افغان امن اور بھارت
شیئر کریں
خطے کے ممالک افغانستا ن میں امن قائم کرنے کے لیے کوشاں ہیں لیکن بھارت ایک ایسا آتش فشاں بنانا چاہتا ہے جس سے بدامنی کامستقل لاوا بہتا رہے مقصد خطے کے ممالک کی امن کوششوں کو سبو تاژکرنا ہے لیکن ابھی تک اُسے کامیابی نہیں مل رہی اُلٹا چار میں سے دوقونصل خانے بند کرنے پر مجبور ہے اور اب کابل کے سفارتخانے اور مزار شریف میں قونصل خانے تک محدودہوگیا ہے سوال یہ ہے کہ جب بھارت اور افغانستان کی سرحدیں آپس میں نہیں ملتیںتو پھر اُسے چار قونصل خانے بنانے کی کیا ضرورت تھی صاف ظاہر ہے قونصل خانوں میں ہمسایہ ممالک کے خلاف کاروائیوں کی سازشیں کی جاتی تھیںاب ایک اور ہوشیاری کی گئی ہے کہ سفارتی عملے کی منتقلی میں ائر فورس کے طیارے استعمال کیے جارہے ہیں اوراسی آڑ میں ٹنوں کے حساب سے ہتھیار و بارومنتقل کر دیا گیا ہے حالانکہ طالبان یقین دلا رہے ہیں کہ بھارت سمیت تمام ممالک کے سفاترتخانوں کوتحفظ دیں گے صرف اپنی سلامتی کو خطرہ بننے والوں کو معاف نہیں کریں گے پھر بھی بدنامِ زمانہ خفیہ ایجنسی را کو سرگرمیاں ختم کرنے کا کڑوا گھونٹ اِس وجہ سے پینے پر مجبور ہے کیونکہ تعاون کی آڑ میں نسلی و لسانی تعصب کو ہوا دینے کی سازش کا طالبان کو ادراک ہے اُسے اپنی کارستانیاں یاد ہیںاسی لیے فرار میں عافیت سمجھ رہی ہے اب بھی یہ عیاں ہے کہ بھارت افغانستان میں خانہ جنگی کو ہوا دے کر اپنے لیے جگہ بناناچاہتا ہے کیونکہ خانہ جنگی کو ہوا دینے سے ہی آمدورفت کے زرائع غیر محفوظ بنائے جاسکتے اور تجارتی سرگرمیاں ختم کی جا سکتی ہیں علاوہ اگر نسلی و لسانی خلیج کے خاتمے پر تمام افغان دھڑے متفق ہو جاتے ہیں تو تخریبی سرگرمیوں کے لیے انسانی وسائل کا حصول ممکن نہیں رہے گا جس سے پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر موجود دبائو کم ہو سکتا ہے اسی لیے بھارت کی سرتوڑ کوشش ہے کہ افغانستان بدامنی کا مرکز بنا رہے تاکہ تجارتی سرگرمیوں کو فروغ نہ ملے اور پاکستان پر بھی دبائو برقرار رہے۔
یواین او چارٹر کی روسے کسی ملک کی آزادی وخودمختاری کو پامال کرنے کی کسی کو اجازت نہیں نہ ہی کسی ملک کی سرزمین کو دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے پر بھی قدغن ہے لیکن چانکیائی سیاست کا علمبردار بھارت بظاہرتو امن پسندی کے راگ الاپتا ہے لیکن حقیقت میں اُسے امن سے کوئی سروکار نہیں وہ خطے کا تھانیدار بننے کے چکر میں علاقائی امن کے لیے خطرہ بن رہا ہے اوپاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال کرنے میں مصروف ہے اُس نے دودہائیوں سے افغانستان کو مزموم سازشوں کا مرکزبنا رکھا ہے حامد کرزئی سے لیکراشرف غنی تک کٹھ پتلی حکومتیں مذموم سازشوں میں اُس کی آلہ کاراور پشتبان ہیں امریکی مکاریاںاور بھارت کی چالبازیاں آج ایک بار پھر افغانوں کو بدامنی کی آگ میں جھونکنے کے قریب ہیں جس کا ادراک کرتے ہوئے افغان عوام کو اتحاد سے کام لینا ہو گا امریکا و نیٹو نے فوجی انخلا سے قبل سوچ سمجھ کر ہی سیاسی سمجھوتے کی راہ ہموار کرنے سے بے نیازی دکھائی ہے یہ پُراسرار بے نیازی کا مقصد بد امنی کو بڑھاوا دینے کے سوا کچھ اور نہیں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت آجکل امریکا کا بغل بچہ ہے اِس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ امریکا نے بھارت کی ایما پر ہی افغان فریقین کے مابین سیاسی سمجھوتے سے پہلو تہی کی ہے تاکہ بھارتی ریشہ دوانیوں کے لیے ماحول سازگار رہے۔
