کو کسی ڈپارٹمنٹل اسٹور پر 30 ڈالر میں ملتی ہے فیکٹری کے گیٹ پر 10 ڈالر میں مل سکتی ہے یعنی ایک تہائی قیمت میں ،یہی حال جوتوں ، اشیائے تعیش ،کھیل کود اور فیشن کی دوسری اشیا کا بھی ہے ۔
فرینکفرٹ میں وزٹ یوایس اے کمیٹی کی صدر ویرا سومر نے بتایا کہ امریکا جانے والے زیادہ تر لوگ اب امریکا کی سیرکرنے کے لیے نہیں بلکہ خریداری کے لیے کرتے ہیں کیونکہ اب امریکا کو شاپنگ کرنے والوں کی جنت تصور کیا جانے لگا ہے ۔امریکی ٹریڈ ایجنسی میں سیاحوں کے شعبے کی سربراہ ہیلن میرینو نے بتایا کہ 2005 میں امریکا کاسفر کرنے والے 89 فی صد سیاحوں نے بتایاکہ امریکا میں انھوں نے خریداری کا خوب لطف اٹھایا ،ہیلن کا کہنا ہے کہ اگرچہ امریکا میں اب نسبتاً کم قیمت پر اشیا دستیاب ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود لوگ خریداری کرتے ہوئے ان کی قیمت کا اپنے ملک میں رائج قیمتوں سے موازنہ کرتے ہیں اور کوئی بھی چیز عام طور پر اسی وقت خریدتے ہیں جب وہ انھیں خود اپنے ملک میںدستیاب اشیا کے مقابلے میں کافی سستی نظر آئے ورنہ وہ صرف قیمت معلوم کرنے پر اکتفا کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔
شاپ امریکا الائنس کی شیلا آرمسٹرونگ کاکہنا ہے کہ امریکا میں لوگ یوںہی شاپنگ نہیں کرتے بلکہ وہ شاپنگ اسی وقت کرتے ہیں جب ان کے پاس کافی وقت ہو اور اس کے لیے وہ ایسے وقت کا انتخاب کرتے ہیں جب وہ اپنے معمول کے کام اور ڈیوٹی وغیرہ سے بالکل فارغ ہوں ، شاپ امریکا الائنس کی شیلا آرمسٹرونگ کاکہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے مختلف شاپنگ ایریا کے دکاندار اور ڈپارٹمنٹل اسٹورز کے مالکان باقاعدہ پیکیج تیار کرتے ہیں بعض مالکان مخصوص رقم کی شاپنگ کرنے والوں کو شاپنگ مالز میں موجود ہوٹلوں میں ایک وقت کے کھانے کی پیشکش کرتے ہیں جبکہ بہت سے ہوٹل مالکان کھانا کھانے والوں کو مفت شاپنگ کی پیش کرتے ہیں ۔
یورپی یونین سے تعلق رکھنے والے ماہرین اپنے باشندوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ امریکا میںبڑی تعداد میں شاپنگ کرتے وقت امریکا اور پھر امریکا سے یورپ واپسی پر لگنے والے ٹیکسوں کو بھی مدنظر رکھیں کیونکہ بہت زیادہ سامان کی صورت میں انھیں ٹیکس بہرحال ادا کرنا ہوںگے۔
یورپی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک مخصوص تعداد اور مقدار سے زیادہ سامان خرید کر لانے والے شخص کو ایئرپورٹ سے باہر جانے کے لیے باقاعدہ کسٹمز کا فارم بھرنا پڑتا ہے اور اس فارم کے مطابق اسے مخصوص ٹیکس بھی ادا کرنا پڑتا ہے جس کے بغیر اس کی گلوخلاصی نہیں ہوسکتی اس کی وجہ سے عام طور پر امریکا میں سستی خریداری خریدار کے گلے پڑجاتی ہے اور یہ سستی اشیا ٹیکس لگنے کے بعد اتنی مہنگی ہوجاتی ہیں کہ خریدار اسے سے متنفر ہوجاتا ہے ۔
یورپی ماہرین کے مطابق یورپ میں صرف 175 یورو مالیت کے سامان پر کوئی ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑتا جہاں آپ کے لائے ہوئے سامان کی مالیت 175 یورو سے تجاوز کرے گی آپ ٹیکس نیٹ میں آجائیں گے اور 175 یوو کی حد تو یوں ختم ہوتی ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا خاص طور پر اگر آپ کیمرہ یا اسی طرح کی الیکٹرانک کی کوئی دوسری چیز ساتھ لارہے ہوں تو پھر 175 یورو کی حد کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہتی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں