دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے!
شیئر کریں
ساکھ لیڈر کے لیے کرنسی کی طرح ہے۔ اس کے بغیر وہ ایک دیوالیہ پن کے شکار دکھائی دیتے ہیں۔۔ مگر ذہنی اور روحانی دیوالیے کے شکار معاشروں میں رہنما ساکھ کی زیادہ پروا نہیں کرتے۔ وہ عزت یا ساکھ کے بارے میں” اُس بازار کی مخلوق” کی طرح سوچتے ہیں جو سمجھتی ہے کہ عزت اللہ نے بہت دی ہے ، جتنی چلی جائے کم نہیں ہوتی۔ نواز لیگ کے صدر شہباز شریف اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو وفاقی میزانیہ پیش کیے جانے کے بعدپارلیمنٹ کے باہر اکٹھے دکھائی دیے تو اس حسین منظر کی تاریخ نے بلائیں لیں۔ یہ دونوں جماعتیں جس تاریخ کی قیدی ہیں، وہاں عزت ، ناموس اور ساکھ جیسے الفاظ کہیں مرقوم نہیں ہوتے۔ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے، جب یہ جماعتیں
”مرحوم ”پی ڈی ایم میں اکٹھے ہو کر ساکھ کے بحران کی یکساں شکار عمران خان حکومت کی رخصتی کے لیے مدتیں دے رہی تھیں۔ دونوں جماعتوں نے خود کوپی ڈی ایم کے مَنڈوے سے پیش کرتے ہوئے نہایت چمکیلے ، بھڑکیلے تیور اختیار کیے تھے۔ یاد کیجیے بے نظیر بھٹو کے المناک قتل کے بعد نوازشریف اور آصف علی زرداری میں رازو نیاز اور پیام و طعام ہوئے تو ایک موقع پر جناب زرداری نے فرمایا تھا کہ ہماری دوستی اگلی نسلوں میں منتقل ہوگی۔ یہ کہتے ہوئے دونوں رہنماؤں نے قومی حافظے کو ایک مذاق اور تاریخ کو اپنے دولت کے کھاتوں کی طرح کوئی مخفی کھیوت کھٹونی قسم کی چیز سمجھا ہوگا۔ ساکھ پہلے بھی کوئی قابل پروا چیز کب رہی ہے؟اس نسلی دوستی کی” عزت افزائی” کرتے ہوئے یہ دونوں جماعتیں بعد میں متعدد مرتبہ باہم دست وگریباں ہوئیں۔
موسم کی طرح بدلتے رہنما بار بار اپنے کردار کو تبدیل کرتے ہیں تو ان کا زیادہ ترا نحصار اس قومی حافظے پر ہوتا ہے، جسے وہ کمزور سمجھتے ہیں۔ چنانچہ پی ڈی ایم کے مشترکہ محاذ پر نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز اور بلاول بھٹو نے ایک مرتبہ پھر نئے کردار کے لیے انگڑائیاں لیں۔ شہباز شریف نے تب نیب کی پناہ میں ہی عافیت سمجھی۔ یہ وقت بلاول بھٹو کے ہم رنگ دکھائی دیتے ہوئے مریم نواز کے گرجنے برسنے کا تھا۔ بلاول بھٹو کے اہداف واضح تھے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک خاموش مفاہمت کے لیے اپنا سیاسی وزن پی ڈی ایم میں رکھ کر نوازلیگ کی رفاقت کا سیاسی فائدہ پنجاب بالخصوص بالائی پنجاب میں اُٹھانا چاہتے تھے۔ جہاں پیپلزپارٹی کو وجود معدوم ہو چکا ہے۔ پیپلز پارٹی کی بدقسمتی ہے کہ پنجاب میں اس کے پاس جتنے لیڈر زہیں اُتنے کارکن یا ووٹرز نہیں ۔ چنانچہ کسی بھی سیاسی اتحاد کی صورت میں پنجاب کے بڑے سیاسی اجتماعات تک رسائی پیپلزپارٹی کی شدید ضرورت ہے۔ پھر اس سے بلاول بھٹو کے تحریری خطاب میں جوش کی اداکاری سے پنجاب کے عوام کو رِجھانے لبُھانے کا موقع تو ایک اضافی فائدہ ہی تصور کیا جائے گا۔ پی ڈی ایم کے مشترکہ اکٹھ سے اس موقع کا فائدہ پیپلز پارٹی نے خوب خوب اُٹھایا۔ اس دوران میں جناب آصف علی زردای ،ماضی کے لکھے کو نیب کی مدد سے مٹانے کی کوشش کرتے رہے۔ اسٹیبلشمنٹ پی ڈی ایم کی طاقت کو منتشر کرنے میں کامیاب رہی۔ مولانا فضل الرحمان عمران خان کی چھٹی کرانے کی اپنی آرزو کی آگ میں دہکتے رہے۔ مگر وہ ایک قد آور سیاسی رہنما کے طور پر خود کو سودے بازی کے مضبوط مقام تک لے جانے میںکامیاب رہے۔ اس کے علاوہ اُنہوں نے باور کرادیا کہ کسی بھی مضبوط سیاسی تحریک کا ایندھن وہ اور اُن کی وہ طاقت ہے جو وہ کسی بھی دوسری جماعت سے زیادہ گلیوں ، شاہراوں اور جلسوں میں ظاہر کرتے ہیں۔تاہم نوازلیگ نے ہر محاذ پر نقد نقصان اُٹھایا۔
نواز لیگ نے اسٹیبلشمنٹ کو مستقل طور پر ناراض کردیا جس کے متعلق شہباز شریف کا یہ مستحکم خیال ہے کہ اُن کی حمایت کے بغیر نواز لیگ سریر آرائے اقتدار نہیں ہوسکتی۔ نواز لیگ کا یہ راز بھی فاش ہو گیا کہ وہ سیاسی حمایت جتنی بھی رکھتی ہو مگر یہ حمایت کسی تحریک میں نہیں ڈھل سکتی۔ کرایے کے ملازم سائبر شہسواروں کی بات دوسری ہے مگر عوامی حمایت کے اسٹیبلشمنٹ مخالف جلسے دور کے ڈھول سہانے کی مانند ہی ثابت ہوئے۔ظاہر ہے کہ نوازشریف یہ کیسے گوارا کرسکتے تھے کہ پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کے محاذ پر سے تمام دیکھے ان دیکھے فائدے سمیٹے اور نواز لیگ اپنے بھرم کو بھی برقرار رکھنے کے قابل نہ رہے۔ چنانچہ سینیٹ انتخابات کے موقع پر اس بوجھ کو اتارنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جب یوسف رضا گیلانی کی حمایت اسٹیبلشمنٹ حامی اور حکومت موافق بلوچستان عوامی پارٹی نے کی۔ نواز لیگ کے شاہد خاقان عباسی فوراً ہی پی ڈی ایم کے سیکریٹری جنرل کے طور پر بروئے کا ر آئے ۔ اُنہوں نے پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو ایک شوکاز نوٹس تھماتے ہوئے اس ”مشکوک” حمایت کی وضاحت طلب کر لی۔ بلاول بھٹو نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سامنے اس نوٹس کو حقارت سے پرزے پرزے کردیا۔ دوسری طرف مریم نواز نے شاہد خاقان عباسی کے اقدام کی کھلی حمایت کردی۔ کسے یاد رہا کہ مریم نواز اور بلاول بھٹو کچھ دن پہلے تک ملاقاتیں کرتے اور دعوتیں اڑاتے ہوئے مسکراہٹوں کے تبادلوں میں کیا کیا دعوے کرتے تھے؟ساکھ کب کوئی مسئلہ تھا؟
یہاں سب سے اہم بات شاہد خاقان عباسی کا کردار ہے۔ شاہد خاقان عباسی نواز لیگ اور پی ڈی ایم میں نواز شریف کا ”ٹروجن ہارس” ہے۔ انہوں نے جنرل مشرف کے عہد میں نواز شریف کے ساتھ جیل کاٹی تھی اور اپنے لسی پینے والے” شیر ” کی طرح شکایتں کرتے یا خاموشی سے مفاہمت کرتے ہوئے نہیں، بلکہ نہایت بہادری سے زنداں کے شب وروز کا سامنا کیا تھا۔