ٹی ایل پی کے ساتھ ہونیوالے معاہدے پرعملدرآمد ہوچکا، فواد چودھری
شیئر کریں
وفاقی وزیر برائے اطلاعات ونشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے حوالے سے پارلیمنٹ فیصلہ کرے گی ، کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر مکمل طور پر عملدرآمد ہو چکا ہے ۔ ان خیالات کااظہار فواد چوہدری نے ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔ فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ ہمارا معاہدہ پورا ہو گیا ہے، ہماری ساری گفتگو اسی موضوع پر تھی کہ پارلیمنٹ میں معاہدہ پیش ہونا چاہیے اور وہ معاہدہ پیش ہو گیا، فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے حوالہ سے پارلیمنٹ فیصلہ کرے گی۔ ٹی ایل پی اپنے اوپر لگنے والی پابندی کے خلاف اپیل کا حق رکھتی ہے۔حکومت آئین اور قانون کی حدود سے باہر نہیں جاسکتی، ٹی ایل پی کو یہ آئین اور قانون میں حق حاصل ہے کہ وہ خود پر لگنے والی پابندی کے خلاف اپیل کرسکتی ہے۔ یہ کہنا کہ فلاں کو فلاں پرچے سے نکلا دیں یا پابندی کے خلاف ہم خود ہی نظرثانی کردیں یہ ہم نہیں کرسکتے۔حکومت ، پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور پارلیمان کو ڈکٹیٹ کرنے کی پوزیشن میں تو نہیں ہے کہ انہوں نے کیا فیصلہ کرنا ہے یا کیا کرنا ہے،پارلیمان اپنے پراسیس کے مطابق آگے چلے گی، ہم نے معاہدے کے مطابق جو گفتگو ہوئی ہے وہ معاہدہ پارلیمنٹ میں پیش کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی پر پابندی تو نہیں لگاجاسکتی کہ وہ احتجاج نہ کریں، یہ کئی دہائیوں کا معاملہ ہے، جمہوری حکومتوں اور جمہوری سیٹ اپ میں آپ کوئی بھی رائے رکھ سکتے ہیںتاہم اس چیز کی اجازت نہیں ہوتی کہ آپ بندوقیں لے کر یا ڈنڈے لے کر چڑھ دوڑیں گے کہ اگر آپ میری رائے پر عملدرآمد نہیں کرتے تو ہم تو یہاں پر قتل وخون کردیں گے، ہم تو800،800پولیس افسروں کو زخمی کردیں گے ، شہید کردیں گے، ریاست کو ڈکٹیٹ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور یہی جمہوری سیٹ اپ کا فائدہ ہوتا ہے کہ آپ اپنی رائے رکھیں گے اور اکثریت آپ کی رائے کے ساتھ متفق ہوتی ہے تو آپ کی رائے پر عملدرآمد ہو جائے گا اور اگر اکثریت آپ کی بات نہیں مانتی تو پھر ظاہر ہے کہ آپ آگے چلیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے تمام نکات بڑی سراحت کے ساتھ عوام کے سامنے رکھے ہیںاور انہوں نے کہا ہے کہ اس وقت جو ناموس رسالتﷺ ہے وہ ہمارے دل کے بھی اتنی ہی قریب ہے جتنی کسی اور دل کے، ایسا تو نہیں کہ ہم کم مسلمان ہیں اور کوئی زیادہ مسلمان ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو ہماری پالیسی ہے کہ ہم بین الاقوامی رائے عامہ کو استعمال کرکے کامیاب ہو سکتے ہیں یا ہم اپنے اندر ہی گھیرائو جلائو کرکے استعمال ہونا چاہتے ہیں اور دشمن ملکوں کے ہاتھوں میں استعمال ہونا چاہتے ہیں ، ہم پہلی رائے کے حامی ہیں ، ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی رائے عامہ کو ہموار کرکے اور اپنے ساتھ ملا کر پھر ہم عالمی سطح پر ایسے قوانین لاسکتے ہیں جس میں ہم ناموس رسالتﷺ کی حفاظت کرسکیں۔ اگر ہم نے روزانہ اپنے ہی گھروں کو آگ لگانی ہے اور روزانہ اٹھا کر اپنی ہی بسیں، موٹر سائیکل جلانے ہیں اور اپنے ہی لوگوں پر فائرنگ کرنی ہے تو پھر کیا ہوسکتا ہے۔