مجھے بچانے والے ہی مجھے نوچ رہے تھے ،بیشتر کو پہچان سکتی ہوں‘ٹک ٹاکر عائشہ اکرم
شیئر کریں
گریٹر اقبال پارک میں اوباشوںکے مشتعل ہجوم کے نرغے میںآنے والی ٹک ٹاکرعائشہ اکرم نے کہا ہے کہ میں نے اس طرح کا لباس نہیں پہنا ہوا تھاکہ اوباش مجھ پر حملہ آور ہونے کا جواز بناتے،میرے پاس تو جینے کی وجہ ہی نہیں بچی،میں ایک عورت ہوں ،میری شادی ہونی ہے میر امستقبل ہے میری فیملی ہے مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا،پولیس کو ساڑھے6بجے کال کی گئی لیکن 9بجے تک وہاںکوئی نہیں پہنچا، ہجوم میں بچانے والے ہی مجھے نوچتے رہے۔ گفتگو کرتے ہوئے ٹک ٹاکر عائشہ اکرم نے بتایا کہ میں او رمیری ٹیم 14اگست کو گریٹر اقبال پارک گئے ،وہاں کچھ نوجوان سیلفی بنانے کے لئے جمع ہوئے لیکن پھر دبائو ڈالتے ہوئے پورے گروپ کوجنگلے کے قریب لے آئے ، سکیورٹی گارڈ نے کہا کہ یہاں رش ہو گیا ہے اور میں جنگلے کے اندر والے حصے میں چلی گئی تاکہ محفوظ رہوں اور پھر وہاں سے ہم دوسرے راستے سے نکل جائیں گے ۔لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اوباش نوجوانوں کا ہجوم جنگلے پھلانگ کر اور توڑ کر اندر آگیا ۔ ایسے میں میرے پاس ایک ہی آپشن تھا کہ میں قریب واقعہ پانی کے تالاب میں کود جائوں لیکن گہرائی کی وجہ سے اس میں کود نہ سکی ۔ عائشہ اکرم کے مطابق پولیس ایمر جنسی15پرساڑھے 6بجے سے کال کی گئی لیکن کوئی نہ آیا ۔ میں اس دوران مشعل ہجوم کا شکار بنتی رہی اورزمین پر گر گئی ،ہجوم میں شامل لوگ میرے بال نوچتے رہے اور کہہ رہے تھے کہ یہ ناٹک کر رہی ہو گی ۔ عائشہ اکرم نے کہا کہ ایک عورت اگر اپنے ملک پاکستان کے شہرمیںمحفوظ نہیں تووہ دنیا کے کس کونے میں محفوظ نہیں ۔ میں یو ٹیوبر ہوں لیکن کسی کو یہ حق حاصل نہیںکہ میرے ساتھ یہ سلوک کرے ، جب کسی عورت کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا ہے تو اس کے پاس کچھ نہیںبچتا ۔ میں جب مشعل ہجوم کے نرغے میں تھی تو میں دعا کی خدا یا میں زمین میں دھنس جائوں۔ اوباشوں کا ہجوم میرے ساتھ کھیل رہا تھا ، میرے جسم کا شاید ہی کوئی حصہ ہوجہاں پرکوئی نشان نہ ہو۔