بھارت کے شرپسند بلوچوں اور ٹی ٹی پی سے روابط کُھلی حقیقت ہیں اور اب طالبان سے تعلقات اُستوار کرنے کی درپردہ کوششوں میں مصروف ہے لیکن ایک طرف وہ طالبان سے تعلق قائم کرنا چاہتا ہے تو ساتھ ہی سفارتی عملے کو لانے کے لیے بھیجے جانے والے جہازوں میں ہتھیارو بارود سپلائی کر نے میں مصروف ہے تاکہ اشرف غنی حکومت اپنا دفاع کرنے کے ساتھ طالبان کو کچل سکے یہ کردار بھارت کی دوغلی پالیسی کاآئینہ دار ہے کابل ائرپورٹ پر اینٹی میزائل سسٹم کی تنصیب میں بھی بھارت پیش پیش ہے مقصد فارن فرینڈز کو آپریٹ کرنے میں کوئی دشواری نہ ہوایسا کردار کسی دوست یا بہی خواہ کا نہیں ہو سکتا مبصرین اِس پر متفق ہیں کہ بھارت دراصل چین کے خلاف طالبان کو امریکا کے پرا کسی کا کردار ادا کرنے پر رضا مند کرنا چاہتا ہے زلمے خلیل زاد کی طرف سے شروع ازبکستان اور قطر کاحالیہ دورہ اسی سلسلے کی کڑی قرار دیا جارہا ہے یہ شٹل ڈپلو میسی افغانوں کے سیاسی مسائل حل کرنے کی طرف قدم نہیں بلکہ بھارت گھنائونا کردار وسیع کرنے کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے دونوں کو خدشہ ہے کہ اگر طالبان سارے افغانستان پر قابض ہو نے کے بعد اسلامی امارت میں بھی کامیاب ہوگئے تو کشمیر میں جاری شورش میں نہ صرف اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ اسلامی نظام کی کامیابی سے سرمایہ دارانہ نظام کودھچکا لگ سکتا ہے۔
طالبان اِس لیے افغان اسمبلی کے منظور کیے موجودہ آئین کو نہیں مانتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں یہ اسمبلی خود مختار نہیں بلکہ بیرونی حملہ آوروں کی سہولت کار ہے نیز منظور شدہ آئین اسلامی اصولوں پر مبنی نہیںاسی لیے معاشرے کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے خواتین کو پردے کا پابندبنایا جا رہا ہے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں بھی تبدیلیاں لائی جارہی ہیں جسے بنیاد بنا کر بھارت جیسے ممالک افغان دھڑوں کو مزاحمت کرنے کی شہ دینے لگے ہیں اور ملک کی سب سے بڑی اقلیت تاجک کمیونٹی کو اُکسایا جارہا ہے یہ ریشہ دوانیاں کسی صورت افغانوں کے لیے بہتر نہیں جن پر قابو پانے کے لیے خود افغانوں کو متحدہونا ہو گا پاکستان نے تو اپنی پالیسی بدل لی ہے اور وہ اب کسی عالمی طاقت کے جارحانہ عزائم کا سہولت کار نہیں رہا بلکہ محض امن کے لیے کردار ادا کرنے تک محدود ہو گیا ہے لیکن بھارت کی طرف سے دہشت گردوں ،علیحدگی پسندوں کی سرپرستی اور افغان قوم کو نسلی تفریق پر لڑانے کی سازشیں جاری ہیں جن سے افغانوں کو محتاط رہنا ہوگا۔
افغانستان سے امریکا کے بعد بھارت کوبھی تاریخ کے ایک بڑے اَپ سیٹ کا سامنا ہے اُس کی ٹرانسپورٹ ،شاہراہوں،آبی زخائر اور ہسپتالوں کی تعمیرپر اربوں کی سرمایہ کاری ڈوب رہی ہے حکومت اور انٹیلی جنس اِداروں میں پاکستان مخالف عناصر کی حوصلہ افزائی اور افغان میڈیا میں پاکستان مخالف فضا بنانے کی سرتوڑ کوششوںکے باجود سفارتی ہزیمت کے دہانے پر ہے پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کے ساتھ افغانستان سے آنے والا پانی بند کرنے کی کوششیں بے ثمر ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے اسی لیے اپنے علاقائی مفاد کے لیے اشرف غنی جیسی کٹھ پتلی حکومت کے تسلسل کا متنی ہے لیکن بات بنتی نظر نہیں آتی کیونکہ ایران نے بھی باور کرادیا ہے کہ وہ مزید قتل وغارت جاری رکھنے میں ساتھ دینے سے قاصر ہے جس سے افغان صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی آئی ہے اور علاقائی قوتوں کے مقابلے میں بھارت کو تنہائی کاسامنا ، سفارتخانے اور قونصلیٹ بند کرنے کی نوبت آئی ہے بہتر یہی ہے کہ کہ امریکا و نیٹو انخلا کے بعد بھارت بھی افغانوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کردے بھارت جتنا کردار بڑھانے کی ضد کرے گا نہ صرف علاقائی قوتوں بلکہ افغانوں کی طرف سے بھی مزاحمت کا سامنا کر نا پڑے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