ستاروں سے آگے
شیئر کریں
دوسری جنگ ِ عظیم عروج پر تھی جاپانی انتہائی پرجوش اندازمیں جنگ لڑرہے تھے کہ اچانک امریکا نے شکست کے خوف کے پیش ِ نظر ایٹم بم ا ستعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ امریکی کانگریس کے کچھ ممبران یہ فیصلہ سن کر لرز اٹھے انہوںنے بھرپور مخالفت بھی کی لیکن اکثریت کے سامنے ان کی ایک نہ چلی یقینا انسانیت اس روز بہت چیخی چلائی ہوگی امریکا نے پہلا ایٹم بم جاپانی شہر ہیروشیماپر برسایا عینی شاہدین کا کہناہے ہمیں محسوس ہوا جیسے قیامت بپاہوگئی ہو۔ایٹم بم اٹیک کے پہلے ایک منٹ کے دوران پورے شہرکی آکسیجن جل گئی اورآناً فاناً70000افراد موت کے منہ میں چلے گئے دوسرے منٹ میںبہت سی بلڈنگوںمیں آگ بھڑک اٹھی جو لوگ ایٹمی تابکاری اثرات سے کچھ کچھ محفوظ تھے آگ میں جھلس گئے صرف پانچ منٹ کے دوران ایک لاکھ سے زائد جاپانی شہری لقمہ ٔ اجل بن گئے ۔شہرمیں ہر طرف انسانی لاشے ۔ زندگی سے محروم بے جان کھوپڑیاں نظرآرہی تھیں جھلسنے والوںکی تعداد بھی لاکھوںمیں تھی لوگ زخموںسے کراہتے تھے کوئی مدد کرنے والا نہیں تھا ایٹمی تابکاری نے جھلسنے والوںکے چہروں کے خدو خال بدل کررکھ دئیے تھے ان کی طرف دیکھنے سے خوف محسوس ہوتا تھاانسان کی بے بسی اوربے کسی عیاں تھی ہیروشیمامیں درخت، کھیت اور سبزہ تمام جل کر سیاہ ہوگیا تھا کئی مقامات پر بچوںکو اجل نے اس طرح آگھیرا کہ وہ بیٹھے بیٹھے ساکت ہوگئے کسی کا ہاتھ فضا میں اٹھاہی رہ گیا،کوئی دوڑتے دوڑتے مجسمہ بن گیا کہیں لوگ باتیں کرتے کرتے چپ ہوگئے لیکن جیسے ہونٹ کچھ کہتے کہتے رک گئے ہوں کسی کا سانس اوپرکا اوپر نیچے کا نیچے رہ گیا اور اسی عالم میں موت نے آلیا یوں محسوس ہورہا تھا جیسے کسی نے جادو کے زورپرپورے ماحول کو ساکت کردیاہو ۔
بیشترپورے کے پورے خاندان صفحہ ٔ ہستی سے مٹ گئے ان کی لاشوں پر کوئی رونے والا بھی نہ تھا ۔آج سے پون صدی پہلے 6 اگست1945 کو امریکی جہازEnola Gayنے جاپانی شہر ہیروشیما پر پہلا ایٹم بم گرایا اسے لٹل بوائے کا بے ضرر نام دیا گیاحملے کے وقت اس شہرکی آبادی ساڑھے تین لاکھ تھی فوری طورپر70000افراد لقمہ ٔ اجل بن گئے چند دنوں تک یہ تعداد دگنا سے تجاوز کرگئی منصوبے کے مطابق یہ حملہ یکم اگست1945ء کو کیا جاتا تھا لیکن خراب موسم کی وجہ سے چند دن ملتوی کرنا پڑاEnola Gayکے13رکنی عملہ کو راستے میں معلوم ہو ا وہ ایٹم بم گرانے جارہے ہیں اس کے تین دن بعد دوسرا ایٹم بم کہوٹو نامی شہرپر گرایا جانا تھا لیکن امریکی وزارت ِ دفاع کی مخالفت پر یہ ہدف تبدیل کرکے ناگا ساکی کا نام فائنل کیا گیا اس شہرمیں ’’ فیٹ مین‘‘ نامی ایٹم بم گرایا گیا وہ 22ٹن وزنی تھااس کا