بجٹ سے پہلے این آر او
شیئر کریں
عمران خان کسی کو این آر او نہ دینے کے لیے پُرعزم ہیں اوراپوزیشن قیادت سے رواسلوک سے عزم کی بخوبی عکاسی بھی ہوتی ہے لیکن آیا کیا وہ اپنی جماعت کے لیے بھی ایسے ہی خیالات رکھتے ہیں پر یقین کرنا مشکل ہے کیونکہ جہانگیرترین گروپ سے تعلق رکھنے والے اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی کے بظاہرمطالبات مسترد کرنے کے باوجود عزم میں تبدیلی کا اشارہ ملتا ہے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر رضوان کی تبدیلی عزم پر نظرثانی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ حکومت اپنے لوگوں کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے اور مقدمات وتفتیش کا سامنا کرنے والوںکو رعایت دینے میں عارمحسوس نہیں کرتی مگر ایسے کسی فیصلے کو این آراو قرارنہیںدیتی حالانکہ بجٹ سے پہلے اپنوں کو رعایت دینے کے آثار واضح ہیں شاید اِس کی وجہ یہ ہو کہ سالانہ میزانیہ پیش کرنے میں محض چندہفتے رہ گئے ہیں اور بجٹ کی منظوری تک حکومت اپنوں اور اتحادیوں کومطمئن رکھنا چاہتی ہے مگر مطالبات منوانے والے بھی اِتنے کوڑھ مغز نہیں کہ حکومتی مجبوریوں سے لاعلم ہوں اسی لیے دبائو بڑھایاجا رہا ہے اب زین قریشی لاکھ کہیں کہ پی ٹی آئی کا کوئی بندہ انصاف کے عمل سے باہر نہیں پر یقین کرنا محال ہے البتہ ایسے بیانات سے حکمراں جماعت میں گروپ بندی کی تصدیق ہوتی ہے۔
بجٹ سے قبل شوگر مافیا کے خلاف بڑے طمطراق سے شروع ہونے والا کام ریورس ہوتا دکھائی دیتا ہے ظاہر ہے حکومت کو بھی بخوبی ادراک ہوگا کہ اگر ترین گروپ کے ہم خیال بجٹ اجلاس سے غیر حاضر ہوتے ہیں توبجٹ کی منظوری مشکل ہو جائے گی جس سے اقتدار میں رہنے کا آئینی ،قانونی یا اخلاقی طور پر کوئی جواز نہیں رہے گا کیونکہ ترین گروپ کی غیر حاضری کے بعد اتحادیوں کی حمایت کے باوجود حکومت اکثریت ظاہر کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے گی اسی بنا پر بجٹ سے پہلے غیر اعلانیہ این آر او کے آثارہویدا ہیں مگر دیگر شعبوں کی طرح یہ قدم احتسابی عمل سے عمران خان کا نیا یوٹرن ہوگا ۔
واقفانِ راز تو یہاں تک کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم نے قریبی رفقا کو قبل از وقت انتخابی عمل میں جانے کی صورت میں بیانیہ پر کام کرنے کی ہدیت کردی ہے تاکہ اگر معینہ مدت سے قبل الیکشن میں جانا پڑے تو اختیار کی جانے والی موثر حکمتِ عملی سے انتخابی جیت یقینی بنائی جا سکے لیکن سیاسی نبض شناس اِس خیال کی تائید نہیں کرتے بلکہ یہ رویہ وزیرِ اعظم کی ترین گروپ کو زیرکرنے کی چال قرار دیتے ہیں کیونکہ ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی کی موجودگی میں موجودہ حکومتی جماعت کی دوبارہ کامیابی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے اِ ن حالات میں دوبارہ عوام سے رجوع کرنا حماقت ہی ہوگی البتہ بیانیے کی تیاری کاعندیہ دینے کا ایک مثبت پہلو ممکن ہے کہ پریشر گروپ کو لمبے چوڑے مطالبات اور فرمائشوں کی طویل فہرستوں سے باز رہنے پر قائل کرنا آسان ہو سکتا ہے لیکن اپوزیشن قیادت کی خاموشی کے باوجود ترین گروپ کامتحرک ہوناحکومت کے لیے ایک غیرمعمولی خطرہ ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ترین سے ناانصافی ہو رہی ہے معاملے کا جائزہ لینے کے لیے سینٹر علی ظفر کا تقرر ظاہر کرتا ہے کہ عمران خان کو ترین گروپ نظر انداز کرنے کے مضمرات کا ادراک ہے دیکھیں دونوں طرف کے گھاگ کھلاڑی کیسے حالات کواپنے لیے سازگار بناتے ہیں سیاسی چالیںجاری ہیں ظاہر ہے اوراعصاب شکن ماحول میں بروقت ٖفیصلے کرنے والا اعصابی طورپرمضبوط ہی کامیابی کے ثمرات سمیٹے گا۔