نوازشریف عدالت عظمیٰ سے 28 جولائی 2017 کو پاناما بدعنوانی کے مشہور زمانہ مقدمے میں نااہل قرار پائے تو اگلے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بنائے گئے۔ مگر نواز لیگ کے اندرونی معاملات سے باخبر حلقے جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایک سادہ طریقے سے نہیں ہوا تھا۔نواز شریف نے شہباز شریف کومقدمے کا فیصلہ ہوتے ہی اُسی کمرے میں کہا تھا کہ وزارتِ عظمیٰ کا منصب اب وہ سنبھالیں گے۔ شہبازشریف اپنے بھائی کی طرف سے اس اعتماد کے ملنے کے بعد فوراً پنجاب پہنچے تاکہ پنجاب کی حکومت کی خاندانی تقسیم کو ممکن بناسکے اور وزارتِ عظمیٰ کی اس پیشکش کے متعلق ضروری حکمت عملی وضع کرسکیں۔ ابھی وہ لاہور پہنچے ہی نہ تھے ، کہ نوازشریف عدالتی فیصلے کے بعد اسلام آباد میں واقع پنجاب ہاؤس منتقل ہو گئے۔ جہاں شہبازشریف کو وزیراعظم بنانے کے فیصلے کی مخالفت شاہد خاقان عباسی نے کی ۔ جس کے بعد یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ پارٹی اجلاس میں انتہائی کم بولنے والے شاہد خاقان عباسی کی جانب سے یہ مخالفت درحقیقت پیچھے سے اس ہلاشیری کا نتیجہ تھی جو خود نوازشریف نے اُنہیں دی تھی۔ اس سب کے نتیجے میں شاہد خاقان عباسی جب خود وزیراعظم بن گئے تو یہ راز انتہائی خاموشی کے ساتھ کھلا تھا کہ شہباز شریف کو اپنا اعتماد دینے سے قبل ہی نواز شریف نے شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیا تھا، مگروہ شہبازشریف کو اپنا اعتماد دے کر پارٹی کے اندر مخالفت سے اس فیصلے تک پہنچنا چاہتے تھے۔ شہبازشریف کو بھی اس نتیجے تک پہنچنے میں دیر نہیں لگی تھی۔ سیاسی ضرورتوں کا اپنا ایک جادو ہوتا ہے۔ اس کا ساکھ سے کیا لینا دینا؟ ظاہر ہے کہ وہی شاہد خاقان عباسی پیپلزپارٹی اور اے این پی کو ”مرحوم ”پی ڈی ایم سے جھٹکنے والے رہنما ہیں۔ اب شہباز شریف قائد حزب اختلاف کے طور پر ایک فعال کردار ادا کرنے کا اشارہ دے رہے ہیں تو پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اُن کا ساتھ دینے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر بجٹ اجلا س کے بعد شہبازشریف کے ساتھ بلاول بھٹوکھڑے نظر آئے تو دیکھنے والی آنکھیں شاہد خاقان عباسی کو ڈھونڈ رہی تھی۔ ہوسکتا ہے کہ تب وہ اگلے ہفتوں میں اپنے کردار کی سرگوشی سننے گئے ہوں!اب شہباز شریف کی زبان سے ”علی بابا چالیس چور” کی گردان سنائی نہیں دیتی۔ اگلی نسلوں تک پہنچنے والی دوستی کو پچھلی نسل کی سیاسی ضرورتوں سے ہی لقوہ لگ گیا ہے۔ رہے موقع کے منتظر شہبازشریف !تو موقع آنے دیں۔ سب اپنے اپنے کردار ادا کرتے ہوئے اپنے اپنے ماضی کے کھیل کو بھول جائیںگے۔اور نئی سیاسی ضرورتوں کے بندھن میں بند ھ کر اپنے اپنے کردار کو تلاشیں گے،پندار کا صنم کدہ سب کا ویران ہوگا اور دل پھر اسی کوئے ملامت کے طواف کررہے ہوں گے۔ اس میں سب سے زیادہ جو چیز نظر انداز ہوگی وہ وہی ساکھ ہوگی۔ اس کی کسے پروا ہے؟
٭٭٭٭٭