افغان صورتحال اور پاکستان کی مشکلات
شیئر کریں
(مہمان کالم)
مجیب مشال
جن دنوں افغانستان میں امریکی جنگ اپنے عروج پر تھی پاکستان کے شہرہ ا?فاق خفیہ ادارے کے سابق سربراہ جنرل (ر) حمیدگل 2014ء میںایک ٹی وی ٹاک شو میں شریک ہوئے جس کا عنوان تھا ’’جوک نائٹ‘‘۔ انہوں نے اس پروگرام میں ایک بڑی دلیرانہ پیش گوئی کی۔جنرل (ر) حمید گل‘ جنہوں نے سرد جنگ کے آخری دور میں پاکستان کے بے خوف انٹیلی جنس ادارے کی قیادت کی تھی‘ نے اعلان کیا کہ جب کبھی تاریخ لکھی جائے گی تو یہ کہا جائے گا کہ آئی ایس آئی نے امریکا کی مدد سے سوویت یونین کو افغانستان میں شکست فاش سے دوچا رکیا تھا۔پھر جنرل(ر) حمید گل نے تھوڑ اتوقف کرتے ہوئے ایک پنچ لائن کہی۔انہوں نے تالیوں کی گونج میں کہا:پھر ایک اور جملہ بھی کہا جائے گا‘آئی ایس آئی نے امریکا کی مدد سے امریکا کو شکست فاش دے دی۔
جب صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے تمام امریکی فوجی اس سال وسط ستمبر تک واپس بلانے کے فیصلے کا اعلان کیا توجنرل (ر) حمید گل کی ایک عشرہ پرانی پیش گوئی بالآخر پوری ہوگئی۔ایک سپر پاور پاکستان کے اس پچھواڑے سے رخصت ہو رہی ہے جہاں پاکستان نے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے 2001ء سے پہلے طالبان کی مدد سے دوستانہ حکومت قائم کر لی تھی۔ طالبان کسی بھی صورت میں افغانستان میں بر سر اقتدار آتے ہیں تو گھڑی کی سوئیاں ایک با رپھر سے اسی وقت پر مرکوز نظر آئیں گی جب پاکستان افغانستان کے چوکیدار کا کردار ادا کیا کرتا تھااور اس کا مقصد ہمیشہ اپنے ازلی دشمن بھارت کا افغانستان میں اثرو رسوخ ختم کرنا ہوتا تھا۔
افغانستان میں دو عشروں سے جاری جنگ کے خاتمے کو اپنے ہمسائے میں پاکستان کی جیو پولیٹیکل فتح قرار دیا جا سکتا ہے‘ مگر اس اَمر کا بھی اندیشہ ہے کہ اس سے پاکستان داخلی طو رپر بحران میں پھنس سکتا ہے۔ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پاکستان معاشی گرداب میں پھنسا ہو ا ہے ‘اندرونی بے چینی کی لہر جاری ہے ‘ اپنی طرز کی انتہاپسندی کو روکنے کے لیے پاکستان ایک جنگ لڑ رہا ہے۔اگر افغانستان ایک بارپھر سے کسی بحران کا شکا رہوتا ہے تو پاکستان بھی ا س کے مضمرات سے محفوظ نہیںرہ سکتا۔بالکل ویسے ہی جیسے 1990ء کے عشرے کے آخر میں سوویت یونین افغانستان چھوڑ کر چلا گیا تو لاکھوں افغان مہاجرین ا پنی جانیں بچانے کے لیے پاکستان کے شہروں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔
اگر افغان طالبان ایک مرتبہ پھر مسند ِاقتدار پر قابض ہو جاتے ہیں ‘خانہ جنگی کے ذریعے یا امن مذاکرات کے ذریعے‘ تو یہ خدشہ موجود ہے کہ اس سے پاکستان کے اندر موجود شدت پسندوں کی بھی حوصلہ افزائی ہو گی کیونکہ افغانستان کی طرح پاکستان میں بھی ہزاروں مدارس میں اس ا?ئیڈیالوجی کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ان گروہوں نے پاکستان کی ریاست اور یہاں کی حکومت کو بھی چیلنج کرنے سے گریز نہیں کیا۔
