بھارتی مسلم آبادی کے خلاف پروپیگنڈا
شیئر کریں
(مہمان کالم)
رام پنیانی
آسام میں بی جے پی حکومت نے آبادی پر قابو پانے کی پالیسی اپنائی ہے۔ اس کے تحت دو سے زائد بچے رکھنے والے مرد و خواتین کو مقامی اداروں کے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں رہے گی۔ یہاں تک کہ سرکاری ملازم ہوں تو ان کے ناموں پر ترقی کے لیے غور نہیں کیا جائے گا۔ اب اسی طرح کے بِل کے ساتھ اترپردیش جیسی ریاست بھی سامنے آئی ہے۔ بھارت کی سب سے بڑی ریاست میں بی جے پی کی حکومت ہے اور حکومت نے یوپی آبادی بل2021ء (آبادی پر قابو‘ استحکام اور بہبود) منظر عام پر لایا ہے۔ اس بل کے بارے میں یوگی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس سے آبادی پر قابو پانے اور ریاست کی آبادی کو مستحکم بنانے میں مدد ملے گی۔ دونوں ریاستوں کی حکومتیں سخت اقدامات کررہی ہیں۔ ایک طرف تو انعامات کے ذریعہ آبادی پر کنٹرول کی ترغیب دی جارہی ہے تو دوسری جانب کنٹرول نہ کرنے والوں کے لیے سزائوں کا تعین بھی کردیا گیا ہے۔ ہر کسی کا یہ ایقان ہوتا ہے کہ ملک میں نگہداشت صحت کی منصوبہ بندی کا خاندانی بہبود ایک لازمی حصہ ہونا چاہئے لیکن نگہداشت صحت کی منصوبہ بندی یا خاندانی بہبود کے نام پر تعصب کے ذریعہ ایک خاص کمیونٹی کو نشانہ بنانے کے مقصد سے بلز متعارف کروانا معاشرہ کے لیے ٹھیک نہیں ہے بلکہ ہم اسے بھارتی تناظر میں حقیقت سے بعید کہہ سکتے ہیں۔
جہاں تک آبادی پر قابو پانے کا سوال ہے‘ بھارت ان چنندہ ممالک میں سرفہرست ہے جنہوں نے سب سے پہلے خاندانی منصوبہ بندی متعارف کروائی ہے۔یہ بات قابل غور ہے کہ بھارت میں 1952ء میں ہی خاندانی منصوبہ بندی متعارف کروائی گئی تھی۔ ابتدا میں اسے بچوں کی تعداد پر قابو پانے کے لیے خاندانی منصوبہ بندی کے طور پر پیش کیا گیا اور بعد میں خاندانی منصوبہ بندی جیسے لفظ کو ایک مناسب لفظ سے تبدیل کرتے ہوئے اسے خاندانی بہبود کردیا گیا۔ خاندانی منصوبہ بندی کا جو مقصد تھا وہی مقصد خاندانی بہبود کا بنایا گیا۔ بہرحال ان بہبودی اقدامات کے نتائج اب خواتین میں شرح تولید کی شکل میں ظاہر ہورہے ہیں۔ بھارت میں جملہ شرح تولید (فی خاتون بچوں کی تعداد) 2.1 تک گر گئی ہے جبکہ یہ شرح 1980ء میں 4.97 تھی۔ تولید یا پیدائشی شرح میں یہ کمی دراصل پہلے ہی سے عمل کیے جارہے خاندانی بہبود یا خاندانی منصوبہ بندی سکیموں کا نتیجہ ہے۔ سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے آبادی اور اسلام میں خاندانی منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ آبادی پر بھارت میں سیاست کے مسئلہ پر تحریر کردہ اپنی کتاب میں اس موضوع کا جامع جائزہ لیا ہے اور انہوں نے اپنی کتاب میں 29 ریاستوں میں سے 24 ریاستوں کا جائزہ لیا جن میں شرح تولید 2.179 کے قریب بتائی گئی ہے جو مستحکم آبادی کی طرف اشارہ کرتی ہے جبکہ آسام میں شرح تولید 1.9 فیصدہے۔ یہ اعداد و شمار این ایچ ایف ایس 5 میں کیے گئے ہیں‘ تاہم آر ایس ایس کی زیرقیادت ہندو قوم پرست ‘ آبادی کو صرف مسلمانوں سے جوڑ کر اسے مسئلہ میں تبدیل کردیتے ہیں۔ ان ہندو قوم پرستوں کا ماننا ہے کہ مسلمان آبادی میں اضافہ کرتے ہیں تاکہ بھارت میں وہ اکثریت میں آجائیں اور بھارت کو ایک مسلم ملک میں تبدیل کردیں جبکہ حقیقت کچھ اور ہے۔بھارت میں جیسا کہ میں نے لکھا ہے 1952ء میں خاندانی منصوبہ بندی کا آغاز کیا گیا‘ ایسے میں ایمرجنسی کے دور اور سنجے گاندھی کی بدنام زمانہ زبردستی نس بندی مہم کو چھوڑ کر خاندانی منصوبہ بندی کی پالیسی نے اچھا کیا ہے اور اس کے بہتر نتائج برآمد ہوئے‘ لیکن آج ملک میں یہ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ آبادی خاص طور پر مسلمانوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور یہ پروپیگنڈہ بدنیتی پر مبنی ہے۔ دلچسپ کی بات یہ ہے کہ بی جے پی کی سابق شکل جن سنگھ خود خاندانی منصوبہ بندی پروگرامز کی مخالف تھی۔ یہاں تک کہ بی جے پی کی معاون تنظیمیں جیسے وشوا ہندو پریشد خاندانی منصوبہ بندی کی سختی کے ساتھ مخالفت کررہی ہے۔ بی جے پی میں ایسے کئی سوامی اور سادھوی (ساکشی مہاراج‘ سادھوی پراچی) ہیں جو ہندو خواتین کو زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ یہی نہیں کہ خود سابق ا?