موبائل کے غلط استعمال سے جنسی جرائم بڑھ رہے ہیں،وزیراعظم
شیئر کریں
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہمیں انگریز دور کا طبقاتی نظام مکمل طور پر ختم کرنا ہوگا ،کسی بھی دوسرے کلچر کی ذہنی غلامی بڑے مقصد اور کام میں بڑی رکاوٹ ہوتی ہے،یکساں نصاب تعلیم سماجی تفریق کے خاتمے کیلئے ناگزیر ہے ، ہم یکساں نصاب تعلیم لائے تو کہا گیا آپ پاکستان کو پیچھے لے کر جارہے ہیں ، لیکن آہستہ آہستہ سب کو معلوم ہوگا کہ یہ ایک تحریک ہے ،ہمیں مغربی کلچر کی ذہنی غلامی سے نکل اپنی ثقافت اور اقدار کا اپنا نا ہوگا ،انگریزی سٹیٹس سمبل نہیں ہونا چاہیے ،ماضی کی حکومتوں نے تعلیم کے فروغ کیلئے کچھ نہیں کیا ، یہاں تعلیم ترجیح ہی نہیںرہی،ماضی کی حکومتوں کی توجہ ہمیشہ قلیل مدت منصوبوں کے ذریعے آنے والے انتخابات جیتنے پر مرکوز ہوتی تھی، کسی نے آنے والی نسلوں کا نہیں سوچا ، ڈیمز بھی جمہوری ادوار کی بجائے ڈکٹیٹروں کے دور میں بنے ،کرپشن کے خاتمے کیلئے ای گورننس کا کردار بھی بہت اہم ہے ، مینار پاکستان واقع پر بہت دکھ ہوا ، ہمیں نوجوان نسل کو ٹیکنالوجی سے روشناس کرانے کے ساتھ ساتھ نبی کریم ؐ کی سیرت سے بھی آگاہ کرنا ہوگا ،ہم نے اپنے بچوں کو آگاہ کرنا ہے کہ نبی کریم ؐ کیسے دنیا کا سب سے بڑا نقلاب لے کر آئے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پنجاب ایجوکیشن کنونشن2021 میں بطور مہمانِ خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا ۔وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ہمارے ملک میں بد قسمتی سے کسی نے بھی تعلیم پر زور نہیں دیا کیونکہ تعلیم ترجیح ہی نہیں تھی ،یہاں جس طرح کی جمہوریت رہی ہے اس میں یہ ہوتا تھا کہ پانچ سال کے بعد انتخابات ہیں اس کے مطابق منصوبہ بندی کرو۔88ء سے 99ء تک تو حکومتیں ڈھائی سال چلتی تھیں ۔یہاں جو بھی اقتدار میں آتا تھا وہ یہ سوچتا تھا کہ ایسا کام کروں کہ اگلا انتخاب جیت جائوں ۔یہاں یہ سوچ تھی کہ میں نے میٹرو بنانی ہے اسے پانچ سال میں مکمل کروں گا اس کے بعد اشتہار دے کر جیت جائوں۔ اس ملک میں کسی نے ڈیمز بنانے پر توجہ نہیں دی تاکہ ہمیں سستی او رصاف بجلی مل سکتی ۔ جمہوری حکومتوں کی بجائے ملٹر ی ڈکٹیٹرز کے دور میں د وبڑے ڈیمز بنائے گئے اور ان سے پاکستان کو کتنی دیر تک فائدہ ہوا ہے ، انڈسٹری اور عام عوام کو فائدہ ہوا ،یہاں کسی نے مستقبل کی نسلوں کا نہیں سوچااور ہمیںمہنگے درآمدی ایندھن سے مہنگی بجلی بنانی پڑی ۔انہوں نے کہا کہ یہاں کسی کی دور کی سو چ نہیں تھی بلکہ صرف مختصر سوچ اپنائی گئی کہ میں جیت جائوں اور نسلوں کے لئے نہیں سوچا کہ ہم ملک کو تباہ کر رہے ہیں ، یہاں جنگلات کو تباہ کر دیا گیا ، جو انگریز چھوڑ کر گئے تھے ہم نے انہیں بھی تباہ کر دیا ،پورے پورے جنگلات کی تباہی کی گئی ۔ اب ہم دس ارب درخت اگا رہے ہیں جس کا مستقبل میں بڑا مثبت اثر پڑے گا ۔انہوں نے کہا کہ اب ہم یکساںنصاب لائے ہیں ۔ہمارے ہاں انگریز کے تعلیمی نظام کو لیا گیا ، انگریز نے یہ تعلیمی نظام کیوں بنایا تھا؟ ۔اس کا مقصد یہ تھاکہ وہ ایک ایسی کلاس بنانا چاہتے تھے کہ وہ کلاس ہو تو ہندوستانی لیکن وہ ان کی طرح سوچے ان کے رویے بھی انگریزوں کی طرح ہوںتاکہ ہم اتنے بڑے بر صغیر پر حکومت کریں ، یہ برائون صاحب تھے ۔ انہوں نے کہا کہ جب میںایچی سن کالج سے تعلیم حاصل کر کے نکلا تو انگلینڈ کیا ،مجھے ایسا لگا کہ مجھے ایک انگلش پبلک سکول بوائے بنایا گیا ہے ،مجھے پاکستانی نہیں بنایا گیا مجھے اپنے کلچر سے دور کیا گیا ، اس تعلیمی نظام کے ذریعے دین سے دور کیا گیا ۔ یہ صرف پاکستان میں نہیں تھاکہ بلکہ جہاں جہاں انگریز نے حکومت کی اس نے وہاں ایک چھوٹی سے انگلش میڈیم کلاس کو بنایا ۔جب ہم آزاد ہوئے تو اصولاً ہمیں سب سے پہلے تعلیم کا نظام ٹھیک کرنا چاہیے تھا ،ایک ہی نصاب لانا چاہیے تھا تاکہ ایک قوم بنتی لیکن اس کی بجائے ہم تین طرف نکل گئے ،جس میں دینی مدرسے ،اردو میڈیا میڈیم اور ایک چھوٹی سی کلاس کے لئے انگلش میڈیم کا نظام پروان چڑھا ، ان کا تعلیم کے بجائے دیسی اورولایتی بنانے پر زور تھا ،ہم نے وہی طور طریقے لے لئے ذہنی غلامی لے لی جو دوسری کلچر کی تھی، جب اس طرح ہوتا ہے تو ہم کسی او رکلچر کے ذہنی غلام بن جاتے ہیں ،آپ اچھے غلام تو بن سکتے ہیں لیکن آپ بڑا کام نہیں کر سکتے ،غلام کبھی بڑا کام نہیں کر سکتا۔