بات کا بتنگڑ
شیئر کریں
حکومتی دعوے کے مطابق معاشی گروتھ 3.9ہے یہ دعویٰ قومی و عالمی اِداروں کے اندازوں کے برعکس اورزائد ہے حکومتی دعوے کی غیر جانبدار زرائع تصدیق نہیں کرتے اسی بناپر فہمیدہ حلقے حکومتی دعوے کو بات کابتنگڑکہتے ہیں لیکن یہ اپنے جو وزیرِ خزانہ شوکت ترین ہیں یہ ابھی چند دن قبل ہی معیشت کی زبوں حالی کا رونا روتے ہوئے فرما رہے تھے کہ ہماری اولیں کوشش معیشت کو 2018والی سطح پر واپس لانا ہے اب اچانک جانے کیا سوجھی ہے کہ اگلے برس معاشی ترقی پانچ فیصد جبکہ اُس سے اگلے برس چھ فیصد ہونے کی پیش گوئی فرمانے لگے ہیں اگر اُن کا فرمایاحقیقت میں بھی درست ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے کہ مایوسی کے شکاروطنِ عزیز کے باسی مسائل کے گرادب سے نکل سکیں گے مگر امید دلا کرجب وزیرِ خزانہ کہتے ہیں کہ این ایف سی ایوارڈ کے اہداف پورے نہیں ہوئے اِس لیے کوشش ہے کہ صوبوں کے اتفاقِ رائے سے نظر ثانی کی جائے نیز ایف بی آر کے محصولات بڑھنے تک مشکلات موجودرہیں گی تو حکومتی دعوے پر یقین نہیں آتا تسلیم کہ حکمران جماعت اقتدار کی نصف مدت گزار چکی اور اب اُس نے کار کردگی نہ دکھائی تو مقبولیت کے غبارے سے ہوا نکل سکتی ہے لیکن غبارے کی ہوا بچانے کے لیے بات کا بتنگڑ بنانے کی کوئی تُک سمجھ میں نہیں آتی اگر حکومت کا خیال ہے کہ ہر شہری بصیرت اور بصارت سے محروم ہے اِس لیے جو بھی کہا جائے گا سبھی من وعن تسلیم کر لیں گے یہ خیال غلط ہے خواب دیکھنے اور خیالات کے گھوڑے دوڑانے پر تو پابندی عائد نہیں کی جا سکتی مگر جب حقیقت کے منافی باتیں ہوں گی یا بات کابتنگڑ بنا کر لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جائے گی تو قومی اور عالمی اِداروں کے ساتھ مسائل و آلام میں گھرے عوام بھی زمینی حقائق کے منافی دعوے کی تردید کرنے میں تاخیر نہیں کریں گے۔
ہم کافی خوش فہم ہیں اور کوئی نہ کوئی خوشی کا پہلو تلاش کر ہی لیتے ہیں جیسے آجکل اسرائیل و فلسطین کی جنگ بند ی کا کریڈٹ لیے رہے ہیں حالانکہ پاکستان عالمی سطح پر کمزورریاست ہے عوامی دبائو کم کرنے کے لیے شاہ محمود قریشی نے بھاگ دوڑ کی اسرائیل کا مقصد غزہ میں فلسطینیوں کو بے گھر کرنا اور مہاجرت اختیار کرنے پر مجبور کرناتھا اُس نے مقصد حاصل ہونے کے بعد جنگ بندی کی اب وہ یہودی بستیوں کو توسیع دینے کی بہتر پوزیشن میں ہے جبکہ فلسطینی گھروں کی تباہی کی صورت میں لگنے والی چوٹوں کو برسوں تک سہلاتے رہیں گے ہم اپنے گھر خوش ہیں لیکن بات کا بتنگڑ بنانے سے حالات تبدیل نہیں ہوتے اور اسی بات کا ہمیں ادراک نہیں۔
چوہدری نثار علی خان نے گزشتہ دورِ حکومت میں اپنی ہی حکومت اور قیادت کو ہدفِ تنقید بناکر شہرت حاصل کی اِس انداز کوکچھ لوگ مقتدر قوتوں کے احکامات کا شاخسانہ قرار دیتے رہے کئی کئی گھنٹوں پر محیط بے مقصد پریس کانفرنس ہوتیں جن کے اختتام پر صحافی یہ سوچتے رہتے کہ پوٹھوہار کے چوہدری نے کیا کہا ہے یا کیا کہنا چاہتے تھے مگر کسی کی سمجھ میں نہ آتا البتہ ہر پریس کانفرنس کے اختتام پر یہ خیال قوی تر ہوتا گیاکہ وہ نواز شریف کی ہمرکابی میں مزید سیاست کرنے سے گریزاںاورمتبادل بننے کے متمنی ہیں 2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کا ٹکٹ لینے کی بجائے بطور آزاد امیدوار میدان میں اُترے اور انتخابی نشان جیپ حاصل کیا اور پنجاب بھر میں جیپ کے انتخابی نشان پر امیدوار کھڑے کرنے شروع کیے تو یارانِ نکتہ داں کو یقین ہو گیا کہ مقتدر قوتیں نوازشریف کو ناکام بنانا چاہتی ہیں لیکن نتائج سامنے آئے تو چوہدری نثار سمیت جیپ کا نشان رکھنے والا ہر امیدوار عبرتناک انجام سے دوچار ہوا کراچی سے پی ایس پی کو بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا چوہدری نثار بمشکل صوبائی اسمبلی کی نشست جیت سکے یہ حیران کُن نتائج تردید کرتے محسوس ہوئے کہ مقتدر قوتوں کا آلہ کار ہونامحض دکھاوا یا بات کے بتنگڑ سے ذیادہ کچھ نہ تھا۔