پاکستان نے سرحد پار اپنی تمام تر تزویراتی پالیسی کے باوجود اس کے اثرات کو اپنے ہاں داخل نہیں ہونے دیا تھا مگر اپنے ہمسائے میں غیر ملکی افواج کی جارحیت کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے اندر بھی شدت پسندوں کو پنپنے کا موقع مل گیا۔یہاں اپنے افغان بھائیوں کی مدد کے لیے سر عام فنڈ ریزنگ کی جاتی ہے۔ان نئے شدت پسند گروپوں نے پاکستان کے اندر سول سوسائٹی کی زندگی کو اجیرن بنائے رکھا‘یہاں دانشوروں کو موت کی نیندسلایا گیا‘پروفیشنلز پر حملے کیے گئے اور ان کے ساتھ بدسلوکی روا رکھی گئی۔پاکستان کے سرکاری اداروں میں بھی ان کے بہی خواہ موجود تھے۔لندن کے سکول ا?ف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز کی ریسرچ ایسوسی ایٹ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ پاکستان نے اپنے ہاں پروان چڑھنے والے شدت پسندی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے طاقت اور نرمی کا ملا جلا استعمال کیا ہے‘ مگر ا س شدت پسندی کے پھیلائو کا سد باب کرنے کے بارے میں پاکستان کی پالیسی ابہام کا شکار رہی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یہی بات مجھے ڈراتی ہے ‘اسی با ت کاسوچ کرمجھے خوف محسوس ہوتا ہے۔ان کا ماننا ہے کہ اگر ایک مرتبہ پھر طالبان افغانستان میں اقتدار میں واپس ا?گئے تو پاکستان کی حکومت بلکہ کسی بھی حکومت کے لیے بڑی مشکلا ت پیدا ہوجائیں گی۔اس سے دیگرگروپوں کے بھی حوصلے بلند ہوںگے۔
اسلام آبا دمیں مقیم ایک دفاعی تجزیہ نگار اور ریٹائرڈ بریگیڈیئر سید نذیر کہتے ہیں کہ پاکستان نے ماضی میں جہادی گروپوں کی حمایت کے سنگین نتائج سے کئی سبق سیکھے ہیں۔افغان جنگ کے خاتمے کے موقع پر پاکستان کو انتہائی محتاط انداز میں قدم اٹھانے کی ضرور ت ہے۔ ان کامزید کہنا تھا کہ پاکستان خود ا س فتح کا دعویٰ نہیں کرے گا مگر بڑی مہارت سے افغان طالبان کہیں گے کہ یہ سب کامیابی پاکستان کی مرہون منت ہے۔ پاکستان ماضی کے واقعا ت کے کسی قسم کے ری پلے سے گھبراتا ہے اور اگر افغان مسئلے کا کوئی سیاسی حل نکالے بغیر امریکا نے یہاں سے جلدی میںنکلنے کی کوشش کی تو ا س کا نتیجہ خونریزی اور پرتشدد کارروائیوں کی صور ت میں نکلے گا۔ واشنگٹن میں قائم سنٹر فار ا سٹریٹجک اینڈ انٹر نیشنل سٹڈیز کے سیتھ جونز کا کہنا ہے کہ اگرچہ پاکستان کی حکومت جو بائیڈن کے انخلا کے اس اعلان پر خوشی کے شادیانے بجا رہی ہے مگر افغانستان میں حالات پربہتر کنٹرول حاصل کرنا ابھی تک محض دیوانے کاخواب ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر افغانستان میں شروع ہونے والی خانہ جنگی میں شدت آگئی تو پاکستان کے لیے افغانستان کے عسکریت پسند گروپوں اور طالبان کو کنٹرول کرنا ناممکن نہیں توانتہائی مشکل ضرور ہوگا۔القاعدہ ‘داعش او رکئی دیگر گروپ پہلے ہی افغانستان میں بر سر پیکار ہیں۔پاکستان کے پاس ایسا کوئی پلان نہیں ہے کہ بھان متی کے ا س کنبے کو سنبھال سکے جن کے مقاصد اور مفادات ایک دوسرے سے مختلف اور متصادم ہیں اور ان کی قیادت بھی مختلف لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔
