موت کی لہر
شیئر کریں
کورونا وائرس کی تیسری لہر میں کووڈ 19 بیماری کا پھیلاؤ بڑی تیزی سے جاری ہے، لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہماری عوام اِس وبائی صورت حال سے نمٹنے کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے ، مسلسل مجرمانہ لاپرواہی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ خاص طور پر ہمارا تاجر طبقہ رمضان المبارک اور عید کے سیزن میں زیادہ سے زیادہ پیسے اور منافع کمانے کے چکر میں کورونا سے متعلق اُٹھائے گئے حکومتی اقدامات اور فیصلوں کی اعلانیہ دھجیاں اُڑا نے میں مصروف ہے۔ جبکہ اگر حکومتی اہلکار کسی جگہ ایس او پی پر عمل درآمد کروانے کے لیے سختی سے کام لے رہے ہیں تواُن کی خاص انداز میں ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کرکے اُس میں سے اپنی مرضی کے مطالب اخذ کیے جارہے ہیں اوریہ منفی تاثر پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جیسے حکومت کورونا وائرس کی آڑ میں جان بوجھ کر تاجر طبقہ کا استحصال کررہی ہے۔ جب حقیقت احوال تو یہ ہے کہ کورونا وائرس کی تیسری انتہائی بُرے طریقے سے دنیا بھر پر حملہ آور ہے اور میڈیا میں باوثوق ذرائع سے تصدیق کی گئی ہے کہ گزشتہ دنوں شہر قائد کراچی کے ضلع وسطی میں کورونا وائرس کی سب سے خطرناک قسم سامنے آئی ہے اور اس کے 2 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، وائرس کی تصدیق ضلع وسطی کے علاقے نارتھ کراچی کے رہائشی ذیشان شیخ میں ہوئی ہے۔ذرائع محکمہ صحت کے مطابق ذیشان شیخ نامی شہری میں کورونا وائرس کی سب سے خطرناک قسم پائی گئی ہے، مذکورہ وائرس سب سے تیزی سے پھیلنے والا ورژن ہے اور یہ وائرس برطانیا اور انڈیا سے مماثلت رکھتا ہے۔ڈی سی سینٹرل راجا دھاریجو کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی تصدیق کے بعد مذکورہ شخص کو گھر میں 2 ہفتوں کے لیے قرنطینہ کردیا گیا ہے جب کہ اطراف کے علاقوں میں مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا ہے۔کراچی میں کورونا وائرس کی خطرناک اقسام کی موجودگی صرف صوبہ سندھ کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے لیے ایک الارمنگ صورت حال ہے۔
شاید یہ ہی وجہ ہے کہ حکومت نے زیادہ کورونا پھیلاؤ والے شہروں میں لاک ڈاؤن کی تجویز پر غور شروع کردیا ہے۔وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات اسد عمر اور قومی کوآرڈینیٹر این سی او سی لیفٹینٹ جنرل حمود الزمان کی زیرصدارت این سی او سی کا خصوصی اجلاس ہوا جس میں کورونا کے پھیلاؤ کے اضافے کی شرح کو مد نظر رکھتے ہوئے فورم نے زیادہ پھیلاؤ والے شہروں میں لاک ڈاؤن کی تجویز پر غور کیا ہے۔اجلاس میں کہا گیا کہ کورونا وبا میں اضافہ کچھ شہروں میں موجود اسپتالوں میں سہولیات کی کمی کا باعث بن رہا ہے، لاک ڈاؤن کے بارے میں حتمی فیصلہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے مابین مشاورت کے بعد لیا جائے گا جب کہ لاک ڈاؤن کے دوران تجویز کردہ پابندیوں میں بازاروں اور مالز، (سوائے ضروری خدمات) کی بندش، انٹرسٹی پبلک ٹرانسپورٹ پر پابندی اور تعلیمی اداروں کی مکمل بندش شامل ہیں۔این سی او سی نے کیمبرج امتحانات کے انعقاد کے طریقہ کار پر بھی نظر ثانی کی، یہ امتحانات وزارت تعلیم کے فیصلے کے مطابق منعقد کیے جا رہے ہیں۔
نیز این سی او سی نے فیصلہ کیا ہے کہ ایک امتحانی مرکز میں پچاس سے زیادہ امیدوار نہ بٹھائے جائیں۔ این سی او سی نے وزارت تعلیم سے درخواست کی کہ کیمرج امتحانات منعقد کرواتے ہوئے تمام تر حفاظتی تدابیر کے عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔اجلاس میں 60 سال سے زیادہ عمر کے شہریوں کو ویکسی نیشن کیلیے واک ان سہولت کی فراہمی کا بھی فیصلہ کیا گیا جب کہ 40 سے 50 سال والے افراد کی رجسٹریشن کا فیصلہ بھی کرلیا گیا ہے۔یعنی اگر آپ 40 سال سے زائد عمر کے ہیں تو فوراً ہی خود رجسٹر کروائیں اور اپنے عزیزو اقارب کو رجسٹریشن کے لیے خصوصی ترغیب دیں۔مصیبت یہ ہے کہ ملک کے طول و عرض میں ویکسینیشن کے لیے خود رجسٹرڈ کروانے والے افراد کی رفتار بہت سست ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ حکومت کے پاس ویکسین بھی دستیاب ہے اور وہ اُسے مفت میں عام عوام کو لگانا بھی چاہتی ہے لیکن عوام خود کو ویکسین کے لیے رجسٹرڈ کروانے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ خاص طور پر سوشل میڈیا پر ویکسین کے متعلق ایسی بے سروپا باتیں اور افواہیں پورے شد و مد کے ساتھ پھیلائی جارہی ہیں ،جس کی وجہ سے عام افراد ویکسین لگوانے سے متعلق شدید ابہام کا شکار ہورہے ہیں۔ حالانکہ حکومت اور طبی ادارے تصدیق کرچکے ہیں پاکستان میں دستیاب ویکسین انتہائی موثر اور محفوظ ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ حکومت نے این سی او سی کے حالیہ اجلاس میں طبی شعبہ کو سہولیات کے حوالے سے آکسیجن کی مستقل فراہمی کے لیے ہنگامی اقدمات کرنے کی منظور ی بھی ہے اور آکسیجن کی فراہمی کومسلسل نگرانی کے ذریعے یقینی بنایا جارہاہے، کورونا وبا کے پھیلاؤ کے سبب مستقل دباؤ کا شکار صنعتی شعبے کے امدادی پیکج مرتب کرنے کے لیے کامرس منسٹری کو اپنی تجاویز مرتب کرنے کے لیے کہا گیا ہے کہ کامرس منسٹری، انڈسٹری اور وزارت صحت کی مشترکہ ٹیم تشکیل دے کر ملک میں آکسیجن کی مستقل فراہمی یقینی بنائے رکھنے پر غور کیا گیاہے۔علاوہ ازیں عید کی چھٹیوں میں عوام کی نقل و حمل کو محدود تر رکھنے اورمحفوظ سیاحت کا نظام مرتب کرنے پر بھی غور کیا گیا۔مگر یاد رہے کہ حکومتی اقدامات صرف اُسی وقت ہی زیادہ سے زیادہ سود مند اور موثر ثابت ہوسکیں گے جب عوام بھی کورونا کی تیسری لہر میں حکومتی اہلکاروں سے تعاون فرمائیں گے۔ بصورت دیگر کورونا وائرس کے انسداد کے لیے ہر حکومتی کوشش مکمل طور ناکام و مراد رہے گی اور کورونا وائرس کی لہر خدا نخواستہ موت کی لہر میں بھی تبدیل ہوسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