میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مشرق وسطیٰ تنازع ‘ثالثی کیلئے کوئی تیار نہیں‘یو این اوراو آئی سی بے نقاب

مشرق وسطیٰ تنازع ‘ثالثی کیلئے کوئی تیار نہیں‘یو این اوراو آئی سی بے نقاب

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۰ مئی ۲۰۲۱

شیئر کریں

اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین خونریز لڑائی جاری ہے اور جنگ بندی کا کوئی فوری امکان بھی نظر نہیں آ رہا۔ بین الاقوامی رہنما ء فوری جنگ بندی کی اپیلیں کر رہے ہیں لیکن ثالث کا کردارادا کرنے کوکوئی تیار نہیں۔اسرائیل کی جانب سے غزہ میں دہشت گردی کے باوجود امریکہ کا کھل کر اسرائیل کا ساتھ دینا ثابت کرتا ہے کہ امریکہ دہشت گردی کی پشت پناہی کررہا ہے۔سنگین صورتحال کے باوجود اقوام متحدہ ایک غلام ادارے کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے جبکہ او آئی سی کی حیثیت ایک مردہ گھوڑے کی سی ہے جس کی کوئی اہمیت نہیں۔اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین سب سے پرانے ایشو ہیں جنہیں آج تک حل نہیں کیا گیا ۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انٹونیو گوٹیرش نے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر رکھا ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے بیان کوکوئی طاقت اہمیت دیتی ہے۔اقوام متحدہ کے سربراہ کے مطابق وہ اور ان کا ادارہ فوری جنگ بندی کے لیے فریقین کے ساتھ مسلسل رابطوں میں ہیں اور انہوں نے حکومت اسرائیل اور حماس تنظیم سے ثالثی کی کوششوں کو تیز اور کامیاب بنانے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن اقوام متحدہ کو سلامتی کونسل میں امریکی رکاوٹوں کی وجہ سے اسرائیل فلسطین تنازعے کے سفارتی حل میں اپنا مطلوبہ کردار ادا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔اس وقت سلامتی کونسل کی سربراہی چین کے ہاتھ میں ہے، جس نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکا کسی بھی قرار داد میں بڑی رکاوٹ ہے۔ امریکا ماضی میں ہر اس قرارداد کو ویٹو کرتا آیا ہے، جو اسرائیل کے خلاف تھی۔اسرائیل اور امریکا مشرق وسطیٰ میں قریبی اتحادی ہیں جبکہ اسرائیل کے فوجی سازو سامان میں امریکا کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین کوئی تنازعہ پیدا ہوا ہے، امریکا اسرائیل کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیاب رہا ہے۔اسرائیل اور امریکا کے مابین دوستانہ تعلقات کا عروج سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں دیکھنے میں آیا، جب تمام دنیا کے بڑے ممالک کی مخالفت کے باوجود ٹرمپ نے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا۔ یہ ایک ایسا فیصلہ تھا، جسے اسرائیل میں بھرپور پذیرائی حاصل ہوئی۔ ٹرمپ نے ایک امن منصوبہ پیش کیا، جو بری طرح ناکام ہوا۔ یہ منصوبہ زیادہ تر اسرائیل کے فائدے میں تھا اور اس میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو اسرائیل کا لازمی حصہ تسلیم کیا گیا تھا۔حالیہ تنازعے میں بائیڈن انتظامیہ فی الحال خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ اوباما یا پھر ٹرمپ انتظامیہ کے برعکس لگتا یوں ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کے لیے یہ مسئلہ سرفہرست یا ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں