قوم کے لیے ۵فروری کاتحفہ ۔۔۔۔۔(آخری قسط)
شیئر کریں
گزشتہ مضمون میں بات پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش سے چلی اور نمائش کنندگان تک پہنچی تھی۔ پاکستان سے ہر سال دس ارب روپے سے زائد سرمایہ اس ذریعے سے بھارت کو گود میں پہنچا دیا جاتا ہے اور اس کے عوض ہم بھارت سے ثقافتی حوالے سے جو کچھ خریدتے ہیں اس کے آئندہ نسل پر پڑنے والے اثرات کو تو رکھیں ایک طرف، لیکن اگر اس کے مجرد معاشی اور مالیاتی پہلووں پر ہی نظر ڈالی جائے تو پتہ چلے گا کہ اس حوالے سے بھی صورتِ حال کسی طور بھی قابلِ رشک تو کیا قابلِ برداشت نہیں کہی جا سکتی۔
اب تو صورتِ حال یہ ہے کہ نجی شعبے میں متعارف کروائی جانے والی کسی بھی رہائشی ا سکیم میں ا سکول ،پارک ، ہسپتال ، شاپنگ مال، ہوٹل اورہیلتھ کلب کے ساتھ ساتھ اب ”سینما گھر “بھی ایک سہولت کے طور پر اشتہار میں دکھایا اور بتایا جاتا ہے یعنی ہمارے ’ریاض ملکوں‘ نے یہ بات طے کردی ہے کہ سینما اب ہر علاقے، سیکٹر یا بلاک کا لازمی حصہ ہوگا ۔حالاں کہ یہ جلبِ زر کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس پر مستزاد نئی ٹیکنالوجی کی آمد نے روایتی سینما مالکان کی جگہ جدید سیٹھوں نے لے لی ہے۔جدید سیٹھوں نے آٹھ ا سکرینوں والے سینما کمپلیکس بنا دیے ہیں جہاں بیک وقت کئی کئی فلمیں زیرِ نمائش ہوتی ہیں۔
اس وقت لاہور میں تعمیر کیا جانے والا ایک نیا سینما بھارتی فلم کی نمائش کے ساتھ پونے دو سال میں اپنی لاگت پوری کر دیتا ہے۔ یہ اسی صورت میں ہوتا ہے جب سینما کی نشستوں کو بھرنے کی سالانہ اوسط تعداد کل نشستوں کا ساٹھ فی صد ہو، سینما مالکان کے بقول محرم اور رمضان کے باعث ان کو پہلے ہی پورے سال کے لئے فلموں کی نمائش کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ بھارتی فلموں کی درآمد پر خود ساختہ پابندی سے یہ شرح سترہ فی صد تک گر گئی تھی جس سے ان مہنگے سینما مالکان کے خرچے کا بھی ایک تہائی ہی پورا ہو پاتاتھا ۔جب کہ اس وقت بھارت جیسے ملک میں سینما کی سیٹوں کی اوسط بھرائی ستر فی صد کے لگ بھگ ہوتی ہے۔
لاہور میں سب سے بڑا سینما کمپلیکس آٹھ ا سکرینوں پر مشتمل ہے جو میاں منشاءصاحب کی ’امپوریم مال‘ نامی دیو ہیکل عمارت میں ان کے بھتیجے نے قائم کیا ہے۔حکومتِ پنجاب کی طرف سے سینما کی صنعت کو پانچ سال کے لئے ’ٹیکس استثنیٰ ‘ کو بھی اسی سینما کمپلیکس کی تعمیر سے جوڑا جاتا ہے۔ اس ٹیکس چھوٹ کے پانچ سالہ عرصے میں سے تین سال توگزر چکے ہیں ، جب کہ دو سال ابھی باقی ہیںاور یوں یہ سینما مالکان کمائی کے اس باقی عرصے کو بھی کسی طور ضائع نہیں ہونے دینا چاہتے۔جس کے لئے وہ اپنے ہمدرد روابط کو ہر قیمت پر ’استعمال‘ کررہے ہیں۔
جب بھارتی فلموں کی درآمد اور نمائش ہو رہی تھی تو اُس وقت بھی پاکستانی فلم ساز شکوہ کناں تھے کہ ان کی فلموں کو نمائش کے لئے مقامی سینما دستیاب نہیں ہوتے ۔مقامی فلموں کو یاتو ”ہاو¿س فل “کہہ کر انکار کردیا جاتا یا پھر ان کو ایسے غلط اوقات اور بھاری ٹکٹ پر نمائش کے لئے پیش کیا جاتا کہ کسی فلم بین کوپاکستانی فلمیں دیکھنے کے لئے سینما آنے کی ہمت نہ ہو۔ہاں البتہ وہ فلم ساز جن کے ہاتھ میں ’آئی ایس پی آر ‘ کی پرچی ہوتی تو ان کا معاملہ دیگر ہوتا، اس کے لئے ہر سینما گھر کی ہراسکرین دستیاب ہوجاتی۔ویسے ایک حوالے سے اگر دیکھا جائے تو بھارتی فلمیں ان آئی ایس پی آر والی فلموں سے تو بہتر ہی ہوتی تھیں ۔ ہماری فلموں میں گھٹیا قسم کی ’قوم پرستی‘ کے غلاف میں لپیٹ کر اسلام کو اور شعائرِ اسلام کوگالی دی جاتی ہے اور دین کے ہر شعائر کا مذاق اڑانے سے لے کردہشت گردوں کو پختون بھائیوں کا ہم شکل اور ہم لباس دکھا کر قوم کے سامنے یہ بیانیہ انتہائی گھٹیا انداز میں مسلسل دہرایا جاتاہے۔ ایسے میں بھارتی فلمیں اس حوالے سے قبول نہیں کی جا سکتیں کہ وہ ہمارے معاشرے کے مختلف ’طبقات ‘کو نہیں بلکہ ننگے طریقے سے ’پاکستانی اداروں ‘ اور ’ریاست‘ کو گالی دیتے ہیں ۔کیوں کہ انہیں اس امر کابخوبی اندازہ ہے کہ اگر ان سے مسلمانوں کے اندر کوئی اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ حرکت سرزد ہو ئی تو ان کا معاشرہ مسلم اقلیت کے ٹوٹتے اتحاد کے نیچے دب سکتا ہے۔ بہرحال بھارتیوں کا پروپیگنڈہ اکثر اوقات سنسر کے وقت کاٹابھی نہیں جاتاجس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہماری نئی نسل ، ذہنی طور پر ہر قومی مسئلے پر خود کو بھارت کے قریب محسوس کرتی ہے۔ لیکن ہماری ان ’مقامی‘ فلموں نے ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کے نام پر بدیشی سرمایہ کاری سے ملکی یک جہتی کی بنیادوں میں جو بارود بھرا ہے ، یہ ہمیں اگلی کئی نسلوں تک بھگتنا پڑے گا۔
اس وقت بھارت سے بڑی کاسٹ والی مہنگی سے مہنگی فلم بھی دس کروڑ (پاکستانی )روپے میں مل جاتی ہے اور بڑے آرام سے تیس سے پینتیس کروڑ کما جاتی ہے۔ ویسے جتنے پیسوں میں بھارتی فلم درآمد ہوتی ہے، اتنی رقم میں پاکستانی فلم بھی تیار ہو جاتی ہے۔ لیکن یہاں پر نئی فلم سازی پر اہلِ کراچی کی اجارہ داری ہے جو اپنی تما م تر فراخ دلی کے باوجود مخصوص ذہنیت سے رو بہ عمل ہوتے ہیں ، اس لئے ان کی فلمیں باقی اہلِ وطن کے لئے ’غیر متعلقہ‘ ہو جاتی ہیں اور بھارت کی تیسرے درجے کی فلموں کے برابر ہی کاروبار کر پاتی ہیں۔ حیر ت کی بات ہے کہ بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی کے خلاف آوازان سینما مالکان کی طرف سے نہیں اُٹھی جو اس سے براہِ راست متاثر ہو رہے تھے۔ بلکہ بھارتی فلموں کی نمائش کے لئے ان بڑے بڑے پیٹوں میں مروڑ اُٹھ رہے ہیں جو کہ اس سے براہِ راست متاثر نہیں ہو رہے ۔اب ہوا یہ ہے کہ ایک تو ہماری طرف تو بھارتی فلموں کی درآمد پرخود ساختہ پابند ی میں خود ہمارا کوئی عمل دخل تھا ہی نہیں تھا جتنا فلم کے پروڈیوسر پر بھارت میں ’ہندوتوا‘ ذہنیت کی حامل شیوسینا اوراس سے ملحقہ مسلح گروہوں اور بھارتی میڈیا کا دباو¿ کہ پاکستان کو فلمیں برآمد نہ کی جائیں۔ اسے آپ انتہا کی نفرت بھی کہہ سکتے ہیں جو سرحد کے دوسری طرف ہمیشہ ٹھاٹھیں مارتی رہتی ہے۔ لیکن شوسینا نے بھی تو اپنے معاملات چلانے ہوتے ہیں اس لئے طویل اور شدید مذاکرات ہوئے او ر شیوسینا کی قیادت اس بات پر مانی ہے کہ اگر پاکستان میں اس فلم کی نمائش کے حقوق دس کروڑ کے عوض بیچے جائیں گے تو اس میں سے پانچ کروڑ ”مالی اعانت“ یا چندے کی صورت میں ان کی پارٹی کو دے دیے جائیں گے۔
اس طرح مجموعی طور پر یہ منظر کچھ یوں بن رہاہے کہ حکمران مسلم لیگ نواز کے سربراہ میاں محمد شریف کی اجازت اور حکم پر بھارت کی فلموں کی درآمد کے ساتھ پچاس فی صد سے زائد رقم ، بھارتی وزیر اعظم ، نریندرا سنگھ مودی کی مادر سیاسی جماعت شیوسینا کو جا رہی ہو گی۔ تو ایسی صورت میں خاکسار جیسے نوازشریف کے ایجنٹ صحافیوں کا کیا بنے گا جو دن رات گلے کی تمام قوت کے ساتھ یہ بات ثابت کرنے میں مصروف رہتے ہیں کہ ’نواز مودی کا یار نہیں ہے‘۔ یہ یاری تو سب پر بھاری محسوس ہوتی ہے۔ اس لئے وزیراعظم اور ان کے ارد گرد دسترخوانی راتب خوروں کو اپنا نہیں تو کم از کم ہمارا ہی خیال کر لینا چاہیے کیوں کہ وزیر اعظم ہاو¿س میں کوئی بھی نوکری کی عدم کی دستیابی کی صورت میں فی الحال ہمیں انہی لوگوں میں رہنا ہے۔
٭٭