غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ بمباری مزید59فلسطینی شہید
شیئر کریں
غزہ کی پٹی پر اسرائیلی طیاروں نے شدید بم باری کی ہے۔عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی طیاروں نے کم از کم 70 حملے کئے۔خبرایجنسی کا دعویٰ ہے کہ اسرائیلی میزائل انتہائی گنجان آباد ساحلی علاقے میں گرے۔گزشتہ ایک ہفتے کے دوران اسرائیل کی جانب سے سب سے زیادہ خون ریز بمباری اتوار کو دیکھنے میں آئی۔ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں 26 فلسطینی شہیدہو گئے۔ حماس کے ایک سینیئر رہنما کے گھر کو بھی مسمار کر دیا گیا۔واضح رہے کہ اسرائیلی حملوں میں شہید افراد کی تعداد209 ہو گئی جبکہ 1200 سے زائد زخمی ہیں۔ ان حملوں میں فلسطینیوں کے سیکڑوں مکانات اور دیگر املاک تباہ ہوچکے ہیں۔اسرائیلی فوج کے مطابق انہوں نے اتوار کی شب حماس کے ایک ٹاپ لیڈر یحییٰ السنوار کے گھر کو نشانہ بنایا ۔ حماس کے اس لیڈر کا گھر غزہ کے جنوبی علاقے خان یونس میں واقع ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس حملے میں بھی کم از کم دس عام شہری شہیدہو گئے ہیں، جن میں زیادہ تر بچے شامل ہیں۔حماس کے زیر کنٹرول غزہ میں حالیہ تنازعہ کے نتیجے میں شہدا کی تعداد 200سے زائد ہو گئی ہے۔ ان شہداء میں 47 بچے اور 23 خواتین شامل ہیں۔اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ انہوں نے حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ یحییٰ السنوار کے گھر پر بمباری اس لیے کی کیوں کہ یہ عمارت حماس کے ’’فوجی‘‘ انفراسٹرکچر کا حصہ تھی۔ اسرائیلی فوج کی جانب اس عمارت کی مسمار کیے جانے کی ویڈیو جاری کی گئی ہے تاہم ان کی جانب سے شہداء کی تعداد نہیں بتائی گئی۔ اطلاعات کے مطابق یحییٰ السنوار کے بھائی جو حماس کے اہم رکن ہیں، ان کے گھر پر بھی بمباری کی گئی تھی۔ اسرائیل کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہفتے کو انہوں نے حماس کے ایک اور رہنما کے گھر کو بھی نشانہ بنایا تھا۔اس دوران حماس کی جانب سے اسرائیل پر راکٹ داغے جانے کا سلسلہ جاری رہا۔ حماس نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اس کے اب تک بیس جنگجو شہید ہو چکے ہیں۔غزہ کی وزارت صحت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ غزہ شہر کے مرکز میں تین مختلف عمارتوں پر اسرائیلی بمباری کے باعث 26 افراد شہید ہو گئے ہیں جبکہ اس حملے میں پچاس افراد زخمی ہوئے ہیں۔ شہداء میں دس خواتین اور آٹھ بچے شامل ہیں۔ غزہ شہر پر اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے ان حملوں کو اس ہفتے کے سب سے زیادہ خون ریز حملے قرار دیا جا رہا ہے۔57 مسلم ممالک کی تنظیم او آئی اسی کی جانب سے اسرائیل اور فلسطین کے اس تنازعہ پر اتوار کو ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا۔ مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک کی جانب سے اس تنازعہ سے متعلق یہ پہلا اہم قدم ہے۔ عرب لیگ اور او آئی جیسی تنظیموں کا ماننا ہے کہ فلسطین کو ایک علیحدہ ریاست بنانے کا حق ہے لیکن حالیہ کچھ عرصے میں اسرائیل کی جانب سے کئی اہم مسلم ممالک کے ساتھ روابط گہرے ہوئے ہیں اور متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے اسرائیل کے وجود کو باقائدہ تسلیم بھی کیا گیا ہے۔سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین فلسطینیوں کی ایک علیحدہ ریاست کے مطالبے کی حمایت تو کرتے ہیں لیکن ان ممالک میں اسرائیل اور فلسطین کے اس حالیہ تنازعہ کو سرکاری میڈیا اس تفصیل کے ساتھ نشر نہیں کر رہا جیسے کہ دیگر مسلم ممالک میں کیا جا رہا ہے۔اس اجلاس کے دوارن فلسطین کے وزیر خارجہ ریاض المالکی کی جانب سے اسرائیلی بمباری کوبزدلانہ حملے قرار دیا گیا۔ ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے کہاکہ اسرائیل تنہا مغربی یروشلم، غزہ اور مغربی پٹی میں کشیدگی کا ذمہ دار ہے۔