اصل ٹارگٹ اسلحہ ساز کمپنی مسٹوبیشی کا مرکزی دفترتھا جہاں بحری اڈا بھی موجود تھایہاں تارپیڈو بھی تیار کیے جاتے تھے جو برل ہاربرپر حملے میں استعمال کیے جاتے تھے ان حملوںمیں اڑھائی لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے گئے شنید تھی کہ تیسرا ایٹم بم ٹوکیوپر گرایا جانے والاہے یہ سن کر جاپانیوںکی کمرٹوٹ گئی اور انہوںنے ہتھیار ڈالنے کااعلان کردیاایٹم بم گرانے کے احکامات امریکی صدر ہیری ٹرومین نے دئیے تھے۔ ہیروشیما کے تباہ شدہ شہرکو مکمل طورپر دوبارہ تعمیر کیاگیا صرف دریائے اوٹاپر واقع ا من پارک آج بھی پہلے کی ہی طرح قائم ہے اور اس میں ایک یادگاری شمع بھی روشن کی گئی ہے یہ شمع اس وقت تک فروزاں رہے گی جب تک دنیا سے ایٹم بم کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ ایٹم بم کی تباہ کاروںکا سلسلہ آج تک درازہے ایٹمی تابکاری اثرات اتنے مہلک تھے کہ نصف صدی سے زیادہ عرصہ گذرنے کے باوجود ہیروشیما اور ناگا ساکی میںآج بھی اپاہچ اورمعذور بچے پیدا ہورہے ہیںجو بنی نوع انسانیت کے لیے بہت بڑا المیہ ہے۔
ایٹم بم گرانے کے کئی ماہ بعد ٹوکیو میںایک بڑے سے ہال میںبہت سے افراد بیٹھے ہوئے تھے کئی مضطرب ٹہل رہے تھے دیواروںپر درجنوں سکییچ آویزاں تھے کسی پرلاتعداد کھوپڑیوں کی تصویر۔۔ایک پر تڑپتے ہوئے گول مٹول بچے۔ کسی پر دھویںکے بادلوں میں بے جان فاختہ زمین پر گرتی دکھائی دے رہی تھی ۔۔ کسی تصویر میں جھلسے ،خوفناک چہروںپر عجب بے بسی چھائی ہوئی تھی کسی سکیچ میں متاثرین۔۔ تباہ ہال ہسپتال کے باہر بیٹھے ہیں اور دروازے سے نکلتے ڈاکٹر و نرسوں کے بے جان لاشے آڑے ترچھے پڑے ہوئے ہیںلوگ بھیگتی آنکھوں سے یہ علامتی تصویریں دیکھ رہے تھے کسی کی رو رو کر آنکھیں سوج گئی تھیں عجب قیامت کا عالم تھا ایک قیامت وہ تھی جب ایٹم بم گرایا گیا ایک قیامت یہ سینکڑوں نہیں لاکھوں معذور ان کے لیے امدادی سرگرمیاںشروع کرنا ۔۔۔ایک مخصوص گھنٹی کی آوازپر سب الرٹ ہوکر بیٹھ گئے سٹیج پرحکومتی عہدیدار، ابتدائی نشستوںپر سائنسدان بڑے بڑے سرکاری،ان کے سامنے فوجی افسر،ماہرین معاشیات سماجی رہنما سیاستدان اور دیگر افرادبرا جمان تھے سب کا موضوع ایک ہی تھا کہ امریکا نے جاپان پر ایٹم بم گراکر بہت بڑے جنگی جرم کا ارتکاب کیاہے اس کا انتقام کیسے لیا جائے؟ نوجوان انتہائی پر جوش تھے مرنے والوںکے لواحقین میں انتہائی اشتعال تھا وہ ہر قیمت پر امریکا کو مزا چکھانا چاہتے تھے اس سلسلہ میں مختلف لوگ آتے سٹیج پر رکھے ڈائس پر کھڑے ہوکر اپنی تجاویز دیتے اور بیٹھ جاتے اسی اثناء میں ایک نوجوان نے کہا ہم نے ایک ’’ہارا کاری ‘‘ــگروپ تشکیل دیا ہے( زندگی سے بیزار کئی جاپانی خود کو اذیت دے کر خود کشی کرلیتے ہیں اس عمل کو ہارا کاری کہا جاتا ہے جاپان میں ہرسال سینکڑوںافرادہاراکاری سے موت کو گلے لگا لیتے ہیں ) ہم جاپان مخالف ممالک کو عبرت کا نشان بنانے کے لیے ان ملکوںمیں پر تشدد کاروائیاں کرکے ہارا کاری کرلیں گے ہمیں اس کی اجازت دی جائے ۔