کمزور طرز حکمرانی اور حکومت کی اندرونی کشمکش
شیئر کریں
بلوچستان میں طرز حکمرانی کے اندر کمزریوں و خرابیوں کے ساتھ مسائل حکمران جماعتوں کے اندر کی کشمکش اور چپقلش بھی ہیں۔ خصوصاً انحصاری جماعتیں یا کنگز جماعتوں کے اندر یہ برائیاں دیکھی جاتی ہیں۔ اس کھینچا تانی کے اثرات گورننس پر پڑ تے ہیں، عوام حکومتوں کے بارے مضطرب رہتے ہیں۔ ترقی اور بہبود کا عمل کمزور پڑ جاتا ہے، ان طبقوں کے درمیان کی کشمکش ذات، خاندانوں اور گروہی اغراض کے لیے ہوتی ہے، جبکہ جواز اور دلیل صوبے و عوام کے مفاد کا پیش کیا جاتا ہے حالانکہ مفاد و مقاصد ان کے اپنے ہی ہوتے ہیں۔ یعنی سیاسی مکر و فریب کو عوام کی بہبود و ترقی اور خوشحالی کہہ کر جھوٹا ابلاغ کیا جاتا ہے۔یہ سب کچھ جام کمال خان کی حکومت میں بھی ہورہا ہے، کبھی ایک سر اٹھاتا ہے تو کبھی کوئی صوبے کی خیر خواہی کا علم بلند کرلیتا ہے، کچھ کو پچھلی حکومت (ن لیگ، پشتونخوا میپ اور نیشنل پارٹی) کے بعد اقتدار کے ذائقہ نے دیوانہ بنا رکھا ہے۔ صبح شام پھر سے اقتدار کی خواہش ان کے اندر انگڑائیاں لیتی رہتی ہیں، آناً فاناً تشکیل دی جانیوالی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) بھان متی کا کنبہ ہے، جس میں کہیں کی اینٹ تو کہیں کا روڑہ اکٹھا کیا گیا ہے۔وابستگان سب کے سب جمہوریت اور جمہور کی حکمرانی کے گن گاتے رہتے ہیں، حال ہی میں سردار صالح بھوتانی اور جام کمال کے درمیان نزع کی یہ صورت بنی کہ سردار بھوتانی نے کابینہ سے علیحدگی اختیار کرلی۔ جام کمال نے پیش ازیں ان سے وزارت کا قلمدان لے کر اپنے پاس رکھا تھا، یقیناً اس کے بعد سردار بھوتانی کے لیے مزید کابینہ سے جڑے رہنا آبرو مندانہ نہ رہا ہے۔
سردار بھوتانی بھلے مانس انسان ہیں، ان کا اور جام کا ضلع ایک ہی ہے۔ سردار بھوتانی متعدد بار بلوچستان اسمبلی کے رکن اور صوبائی وزیر رہے ہیں، نگراں وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔چنانچہ سردار بھوتانی نے اندرون خانہ دوسرے ارکان سے میل ملاپ کا آغاز بھی کردیا ہے، سردست تحریک انصاف کے بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند سے بلمشافہ ملاقات کی۔ سردار یار محمد رند ویسے بھی موقع کی تاک میں ہیں، باپ پارٹی کے اندر ایک دو ارکان اسمبلی جام مخالف ریشہ دوانیاں کرتے ہیں بلکہ اول روز سے یہ طرز عمل اپنا رکھا ہے، جن میں اسپیکر عبدالقدوس بزنجو سرفہرست ہیں۔دیکھا جائے تو عبدالقدوس بزنجو کو اسپیکر کے بڑے منصب پر بٹھانا اچھائی و احسان والا معاملہ ہے، وگرنہ اس اسمبلی میں سینئر سیاستدان جان محمد جمالی موجود ہیں جو وزیراعلیٰ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے عہدوں پر فائز رہے ہیں جبکہ بلوچستان کے بہت ہی مستعد اور لائق اسپیکر بھی تھے، جنہیں ثناء اللہ زہری نے انتقام کا نشانہ بناکر عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ گویا جان جمالی کے ہوتے ہوئے عبدالقدوس بزنجو کو اسپیکر کے منصب پر بٹھانا ان سے نیکی ہی کہی جاسکتی ہے، وگرنہ اس عہدے کے لیے وہ قطعی موزوں نہیں تھے۔ عبدالقدوس بزنجو سے ان کی 6 ماہ کی وزارت اعلیٰ میں تعصبات کا اظہار بھی ہوا ہے، ان کے سنگ سینیٹر سرفراز بگٹی اور خالد لانگو بھی تھے۔ گویا بحیثیت اسپیکر اپنی ہی جماعت کی حکومت پر تیشہ چلارہے ہیں۔وزیراعلیٰ جام کمال نے حال ہی میں انہیں باضابطہ خط لکھ کر توجہ دلائی اور ہدایت کی ہے کہ حکومتی ارکان پر حزب اختلاف کے اراکین کو فوقیت نہ دیں۔ سردار صالح بھوتانی سے قلمدان لینے کا جواز جام کمال یہ پیش کرچکے ہیں کہ ان کی کارکردگی اچھی نہ تھی۔
