آج پھر تصویریں سونے نہیں دیتیں؟
شیئر کریں
یہ برماکے مسلمانوںکی حالت ِ زارکا نوحہ ہے یامیرے بندلبوںکی چیخیں ، میںنہیں جانتا۔ لیکن ظلم کے خلاف آوازبلندکرنے کی کوشش کی ہے۔ شاید عالمی ضمیر جاگ اٹھیںآج دل پھرسے مضطرب ہے۔ بے قراری،بے سکونی حواس پر طاری ہے ۔ میرے چاروں طرف فضا میں خون کی بو رچی ہوئی محسوس ہورہی ہے، جیسے سانس لینا بھی دوبھرہوگیاہو۔ میرے ارد گرد آہوں،سسکیوں اور بین کرتی آوازیں حا وی ہوتی جارہی ہیں ۔میں خوفزدہ ہوں ذرا سی آہٹ پر بھی سہم سہم جاتاہوں کبھی بچوں کی چیخیں۔کبھی نوجوان لڑکیوں کی آہ و بکا۔کبھی مردوں کی بے بسی کی ان کہی کہانیاں ، کبھی عورتوںکا شور ،خوف ڈر اوردرد میں ڈوبی آوازیں اور کبھی حملہ آوروںکے قہقہے۔ نفرت میں ڈوبے تحقیر آمیز جملے سماعتوںسے ٹکرارہے ہیں ، ایک حشر بپاہے۔
میں جس طرف بھی نظردوڑاتاہوں تصویریں ہی تصویریں دکھائی دیتی ہیں۔ خون میں رنگین،دردمیں ڈوبی چیختی چلاتی تصویریں۔ احساس یوںہورہا ہے جیسے ان کے دردکی کسک میرے سینے سے اٹھ رہی ہو۔جیسے ان کے خون کے چھینٹوںسے میرا وجود لہو لہوہے۔کئی تصویریں میری آنکھوںمیں جیسے پیوست ہوکررہ گئی ہیں۔میں گھبراکر کسی اور جانب دیکھنا چاہتاہوں لیکن چندتصویریں ماحول پرغالب آچکی ہیں۔ ایک تصویر میں انسانی ہڈیوںکا ڈھیر لگاہواہے۔ غالباً ایسے ہی انسانی کھوپڑیوں کے مینارہلاکو خان نے بغدادمیں لگائے تھے ۔ یہ بھی کبھی گوشت پوست کے انسان تھے لیکن اب انسانی ہڈیوںکا ڈھیرہے۔یہ وہ لوگ ہیں جن کا جرم محض یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔اپنے نبی ﷺ کا کلمہ پڑھتے ہیں ۔ انہیں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان ہے۔ایک اور تصویرمیں ایک شخص کوپیٹرول چھڑک کر زندہ جلادیاگیاہے ۔ جان بچانے کی فطری خواہش میں وہ چیختا چلاتا بھاگتا پھررہاہے اور اس کا تعاقب ایک فوجی گن اٹھائے کررہاہے۔ایک تصویر بھلائے نہیں بھولتی ایک نوجوان کے ٹکڑے ٹکڑے لاش کو اس کے لواحقین جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہاتھ،بازو،ٹانگیں اور جسم کے ان گنت ٹکڑے دیکھ دیکھ کر بے رحم کو بھی رحم آجائے لیکن برما کے سفاک قاتلوںکو ذرا بھی ترس نہیں آتا۔ایک تصویرپر برما کے غریب مسلمانوںکا ’’جرم‘‘ لکھا دیکھا۔ساڑھے سات کروڑ کی آبادی کے ملک برما میں مسلمانوں کی تعداد صرف7لاکھ ہے یعنی اس ملک میں مسلمان 10%سے بھی کم ہیں۔ 1962ء میں جب فوج نے اقتدارپرقبضہ کیا تو انہوںنے برما کے مسلمانوںکو اپنے ملک کا شہری تسلیم کرنے سے انکارکردیا اور ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنا شروع کردیئے برماکے صوبے اراکان میں مسلمانوںکی اکثریت ہے فوجی حکومت کی جانب سے ان کو موبائل فون استعمال کی بھی اجازت نہیں ہے۔
