اسٹنٹ اسکینڈل۔۔۔۔۔پہلی قسط
شیئر کریں
یہ سطور جب آپ تک پہنچیں گی تو اُس وقت عدالتِ عظمیٰ میں لاہور کے میو ہسپتال کے ایک چھاپے میں پکڑے جانے والے جعلی اسٹنٹ کے حوالے سے از خود نوٹس کی سماعت ہو گی۔ اگرچہ یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ اس ضمن میں ہونا کچھ بھی نہیں لیکن پھر بھی خواہش ہے کہ ایک دفعہ زنجیر ہلا دی جائے۔ یہ معاملہ اُس وقت میڈیا پر اُچھلا جب وزارتِ داخلہ کے زیر انتظام کام کرنے والے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے لاہور کے سب سے بڑی سرکاری ’میوہسپتال ‘ میں امراض قلب کے شعبے میں چھاپہ مارکر وہاں سے دل کی شریانوں میں ڈالنے والے غیر رجسٹرڈ شدہ اسٹنٹ کی بھاری تعداد برآمد کی ، جسے میڈیا کے ذریعے قوم کے سامنے پیش کردیا گیا کہ کس طرح کچھ ڈاکٹرز حضرات لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے تھے۔
اس چھاپے کے اگلے دن فارماسسٹ حضرات کی ایسوسی ایشن کے نمائندوں نے ایک پریس کانفرنس فرمائی اور اس میں الزام لگایا گیا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان (ڈریپ) کے سربراہ نے چین کے بنے ان غیر معیاری اسٹنٹ کی تین اقسام کو بغیر کسی ضروری ٹیسٹ میں ایک ہی دن میں ، ایک ہی خط کے ذریعے رجسٹر کیا ،اور ان کے استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ جس کی قانونی طور پر کوئی گنجائش نہیں تھی کیوں کہ اس طرح کے ایک اسٹنٹ کی مکمل ٹیسٹنگ میں تین سال کا عرصہ لگتا ہے۔ اس سے ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ یہ اسٹنٹ غیر رجسٹرڈ تو نہیں تھے ، اب رہی ان کے غیر معیاری ہونے کی بات تو اسے چیک کرنے کے بارے میں پتہ چلا کہ پاکستان میں اداروں کے پاس ان کے غیر معیاری ہونے کے بارے میں چیک کرنے کے کوئی انتظام و آلات موجود نہیں ہیں۔ فارماسسٹ حضرات نے یہ الزام بھی لگایا کہ ڈریپ کے سربراہ ان چینی اسٹنٹ کی فروخت میں حصہ دار ہیں اور انہوں نے اس کام کے لئے ایک آرام دہ جیپ بھی رشوت میں وصو ل کی تھی جس کی ڈریپ کے سربراہ کی طرف سے شدید الفاظ میںتردید کرتے ہوئے وضاحت کی گئی کہ مذکورہ گاڑی گزشتہ ایک دہائی سے ان کے زیراستعمال ہے جو انہوں نے اپنی بچت سے اُس وقت خریدی تھی جب اُن کا ڈریپ میں تقرر بھی نہیں ہوا تھا۔ فارماسسٹ کی طرف سے یہ الزام بھی لگایا گیا کہ ڈریپ کے سربراہ کے پی کے صوبائی ڈگ کورٹ سے سزا یافتہ ہونے کے باعث اس عہدے پر تقرری کے حقدار نہیں تھے۔
دنیا بھر کے اندر جسم کے اندر لگانے والے آلات جنہیں جسم کے اندر ہی رہ جانا ہوتا ہے، ان کے حوالے سے بہت ہی احتیاط برتی جاتی ہے، اس لئے بہت کم ادارے ایسے ہیں جنہیں ان کی تحقیقی سہولیات کی موجودگی اور یہاں کام کرنے والے سائنس دانوں کی مہارت کا جائزہ لینے کے بعد ہی ، ایسے آلات بنانے اور فروخت کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ایسے ہی اداروں میں سب سے اولین اور بہترین ”بوسٹن سائنٹیفک“ نامی ادارہ ہے جس کی شریانوں میں لگائے جانے والے اسٹنٹ معیار اور اعتباریت کے حوالے سے دنیا بھر میں بہترین مانے جاتے ہیں اور یوں اس ادارے کی اس شعبے پر ایک طرح کی اجارہ داری ہے۔ اس ادارے کی لوٹ مار یا کمائی دیکھتے ہوئے دنیا کے بہت سے دیگر ادارے بھی اس کاروبار میں کودپڑے لیکن ان کو تحقیق و جستجو کا لمبا راستہ طے کرنا تھا ، ظاہر ہے کہ ان کی پراڈکٹ انسانوں پر استعمال کرنے سے پہلے جانوروں پرآزمائی جانی باقی تھی۔ لیکن ان میں سے کچھ کو یہ انتظار بہت بھاری گزرا تو انہوں نے تیسری دنیا کے غریب ممالک میں ڈاکٹروں کو رشوت دے کر اپنے ا سٹنٹ بیچنا شروع کر دیے۔ ایسے ہی اداروں میں ایک ادارہ وہ بھی ہے جو ”ریزولیوٹ اونیکس “نامی ا سٹنٹ بناتا ہے۔ اس ادارے کے مقامی نمائندے نے جب درخواست دی تو پہلے تو اس کو پاکستانی حکام کی طرف سے ساڑھے تین سال انتظار کا وقت دیا گیالیکن بعد میں چند ’ناگزیر‘ حالات کے باعث انہیں عجلت میں اس کی منظوری دے دی گئی۔ اور یوں یہ ادارہ بغیر کسی تاخیر کے میدانِ عمل میں کود پڑا۔
