اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی جاری ، شرح سود 7 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ
شیئر کریں
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے مانیٹری پالیسی جاری کردی گئی ، شرح سود 7 فیصد پر برقرار رکھنے کا اعلان کردیا ، 17 سال بعد 10 ماہ میں جاری کھاتے سر پلس رہے ، زرمبادلہ ذخائر 4 سال کی بلندترین سطح پرپہنچ گئے، رمضان میں کھانے پینے کی اشیا مہنگی ہوئیں ، نئے مالی سال میں مہنگائی کم ہوگی۔ تفصیلات کے مطابق اسٹیٹ بینک کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ملکی معیشت مضبوط بنیادوں پر استوار ہورہی ہے، جنوری سے توانائی اور کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، تاہم مہنگائی کی شرح 9 فیصد تک برقرار رہنے کا امکان ہے، جب کہ وسط مدت میں مہنگائی کی شرح 5 سے 7 فیصد تک برقرار رہنے کی توقع ہے۔اسٹیٹ بینک کے مطابق کورونا کی تیسری لہر کی وجہ سے غیر یقینی صورتحال رہی لیکن اس کے باوجود ملکی معیشت مضبوط بنیادوں پر بہتر ہو رہی ہے ، جہاں صنعتی شعبے کی ترقی میں 3 اعشاریہ 6 فیصد اضافہ ہوا ، تعمیرات، سیمنٹ، ٹیکسٹائل اور آٹو سیکٹر سے صنعتی شعبے میں ترقی ہوئی ، 17 سال بعد 10 ماہ میں جاری کھاتے سر پلس رہے ، زرمبادلہ ذخائر 4 سال کی بلندترین سطح پرپہنچ گئے، اسٹیٹ بینک کے زر مبادلہ ذخائر 16 ارب ڈالر ہیں ، پرائیویٹ سیکٹر کے قرضوں میں 43 فیصد اضافہ ہوا۔بتایا گیا ہے کہ جنوری سے توانائی اور کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ، رواں سال اپریل میں مہنگائی کی شرح 11 اعشاریہ 1 فیصد ریکارڈ کی گئی ، توانائی اور کھانے پینے کی اشیا مہنگی ہونے کی وجہ طلب میں اضافہ ہے۔ دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے جولائی سے ملک میں مہنگائی میں کمی نوید سنادی، انہوں نے کہا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں فوڈ آئٹمز کی قیمتوں میں کمی کا اثر پاکستان میں بھی آئے گا اور جولائی سے مہنگائی میں کمی آنا شروع ہوجائے گی ، ایک ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے کہا ہے کہ گندم، دالیں درآمد کرنے کی وجہ سے اشیا کی قیمتیں زیادہ ہیں ، اس کے علاوہ مہنگائی کی ایک وجہ کسان اور ہول سیل مارکیٹ میں قیمتوں کا فرق بھی ہے ، کورونا کی صورتحال نے ٹیکس وصولیوں کو متاثر کیا ہے، لیکن پھر بھی حکومت آئندہ بجٹ نئے ٹیکسز لگانے کا ارادہ نہیں رکھتی بلکہ حکومت ٹیکنالوجی کے استعمال سے ٹیکس بیس بڑھائے گی ، اس سلسلے میں آئی ایم ایف سے ہماری گفتگو جاری ہے، اسٹیٹ بینک اور آئی ایم ایف سے کہا ہے کہ ہم آپ کا ہدف پورا کریں گے لیکن ٹیکس پر ٹیکس نہیں لگائیں گے، اس وقت وہ چیز کریں گے جو ہمارے مفاد میں ہے، میری کوشش ہے کہ کوئی بھی زیادہ ٹیکس نہ دے۔