3؍ جون کوبرما کے دارالحکومت رنگون میں11 مسلمانوں کو بسوںسے اتار کر بے دردی سے قتل کردیا گیا جس کے خلاف احتجاجی مظاہرے کے دوران فوج اور بدھ مت کے انتہا پسندوںکی فائرنگ سے 3000سے زائد مسلمان شہیداور سینکڑوں زخمی ہوگئے ۔نوجوان لڑکیوں اور بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔ صوبہ اراکان کی سرحد بنگلہ دیش سے ملتی ہے ۔ برما کے مسلمانوں نے پناہ کے لئے ادھرکا رخ کیا تو بنگلہ دیشی حکومت نے نہ صرف انہیں پناہ دینے سے انکارکردیا بلکہ قافلوںمیں لوٹ مارکی گئی ۔جوان لڑکیوںکو اغواء کرلیا گیا ۔اب تلک ایک لاکھ سے زائد مسلمانوںکو برمی فوج اور بدھ انتہا پسندوں نے قتل کردیاہے۔ 6000مسلم بستیوں کو نذر ِ آتش کردیا گیا۔ہزاروں نوجوان لاپتہ ہیں ۔اب روہنگیا کے مسلمانوںپر عرصہ ٔ حیات تنگ ہے۔ مساجدکو مسمارکیا جارہاہے۔ کئی آبادیاں جلا دی گئیں ۔اپنی جان بچاکر پڑوسی ممالک جانے والی برماکی دوشیزائوںکی عصمت دری کی جارہی ہے۔یہ کتنی عجیب بات ہے کہ برما کے مسلمانوں پر یہ ظلم بربریت بدھ کے پیروکارکررہے ہیں۔ بدھ مت کو امن کی علامت سمجھا جاتاہے ۔ ان کے مذہبی پیشوا ہمیشہ امن کا پرچارکرتے ہیں۔ مغربی میانمار میں مسلم کش واقعات میں ہزاروں افرادکو موت کے گھاٹ اتاردیا گیاہے ۔برماکی فوجی حکومت نے مسلمانوںکیلئے بیرونی امداد اور اقوام متحدہ کی طرف سے امدادپر پابندی لگادی ہے۔ میانمار میں فوج نے اقتدارپر قبضہ کرکے حکمرانوںکو گرفتارکرلیا۔ ایسے حکومت بدل گئی لیکن مسلمانوں کے حالات نہیں بدلے ۔آج میرے آس پاس بکھری دردمیں ڈوبی،چیختی چلاتی تصویریں حقیقت کی نقاب کشائی کررہی ہیں ۔ایک تصویرمیں ڈھانچے ہی ڈھانچے دیکھ کر کئی کہی ان کہی کہانیاں تصور میں ابھر آتی ہیں۔اللہ معاف
کرے ایک تصویردیکھ کررونگٹے کھڑے ہوگئے ۔سینکڑوں مسلمانوںکوزندہ جلادینے کی خوفناک تصویر قطار درقطار جلی کوئلہ بنی لاشیں۔ جیسے لاتعدادبدھ کے مجسمے پڑے ہوں۔یااللہ یہ کیسے سفاک قاتل ہیں جنہوںنے ہنستے بولتے انسانوںکو آگ کی بھینٹ چڑھاڈالا۔ایک تصویر میں نوجوان لڑکی خون کی آنسورورہی ہے جس کے خاندان کے سات افرادکو بدھ دہشت گردوںنے شہید کردیا۔ ایک اور تصویرنے دل دہلا دیا انسان کی سربریدہ،پابریدہ اوربازو بریدہ ٹکڑے جیسے آرے سے کسی نے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہو ۔یہ تصویر دیکھ کر کوئی خیال کرسکتاہے کہ آج کے انتہائی تہذیب یافتہ دورمیں کوئی اتنا ظالم بھی ہو سکتاہے۔ایک اور تصویر بھلائے نہیں بھولتی دو معصوم سے بچے پھانسی پر جھول رہے ہیں، ان کے چہروںپر فرشتوںکا سا تقدس ہے ۔ برما کے انتہا پسندوںنے ان بچوںکو جیتے جی گلے میں رسیاں ڈال کر انہی کے گھروںکو پھانسی گھاٹ بنادیا۔ایک اور تصویر حواس پر چھائی ہوئی ہے ۔ اسکول یونیفارم میں ملبوس ننھے منے طالبعلموںکی لاشیں بے گورو کفن شہرکے چوراہے میں پڑی ہوئی ہیں۔تصویریں ان گنت تصویریں کسی میں مسلمان بستی میں آگ کے شعلے آسمانوں سے باتیں کررہے ہیں ۔ کسی میں بدھ بلوائی مسلمانوںپر حملے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔کسی تصویرمیں نوجوانوںکو پیٹ کے بل لٹاکر ان کے ہاتھ اور پائوںکو اجتماعی طور پرباندھ رکھاہے ۔ بے بسی کی انتہا ان کے چہروںپر عیاں ہے ۔میرے آس پاس پھیلی تصویریں غم کا نوحہ ہیں۔ مسلمانوںکی بے حسی کا نمونہ ۔ یہ تصویریں انسانوں کے لیے عبرت بھی ہیں لیکن انہیں دیکھ کر انسانی حقوق کی تنظیموں،بڑے بڑے عالمی رہنمائوں اور مسلم