دراصل ”بوسٹن سائنٹیفک“ اسٹنٹ کی کھلی منڈی میں قیمت ڈیڑھ لاکھ کے قریب تھی جب کہ وہ مریض کویہ اسٹنٹ نجی شعبے کے ہسپتالوں میں ڈلواتے تو ان سے ڈاکٹر صاحبان تین سے ساڑھے چار لاکھ روپے کا بل وصول کرتے۔ یہ اسٹنٹ ڈالنے والے ڈاکٹر کوا سٹنٹ بیچنے والے ادارے کی طرف سے ساٹھ ہزار روپے کے قریب کمیشن یا ”حق خدمت “ الگ سے ادا کیا جاتا تھا جس کی مریض کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہوتی۔ لیکن جب یہی ادارہ تھوک میں یہی اسٹنٹ ملک میں دل کے سب سے بڑے ہسپتال ’پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی‘ (پِک) کو فراہم کرتے تو اس کی قیمت چوراسی ہزار روپے وصول کی جاتی کیوں کہ یہاں پر ڈاکٹر کو حقِ خدمت ادا نہیں کرنا ہوتا تھا۔ جلبِ زر کے مارے ان ڈاکٹروں نے مفت ا سٹنٹ ڈلوانے والوں کو انکار کرنا شروع کردیا اور بعض کو ڈیڑھ سال تک کی تاریخ دے کر ٹرخایا جانے لگا۔ اس کا مقصد یہی ہوتا کہ زندگی کی چند مزید سانسوں کے متلاشی لوگ جب مفت علاج کی لمبی لائن سے مایوس ہو کر اسی ہسپتال میں شام کے وقت ان سے پرائیوٹ علاج کروانے آئیں تو ان کی کھال اتاری جاسکے۔ کیوں کہ پنجاب کے عقلِ کُل وزیر اعلیٰ نے ان ڈاکٹر صاحبان کو اسی ہسپتال میں شام کے اوقات میں نجی پریکٹس کرنے کی قانونی اجازت دے رکھی تھی۔
ظاہر ہے کہ جب اسٹنٹ بنانے والے دوسرے ادارے اس کھیل میں کودے توانہوں نے چین سے غیر رجسٹرڈ اور غیر آزمائش شدہ اسٹنٹ درآمد کر لیے جو تیس سے چالیس ڈالر تک مل جاتے تھے۔ لیکن ان سستے اور غیر رجسٹرڈ اسٹنٹ کی قیمتوں میں کمی کا مالی فائدہ مریض کو پہچانے کے بجائے ڈاکٹر صاحبان کا بھتہ بڑھانے پر اکتفا کیا گیاجو ہزاروں سے بڑھ کر لاکھوں میں چلا گیا۔ اور یوں چار ہزار روپے والے اسٹنٹ چار لاکھ روپے میں مریضوں کے جسموں میں اُتارے جانے لگے ، اور اس لوٹ مار کرنے والوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ اس دوران میں یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ دل کے ہسپتال میں ڈاکٹر صاحبان ہر مریض کوا سٹنٹ ڈلوانے کا مشورہ دینے لگے۔ بھلے اس کی ضرورت ہوتی یا نہ ہوتی ، مریض کو زندگی کا واسطہ یا دھمکی دے کرا سٹنٹ ڈلوانے پراصرار کیا جاتا جس پر وہ بہت جلدی راضی بھی ہو جاتا۔ گزشتہ دو سالوں میں ہمارے ارد گرد کے کم از کم آدھ درجن لوگوں کے جسموں میںا سٹنٹ نامی یہ جعل سازی اُتاری گئی۔
یہاں پر ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ نجی پریکٹس کے اوقات ، یا پھر مہنگے مہنگے نجی ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں کو ان ڈاکٹروں کی طرف سے قائل کیا جاتا کہ بوسٹن سائنٹیفک نامی ا سٹنٹ اب پرانی ٹیکنالوجی ہو چکی ہے، جب کہ ہم آپ کو نئی اور جدید ٹیکنالوجی کا اسٹنٹ لگائیں گے۔ یہ نئی ٹیکنالوجی دراصل غیر تصدیق شدہ ، سستی اور گھٹیا ہوتی جو بڑھیا داموں پر مریضوں کے جسموں میں ٹھونسی جاتی۔ اور اگر کوئی مریض یا اس کے لواحقین انٹرنیٹ وغیرہ پر جا کر اس ٹیکنالوجی کے غیر رجسٹرڈ ہونے کی نشاندہی کرنے کی کوشش کرتے تو ڈاکٹر ان سے انتہائی بدتمیزی کرنے کے بعد ان کو بعض اوقات اپنے دفتر سے بھی نکال دیا کرتے۔
اس پورے قضیے میں ستم ظریفی یہ ہے کہ جن لوگوں نے اپنے تئیں بھاری رقوم خرچ کر کے ، ان ڈاکڑوں سے نجی ہسپتالوں میں مہنگے اور معیاری اسٹنٹ ڈلوائے ، انہوں نے دراصل مہنگے داموں موت خرید ی ۔ اب یہ ا سٹنٹ چین کی بنی چیز کی طرح چل گئی تو چل گئی ورنہ ’اللہ کا حکم‘۔ جب کہ وہ غریب جنہوں نے لائنوں میں دھکے کھا کر مفت میں اسٹنٹ ڈلوائے ، ان کے دلوں کو لگائے جانے والے اسٹنٹ ہی صرف جعلی نہیں بلکہ قابلِ اعتماد بھی ہیں۔ اب آیا نہ غریبی کا مزہ؟ (جاری ہے)
٭٭