ڈاکٹر رضوان کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی سے ہٹا کر ایک طرف تو حکومت نے ترین گروپ کو راضی کرنے کی کوشش کی ہے مگر یہ تبدیلی وفاقی وزیر خسروبختیار کے لیے کسی این آر او سے کم نہیں کیونکہ اُنھیں ٹو سٹار شوگر ملز کے تیرہ کروڑ کے شیئرز رکھنے کی بنا پرجے آئی ٹی طلب کرنا چاہتی تھی نئی تبدیلی سے ترین گروپ کو ہلکا ہاتھ رکھنے کا احسا س دلا کر خسروبختیار کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے چلیں اِسے اگر این آر او قرار نہیں دیتے پھر بھی انصاف کا دوہرا معیارتو کہہ سکتے ہیں اِن حالات میں دیانتداری اورشفاف احتساب کا دعویٰ کیسے حقیقی تسلیم کیا جا سکتا ہے شوگر ملز مالکان کے خلاف اب تک مجموعی طور پر بارہ مقدمات درج ہو چکے ہیں جن میں سے تین جہانگیر ترین اور ایک شہبازرشریف خاندان کے خلاف ہے جہانگیرترین کی گرفتاری اور خسروبختیار کو طلب کرنے کی اجازت ہی ڈاکٹر رضوان کی عہدے سے سبکدوشی کا باعث بنی ہے اور سربراہی سے ہٹاکر ایک رکن کے طورپر کام کرنے سے ڈاکٹر رضوان کے اختیارات محدود کردیے گئے ہیں ممکن ہے ایک ناراض سابق ساتھی اور ایک موجودہ قریبی رفیق کو این آر او دیکر حکومت وقتی طور پر لاحق خطرات پر قابو پالے مگر ساتھیوں کو این آر او دینے کے بعد دیانتداری کے گائے جانے والے راگ کوکون پسند کرے گا؟
ترین گروپ کے حمایتی ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی کے جوڈیشل کمیشن بنانے ، مشیرِ داخلہ و احتساب شہزاد اکبر اور پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی تبدیلی جیسے مطالبات مستر کرتے ہوئے عمران خان نے ہر صورت انصاف کا یقین دلاتے ہوئے کہا ہے کہ جو بھی ملوث نکلا اُسے قانونی کاروائی کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ کہ وہ وزارتِ عظمیٰ کے لیے حق کا ساتھ نہیں چھوڑسکتے لیکن بادی النظر میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا بلکہ حالات وواقعات کسی اورہی سمت اشارہ کرتے ہیں خسرو بختیار کو کاروائی سے بچانے اور ترین گروپ کو بلواسطہ ریلیف دینے کے فیصلے سے حکومت نرمی ظاہر کر چکی اور یہ نرمی کی وجہ بجٹ ہی ہوسکتا ہے کیونکہ کمزور حکومت ترین کے بعد خسروبختیار گروپ کی ناراضگی کی متحمل نہیں ہو سکتی شائبہ نہیں کہ ترین گروپ کی طرح جنوبی پنجاب کے کئی اراکین پر خسروبختیار کا اثرہے اسی لیے ترین کے بعد ایک اور گروپ کی ناراضگی سے بچنے کے لیے ساتھیوں کی سہولت کے فیصلے کیے گئے ہیںسوال یہ ہے کہ کیا یہ فیصلے این آر اونہیں؟ اگر این آر او ہیں توکیا احتساب کے دائر ے میں صرف ا پوزیشن قیادت ہی آتی ہے ؟ ایف آئی اے کے سابق ڈی جی بشیر میمن کے الزامات خواہ کتنے ہی بے بنیاد ہوں یہ واضح ہو گیا ہے کہ اپوزیشن قیادت کے خلاف تحقیقات کے لیے وزیرِ اعظم خود ہدایات دیتے رہے ہیں خواجہ آصف کے اقامہ کی بابت ہدایت کا وہ خود اقرار کر چکے کیا اِن حالات میںغیر جانبدار اورصاف شفاف احتساب کی بات پریقین کرنا ممکن نہیں رہا بلکہ ساتھیوں اور مخالفین کے لیے انصاف کا الگ الگ معیارظاہر ہوتا ہے۔
بجٹ سے پہلے غیر اعلانیہ این آر او سے ایک طرف حکومتی جماعت اندرونی انتشار پر قابو پانے کی کوشش کی جارہی ہے مگر بقول واقفان درپردہ متبادل انتظامات پر بھی کام جاری ہے اور حکومتی بہی خواہ قومی اسمبلی میں ایسے اراکین کے متلاشی ہیں جوبجٹ کے دوران بیل آئوٹ دے سکیں اپنوں کی ناراضگی اور حریفوں پر نوازشات سے حکمران جماعت کا انتشار بڑھ سکتا ہے اب تو یہ خیال تقویت پکڑنے لگا ہے کہ تحریکِ انصاف سیاسی مفادات کے لیے انصاف کی راہ سے ہٹ رہی ہے بجٹ سے پہلے دیا جانے والا این آر اومشکلات میںکتنا کارگر ہوگا جاننے کے لیے طویل انتظار کی ضرورت نہیں اگلے چند ہفتوں میںسب واضح ہو جائے گا مگر محدودسیاسی مفادات کے لیے اپنوں کو این آراودینا انصاف پسندی نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