ر ایس ایس سربراہ کے سدرشن نے ہندو خواتین پر زور دیا تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کریں۔ زور زبردستی یا جبر کے مقابلے میں مرضی و ارادے یا اختیار کے درمیان مقابلے کا بہتر مظاہرہ کیا گیا اور خاص طور پر ایمرجنسی کے دور میں بھارت نے مردوں کی نس بندی کے واقعات میں زبردست اضافہ کا مشاہدہ کیا اور اس دور میں نس بندی بھارتیوں کے لیے ایک قابل قبول قاعدہ بن گئی تھی‘ لیکن بعد میں اسے زبردستی نافذ کرنے کی کوشش کی گئی جس کا نتیجہ اس کی مخالفت کی گئی۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ 1975ء سے پہلے یعنی ایمرجنسی سے قبل بھارت ‘ مردوں کی نس بندی کے معاملے میں ساری دنیا میں سرفہرست تھا اور سالانہ نس بندی کے کئی ملین آپریشنز کیے گئے‘ لیکن نس بندی کے زبردستی نفاذ کے دو سال بعد اس طرح کے آپریشنز کروانے والوں کی تعداد میں بہت گراوٹ آئی۔ اب دوبارہ نس بندی کا احیاکرنا مشکل ہے۔ ابتدامیں لوگ چین کی ’’ایک بچہ‘‘ پالیسی کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے اس کی بہت زیادہ ستائش کرتے تھے لیکن چین میں اس پالیسی کا الٹا اثر ہوا۔ آبادی پر قابو پانے کے لیے زبردستی نس بندی یا زبردستی قوانین پر تھوپنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ تعلیم کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ نگہداشت صحت کی سہولتوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے‘ تب آبادی کسی بھی طرح ایک خطرہ نہیں رہے گی۔ آج ملک کو کئی مسائل اور خطرات کا سامنا ہے اور بی جے پی قائدین آبادی بالخصوص مسلمانوں کی آبادی کو خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ انہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ تعلیمی شعبہ کو مستحکم بنانے اور گھر گھر میں تعلیم کو عام کرنے سے آبادی کے بشمول کئی ایک مسائل کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ اقوام متحدہ کا ایک فارمولہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تعلیم ایک بہترین مانع حمل دوا ہے۔ یہ بالکل درست ہے کیونکہ ہم نے خود دیکھا کہ بھارت کی ان ریاستوں میں جہاں لڑکیوں میں خاص طور پر خواندگی کی شرح بہت زیادہ ہے‘ وہاں خاندانی بہبود پروگرامز کے بہتر نتائج برآمد ہوئے ہیں اور بی جے پی حکومتیں جو قانون بنا رہی ہیں ‘ اگرچہ اس میں کسی مخصوص مذہب کا نام نہیں لیا گیا ‘ اس کے باوجود یہ واضح ہے کہ وہ لوگ مسلم اقلیت کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بی جے پی کی زیرقیادت ریاستوں آسام اور اترپردیش کے وزرائے اعلیٰ زبردستی کے ان پروگرامز پر عمل کرنے کے معاملے میں دلچسپی کیوں لے رہے ہیں جبکہ آج تعلیمی شعبہ میں بہتری لانے‘ غربت کو ختم کرنے اور نگہداشت سہولتوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے دراصل آسام کے نئے چیف منسٹر مذہبی بنیاد پر عوام کو تقسیم کرتے ہوئے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ مسلمانوں کو خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ پچھلے ماہ انہوں نے یہ کہتے ہوئے تنازع چھیڑ دیا تھا کہ اگر مہاجر مسلمانوں کی کمیونٹی خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کرتی ہے تو آسام میں ہم کئی سماجی مسائل حل کرسکتے ہیں۔
دوسری طرف مرکزی وزیر گری راج سنگھ کا کہنا ہے کہ آبادی بالخصوص مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ملک کے سماجی دھاگے‘ سماجی ہم آہنگی اور ترقی کے لیے ایک خطرہ ہے۔ راجستھان کے بی جے پی ایم ایل اے بھنوری لعل کہتے ہیں کہ ہندوئوں کے برخلاف مسلمان اس بات کو لے کر فکرمند ہیں کہ کس طرح اپنی آبادی بڑھائیں اور ملک میں اکثریت میں تبدیل ہوجائیں۔ ان تمام کو یہ جان لینا چاہئے کہ مسلمان‘ خاندانی منصوبہ بندی کے طریقے بڑی تیزی سے اپنا رہے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق مسلمانوں کی آبادی 2050ء تک ملک کی جملہ آبادی کا 18فیصد ہوگی۔ ان کی آبادی کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ اکثریت بن جائیں گے اور بھارت کو ایک مسلم ملک میں تبدیل کردیں گے ‘ کچھ اور نہیں بلکہ فرقہ وارانہ بنیاد پر چلائی جانے والی سیاسی ایجنڈے کا ایک حصہ ہے اور اس کے ذریعہ ہندو اکثریت میں احساس خوف پیدا کرکے اپنا الو سیدھا کرنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