حکمرانوں کے ضمیرکاامتحان بھی ہیں جن کا فرض بنتاہے کہ وہ برما کے مسلمانوںپرہونے والے ظلم کو روکیں۔ اس کے خلاف آواز بلندکریں۔ پاکستانی میڈیا بھی اس سلسلہ میںمجرمانہ غفلت کا مرتکب ہورہاہے جوفلمیں خبروںکو دلفریب انداز میں دکھاتاہے لیکن برما کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم سے چشم پوشی کی جارہی ہے۔یہ سوچتے سوچتے میں سونا چاہتاہوں نیند آنکھوںسے کوسوں دورہے ۔ میری سماعتوںپر شور بڑھتاہی جارہاتھاجیسے بہت سے جلاد تعاقب میںہوں ۔ اسی اثناء میںتیزہوا سے بہت سی تصویریں اڑکر میرے دامن میں آگریں جیسے کوئی پناہ گزیں ہونا چاہے یا جائے اماں ڈھونڈرہاہو۔ پھر عجیب بات ہوئی ساری کی ساری تصویریں مجسم ہوگئیں۔ میرے چاروں اطراف بچے، نوجوان،لڑکے، بوڑھے،عورتیں ،لڑکیاں آکھڑی ہوئیں وہ چیخ رہی تھیں چلارہی تھیں ۔ان کی آنکھوںمیں بلا کا درد،کرب ہی کرب تھا۔ معصوم سی بچیاں اورپیارے سے ننھے فرشتے جنہیں دیکھ کر بے اختیار پیارآجائے، ہاتھ جوڑ کر اپیل کرنے لگے ،ہمیں ظالموںسے بچالو۔ بے رحم قاتلوںسے بچا لو۔ ایک باوقار خاتون بولی سوچ کیا رہے ہو۔ دوسری بولی ہماری جان پر بنی ہوئی ہے۔ یہ سورہے ہیں ایک پیاری سی بچی نے میرادامن تھام لیا ۔ایک فرشتے کی صورت والے بچے نے میرے کندھے کو جھنجوڑکر کہاہم ایک ہی نبی ﷺ کے امتی ہیں۔ ان میں کوئی تمہارا کلمہ گو بھائی ہے ۔کوئی بہن کوئی بیٹے جیسا۔کیا ہماری مدد نہ کرو گے۔اسی دوران ایک عورت چیختی ہوئی بولی ہماری مددنہ کی تو قیامت کے روز اپنے نبی ﷺ کا سامنا کیسے کرو گے۔یہ باتیں ،آہ وبکا سن کر میرا جسم لرزنے لگا، پورا وجود پسینے میں شرابورہوگیا ۔پھر ماحول میں بارودکی بو پھیلتی چلی گئی ، درودیوار خون کے چھینٹوںسے لت پت ہوگئے۔چیخیں ،ہائے، بھگڈر،مرگئے ،شور۔ہمیں ظالموںسے بچالو۔ بے رحم قاتلوںسے بچا لو ،کی کربناک آوازیںسن کرجیسے آنکھ کھل گئی ہو ۔ڈرتے ڈرتے اپنے آس پاس دیکھا تو لاشوںکے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔کئی زخمیوںکے لبوںپر کلمے کا وردجاری تھا اپنی بے بسی ۔ امت مسلمہ کی بے کسی اور مسلم حکمرانوں کی بے حسی پر میں پھوٹ پھوٹ کررونے لگاہوں۔شاید یہ رونا مسلمانوںکا مقدر بن گیا ہے ۔دل سے ایک ہوک اٹھی ۔خداکرے مسلمان خواب ِ غفلت سے جاگ جائیں توشاید پھر کسی کے شعور،لاشعورمیں تصویریں نہ در آئیں ۔ایسی تصویریں جنہیں دیکھ کروحشت ہوتی ہے۔ رونا آتا ہے۔ قرار لٹ جاتاہے ،میرے جیسے کسی شخص کو یہ کہنے کا یارا نہ رہے کہ مجھے یہ تصویریں سونے نہیں دیتیں۔لیکن میں سوچ سوچ کر تھک گیاہوں میرے پاس کسی دکھ کا مداوا نہیں۔ جی چاہتاہے اپنا گریبان چاک کرکے دور کہیں دور چلا جائوں۔جہاں میرے خوابوںمیرے خیالوں میں بھی یہ تصویریں نہ آسکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