ایک ممبر صوبائی اسمبلی کے حلف سے تبدیلی نہیں آسکتی ایک ممبر صوبائی اسمبلی اِس لیے لکھا ہے کہ شہباز شریف سے تعلق کی حد تک تو بات ٹھیک ہے لیکن عملی طور پر ن لیگ سے چوہدری نثار کا تعلق نہ ہونے کے برابر ہے آزاد الیکشن لڑنے سے سب کو معلوم ہو گیا ہے کہ اُن کی انتخابی فتوحات نوازشریف کی مرہونِ منت تھیں بدلے حالات میں مریم نوازاپنے والد کی جانشین بن چکی ہیں جس میں کسی کو ابہام نہیں جماعت کی سربراہی شہباز شریف کے پاس ہونے کے باوجود ویٹو پاور مریم کے پاس ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ رواں برس مارچ میں سینٹ الیکشن کے دوران جب پنجاب میں پی ٹی آئی ،مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق کے امیدواربلا مقابلہ کامیاب کرانے کی بات چلی تو مریم نواز نے یہ تجویز سختی سے رَد کر دی اور حکومتی جماعت کی کم ازکم ایک نشست چھیننے کی پلاننگ کی حالانکہ ملک میںموجود شریف خاندان کے افرادبھی تجویز کے حامی تھے اسی لیے اعظم نذیر تارڑ سمیت کئی لوگوں نے بھاگ دوڑبھی کی مگر بات نہ بنی آخر کارکراچی میں آصف زرداری اور لندن میں نواز شریف سے روابط ہوئے آخر کار مریم نواز کو والد کی طرف سے ہدایات ملیںتب ہی بلامقابلہ کامیابی کا اعلان ہوسکا یہ بھی عیاں حقیقت ہے کہ چوہدری نثار سے مریم نوازنا خوش ہے مسلم لیگ ن کے بغیر پنجاب میں تبدیلی کی توقع بھلا کیسے پوری ہو سکتی ہے اراکینِ اسمبلی شہباز شریف کی مصلحت کی سیاست پسند کرتے ہیں لیکن ووٹرنواز شریف کے بیانیے پر فداہے موجودہ حکومت کا دورِ اقتدار روزبروزاختتام کی طرف بڑھ رہا ہے تو اراکینِ اسمبلی کیونکر چوہدری نثار کی طرف مائل ہوکرووٹروں سے محروم ہونے کی خسارے کی تجارت کریں گے ؟ اِن حالات میں مجھے یہ کہنے دیجئے کہ پنجاب میں تبدلی کی بات محض افسانہ یا بات کے بتنگڑ کے سوا کچھ نہیں ۔
جہانگیر خان ترین متحرک ضرور ہے اور حکومتی جماعت پر دبائو بھی بڑھا رہا ہے لیکن تبدیلی کے لیے کندھا پیش کرنے کو تیا ر ہے نہ ہی انھیں اپوزیشن قبول کرنے پر آمادہ ہے اپوزیشن کی ساری توجہ عمران خان کی دیانتداری داغدار کرنے پر ہے جس کی ایک سے زائد وجوہات ہیں لیکن پنجاب میں تبدیلی نہ آنے کی بڑی وجہ مسلم لیگ ن کی موجودہ سیٹ اَپ برقرار رکھنے کی خواہش ہے جب چوہدری پرویز الٰہی جیسے زیرک سیاستدان کوساتھ ملانے کی تجویز قبولیت کا درجہ حاصل نہ کر سکی تو اب سخت ناقد چوہدری نثار پر کیونکر اعتماد کیا جا سکتا ہے تبدیلی کی خبروں سے حکومتی جماعت ششدروخوفزدہ ضرور ہے اور حلف برداری روکنے کے لیے کوشاں ہے حالانکہ اسپیکر وڈپٹی اسپیکر کی عدم موجودگی میں پینل آف چیئرمین حلف لینے کا مجاز ہے بارہ جون 2020کو فلیٹیز ہوٹل میں اسمبلی اجلاس کے دوران میاں شفیع نے وزیرِ قانون راجہ بشارت کی موجودگی میں پی ٹی آئی کی رکن ثانیہ کامران سے بطورپینل آف چیئرمین حلف لیا ایک حلف کو روکنا دراصل اندر کے خوف کے سوا کچھ نہیںسچ یہ ہے کہ عثمان بزدار کو اپوزیشن ہٹانا ہی نہیں چاہتی بلکہ اُن کی ناکامیاں اور پنجاب کی محرومیاں آمدہ الیکشن میںانتخابی ایشو بنانا چاہتی ہے اسی لیے جہانگیرترین گروپ کی خواہش و کاوشوں کے باوجودمسلم لیگ ن تبدیلی کی حوصلہ افزائی نہیں کر رہی البتہ یارانِ نکتہ داں کو افسانے تراشنے یا بات کا بتنگڑ بنانے سے تو روکانہیں جا سکتا تاریخ میںشیخ چلی کو تصوراتی قلعے بنانے میں شہرت حاصل ہے کسی اور کو بھی یہ مرض لاحق ہے تو علاج کے طور پر کیا کیا جا سکتا ہے؟ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