کئی گھنٹوںکے بحث و مباحثے کے بعد ایک جاپانی جنرل اپنی نشست سے اٹھ کھڑا ہوا اس نے ہاتھ ملتے ہوئے کہا پھر جنگ و جدل ۔ مارا ماری؟
یہ سن کر ایک نوجوان تیزی سے اٹھا ۔ تنک کر بو لا ۔ ۔ بزدل کہیں کا ۔ جاپانی جنرل نے کہاتم جو مرضی کہو میں اتنا جانتاہوں جاپان کمزور نہ ہوتا تو ہم یہ جنگ کبھی نہ ہارتے ۔ وہ تو امریکا نے ایٹم دے مارا۔۔۔ نوجوان نے بے بسی سے جواب دیا ورنہ ہم جیت سکتے تھے ،یہ سن ایک مفکرنے چیختے ہوئے ہال کی دیواروںپر لگی تصویروںکی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یہ ہے جنگ کا انجام ۔ جو سب کے سامنے ہے
’’پھرکیا کیا جائے ۔ایک آواز گونجی
’’انتقام لینے کا ایک طریقہ اور بھی ہے۔۔۔صورت سے ہی ذہین وفطین شخص کہنے لگا
وہ کیا؟ بیک وقت کئی آوازیں آئیں۔۔۔وہ بولا ہم اپنے ملک کو اس قدر طاقتور بنادیں کہ پوری دنیا جاپان کی محتاج ہو جائے۔۔۔میرے خیال میں انتقام لینے کا یہ طریقہ سب سے بہترہے۔۔۔۔اس کی حمایت میں کئی آوازیں گونجیں۔۔ وہ کیسے؟۔کئی چہرے کھل اٹھے۔۔۔ ذہین وفطین شخص نے پھر کہا ایک دن آئے گا ۔۔ اس ن۔ خلا میں گھورتے ہوئے کہا۔۔وہ دن دور نہیںجب دنیاجاپان کی اقتصادی ترقی کی مرہون منت ہوگی آئیے !عزم کریں ہم ایک عظیم ،خوشحال اور طاقتور جاپان کی تشکیل کے لیے ابھی سے دن رات ایک کردیں گے ۔۔۔۔اس دن سے لے کر آج تک جاپانیوںکی محنت ضرب المثل بن گئی انہوںنے پیچھے مڑکر دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔۔ آگے اور آگے اس سے بھی آگے بڑھتے چلے گئے انہوںنے وہ منزل پالی جس کے بارے میں علامہ اقبالؒ نے کہا تھا
ستاروںسے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
جاپانیوں کا دعویٰ ہے دنیا کا کوئی گھر ایسا نہیں جہاںMade in Japanکی کوئی نہ کوئی مصنوعات ضرور موجود نہیںہے آج جاپان کا نام معیاری پراڈکٹ میںسر ِ فہرست ہے۔ جاپانیوںنے کئی لاکھ ہم وطنوںکی قربانی دے کرایک تباہ حال ملک کو ازسرنو دنیا کا جدید ملک بناڈالا ۔تمام ترقی پذیرممالک بھی ایسا کرسکتے ہیں وسائل کی کمی توہو سکتی ہے جوہر ِ قابل کی کوئی کمی نہیں۔۔۔ہمت ،استحکامت اور عزم سے ترقی و خوشحالی کے لیے بہت کچھ کیا جا سکتاہے ۔ ہمت مرد مدد ِ خداکی کہاوت صادق آئے گی انشاء اللہ اٹھیے ۔۔سوچئے مت کچھ کر کے دکھائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