سردار بھوتانی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا محکمہ (بلدیاتی ) کارکردگی نہ دکھا سکا۔ البتہ کہتے ہیں کہ فنڈز بند کرکے محکمے کو مفلوج کیا گیا۔ اس کا جواب جام کمال کو دینا چاہئے اگر واقعی فنڈز نہ تھے تو کیسے محکمہ چلایا جاسکتا ہے؟۔سردار بھوتانی آرام سے شاید نہ بیٹھیں، لابنگ کرتے رہیں گے۔ بہرحال جام کمال درست کہتے ہیں کہ بلدیات کے حوالے سے کام نہیں ہوا ہے۔ شہر گوناگوں مسائل میں گھر چکا ہے، صفائی اور کچرا و گندگی اٹھانے کا کوئی انتظام نہیں ہے، صفائی مہم کے تحت کی جاتی ہے یہاں تک کہ جناح روڈ سمیت وسطی شہر بھی بربادی، گندگی، غلاظت کا نمونہ ہے، تجاوزات کی وجہ سے شہر میں پیدل چلنا محال ہوگیا ہے۔ میٹرو پولیٹن کارپوریشن پورا کا پورا بدعنوانی کی لت میں مبتلا ہے، رہائشی علاقے تقریباً کمرشل میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ 3 تین، 4 چار فٹ کے چھجوں (شیڈز) کی وجہ سے شہر کی سڑکیں اور گلیاں چھتوں میں بند دکھائی دیتی ہیں۔ کارپوریشن حکام و دوسرے عاملین رشوت لے کر عمارتوں کے نقشوں کا اجراء اور ہر خلاف قانون تعمیرات و اقدام سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ ہر پلازے میں پانی کے بور لگائے جاتے ہیں، شہر میں پانی کی قلت نے گمبھیر رخ اختیار کر لیا ہے، یہی وجہ ہے کہ زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے گررہی ہے۔رہائشی علاقوں میں مسلسل نجی اسپتال اور تجارتی پلازوں کی تعمیر کے نتیجے میں ٹریفک کا شدید مسئلہ پیدا ہورہا ہے، پھر بجائے مستقل حل کے شاہراہیں بند کردی جاتی ہیں یعنی اگر میٹرو پولیٹن کارپوریشن یا محکمہ بلدیات کی برکت سے رہائشی علاقے کمرشل میں تبدیل نہ ہوتے، اسپتال تعمیر نہ ہوتے تو یقیناً شہر ٹریفک اور دوسرے مسائل کی آماجگاہ نہ بنتا۔ اگر اب بھی رہائشی علاقوں میں کمرشل مقاصد کے لیے تعمیرات پر قدغن لگادی جائے تو کافی حد تک بہتری آسکتی ہے۔المیہ یہ ہے کہ میکانگی روڈ کو عارف روڈ سے ملانے والی سڑک کے بیچ وہاں کے رہائشیوں نے گیٹ نصب کرکے بند کر دیا ہے، ایک حصہ دکانداروں نے تجاوزات میں تبدیل کردیا جبکہ دوسرا حصہ وہاں کے رہائئشی کار پارکنگ کے لیے استعمال کررہے ہیں، فنڈز صوبائی وزیر مبین خان نے جاری کیے، گویا سرکاری فنڈز سے غیر قانونی کام بھی اس لاوارث شہر میں ہورہے ہیں۔
راقم نے اس بابت چیف سیکریٹری بلوچستان کو 3 نومبر 2021ء کو درخواست دے رکھی ہے۔ چیف سیکریٹری دفتر نے کمشنر و ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کو ریمارکس کے ساتھ بھیج دی مگر وہ دن اور آج کا دن!۔ یعنی ایک ذمہ دار شہری کی درخواست کمشنر اور ڈپٹی کمشنر آفس کی ردی کی ٹوکری میں پھینک دی گئی۔اب آخری چارہ عدالت عالیہ بلوچستان ہی رہ گیا کہ وہ شاہراہوں کو آمد و رفت کے لیے کھلوادیں اور سرکاری فنڈز کے ذریعے غیر قانونی تعمیر کے لیے ایم پی اے مبین خان سے جواب طلب کرے، ان سے سرکار کا پیسہ واپس لے کر سرکاری خزانے میں جمع کروائے۔ میٹرو پولیٹن کارپوریشن کا ایڈمنسٹریٹر کہیں دکھائی نہیں دیتا، اب اگر جام کمال نے سردار صالح بھوتانی کو فارغ کردیا ہے، تو ضروری ہے کہ بلدیات کا محکمہ کسی دیانت دار اور مستعد وزیر کے حوالے کردیں، خلاء اس بناء بھی ہے کہ مقامی حکومتوں کے انتخابات نہیں ہورہے، اس کے قیام کی راہ میں سازشیں ہورہی ہیں، پچھلی مقامی حکومتوں کے پاس اختیارات اور فنڈز دونوں ہی نہیں تھے۔چنانچہ بلدیات ضمن میں نئے سرے سے تشکیل کی اشد ضرورت ہے، کوئٹہ کے 58 وارڈ ابتری و بدحالی کا منظر پیش کررہے ہیں، میٹرو پولیٹن کی افرادی قوت بڑھانے کی ضرورت ہے، معیاری اور پائیدار تعمیراتی کام پر توجہ در کار ہے۔ وزیراعلیٰ سریاب میں اسپورٹس کمپلیکس بنانے جارہے ہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ ناصرف یہ کمپلیکس بلکہ شہر کے اندر نالیوں، سڑکوں اور دیگر ترقیاتی کام لوکل ٹھیکیداروں کی بجائے بڑی تعمیراتی کمپنیوں کے ذریعے کرائے جائیں۔ شہر میں غیرقانونی ٹیوب ویل کیخلاف راست کارروائی کی جائے، اس پر عدالت عالیہ بلوچستان کا فیصلہ بھی موجود ہے۔ شفافیت کی بات خود وزیراعلیٰ بھی کرتے ہیں مگر سچ یہ ہے کہ غیر منتخب افراد کے ذریعے پی ایس ڈی پی خرچ ہورہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