پاکستان 14اگست1947ء کو جب معرض وجود میں ا?یا ہے اسی وقت سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہے۔تقسیم ہند کے وقت برطانوی حکام نے ایسی سرحدی لکیریں کھینچ دیں جن کی بدولت پاکستان گوناگوں قسم کے سرحدی اور جغرافیائی تنازعات میں الجھ کررہ گیا۔ان میں سب سے سنگین تنازع کشمیر کا ہے جبکہ افغانستان کے ساتھ ڈیورنڈ لائن بھی ایک تنازع رہی ہے۔افغانستان آج بھی ان علاقوں پر اپنا دعویٰ جتانے سے گریز نہیں کرتا جنہیں دنیا پاکستان کا حصہ مانتی ہے اور یہ پاکستان کے شمال مغربی سرحدی علاقے ہیںیہ سر دجنگ کے عروج کا زمانہ تھا جب 1970ء کے عشرے میں سوویت یونین نے اپنا اثرو رسوخ اپنی سرحدوں سے پار جنوبی اور وسطی ایشیا تک بڑھانے کا نہ صرف فیصلہ کیا بلکہ اس پر عمل درآمد بھی شرو ع کردیا تھا تو پاکستانی قیادت نے سوچا کہ مجاہدین کو یہاں سوویت یونین پر مسلط کردیا جائے۔وہ یہاں کے چپے چپے سے واقف تھے۔ امریکا نے ان مجاہدین کو نہ صرف فوجی تربیت دی ‘اسلحہ تھمایا بلکہ ہر طرح کی مالی امداد کی فراہمی کو بھی یقینی بنایاجنہوں نے افغانستان میں جارحیت کرنے والی سوویت ا?رمی کو شکست فاش سے دوچار کیا بلکہ قابض حکومت کا تختہ بھی الٹ دیا۔1990ء کی دہائی میں جب افغانستان ایک خونریز خانہ جنگی کا شکار تھا‘ اس دوران پاکستان نے ان افغان جنگجوئوں کی مدد کی جنہیں طالبان کہا جاتا ہے۔ خانہ جنگی میں مصروف تما م گروہوں کو متحد کیا اور وہاں ایک حکومت قائم کی جس کا افغانستان کے نوے فیصد سے بھی زائد علاقے پر کنٹرول تھا مگر جب 2001ء میں امریکا نے اپنی سرزمین پر دہشت گرد حملوں کے بعد اسامہ بن لادن اور القاعدہ کی سرکوبی کے لیے افغانستان پر حملہ کیا تو امریکا کی نظریں بھی پاکستان کے اتحادی اور افغانستان پر حکمرانی کرنے والے طالبان پر مرکوز تھیں؛ چنانچہ پاکستان کے لیے بے پناہ مشکلات پیدا ہو گئیں جن کا سامنا کرنا اتنا ا?سان نہ تھا۔ صدر جارج بش نے پاکستان کو الٹی میٹم دے دیا تھا ’’آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلا ف ہیں؟‘‘ پاکستان کے آمر پرویز مشرف نے امریکا کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں پاکستان کو طالبان کی طرف سے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنے نظریاتی بھائیوں کے خلاف امریکا کاساتھ دینے کی پاداش میں پاکستان کو پاکستانی طالبان کی طرف سے شدید حملوں کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ ان حملوں کا سدباب کرنے کے لیے پاکستان کو کئی سال تک فوجی آپریشنز کرنا پڑے جن میں ہزاروں پاکستانی فوجیوں اور شہریوں کو اپنی جان کی قربانی دینا پڑی۔ 2011ء میں پاکستانی علاقے میں اسامہ بن لادن کو قتل کرنے کا سنگین واقعہ پیش آیا تو یہ ایسے لمحات تھے جب دونوں ممالک کی کشیدگی کھل کر منظر عام پر آ گئی مگر اس عرصے میں پاکستان خود کو ایک ایٹمی ملک کے طور پر امریکا کے لیے ایک ناگزیر ضرورت کے طور پر پیش کرنے میں خاصی حد تک کامیاب ہو چکا تھا کیونکہ اس خطے میں چین، روس اور عسکریت پسندوں کے اپنے اپنے مفادات مضمر تھے اس لیے امریکا پاکستان کے حوالے سے چشم پوشی کا مظاہرہ کرتا رہا جبکہ کابل حکومت متواتر یہ شکایت کر رہی تھی کہ ا مریکا اور اس کے اتحادی پاکستان کے خلاف کوئی سخت ایکشن کیوں نہیں لیتے۔ حالیہ مہینوں میں جب امریکی حکام افغانستان کو چھوڑنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں تو امریکا کو ایک مرتبہ پھر پاکستان کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ وہ طالبان پر زور دے کہ وہ امن کے لیے مذاکرات کی میز پر آئیں اور جب امریکا کو القاعدہ یا داعش کے حامیوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنا مقصود ہو تو وہ اس کی مدد کریں۔ ایک طر ف امریکا کی طرف سے یہ کھلا اعلان ہو گیا ہے کہ وہ افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے تو دوسری جانب پاکستان اس بات کی مسلسل تردید کر رہا ہے کہ اس کی سرزمین پر طالبان کی پناہ گاہیں موجود ہیں یا طالبان قیادت وہاں مقیم ہے۔
قطر میں ہونے والے مذاکرات میں شرکت کے لیے طالبان لیڈرز پاکستانی شہروں سے ہی اڑ کر دوحا پہنچے تھے۔ جب امن مذاکرات ایک ناز ک موڑ پر جا پہنچے جہاں فیلڈ کمانڈروں کے ساتھ مزید مشاورت کی ضرورت تھی تو طالبان رہنمائوں کو دوبارہ پاکستان ہی آنا پڑا۔ جب گزشتہ فروری میں امریکا نے افغانستان سے انخلا کے لیے طالبان کے ساتھ حتمی معاہدے پر دستخط کیے تھے تو پاکستان میں ان کے حامی حلقوں میں خاصا جوش و خروش محسوس کیا گیا تھا۔ پاکستان کے سابق وزیردفاع خواجہ آصف نے‘ جو امریکی اتحادی کے طور پر کئی مرتبہ واشنگٹن کی یاترا کر چکے ہیں‘ اپنے ٹویٹ میں ایک تصویر شیئر کی تھی جس میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو قطر میں مذاکرات کے دوران طالبان کے ڈپٹی کمانڈر ملا عبد الغنی برادر کے ساتھ ملاقات کر رہے تھے۔ خواجہ آصف نے ٹویٹ کے آخر پر لکھا تھا کہ ’’تمہارے پاس طاقت ہو سکتی ہے مگر خدا ہمارے ساتھ ہے‘‘۔ ایسا عندیہ ملتا ہے کہ افغان طالبان کی ممکنہ کامیابی کے بعد پاکستان کے اندر شدت پسند گروپوں کے حوصلے بھی بلند ہوئے ہیں جس کی وجہ سے آنے والے دنوں میں پاکستان کے لیے بھی داخلی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ پاکستانی طالبان جنہیں پاکستان شکست دے چکا ہے‘ نے افغان سرحد سے منسلک قبائلی علاقوں میں اپنی سرگرمیاں ایک بار پھر تیز کر دی ہیں۔ سکیورٹی فورسز کے ساتھ ان کی جھڑپوں کی خبریں آئے روز میڈ یا کی زینت بن رہی ہیں۔ پاکستان کو شدت پسندی کا جس قدر سامنا ہے اس کامظاہرہ حالیہ دنوں میں اس کے دو بڑے شہروں‘ کراچی اور لاہور کی سڑکوں پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ ان مظاہروں کے دوران دو پولیس اہلکار اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ تین سو سے زائد سکیورٹی اہلکار شدید زخمی ہو کر ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ یہ سلسلہ جاری تھا کہ حکومت پاکستان نے ٹی ایل پی پر پابندی عائد کر دی۔ پاکستان ہومین رائٹس کمیشن کے سابق سربراہ افراسیاب خٹک کہتے ہیں ’’لاٹھی بردار اور پتھر مارنے والے احتجاجی عناصرپر حکومت قابو پانے میں بالکل ناکام رہی اور انہوں نے دو دن تک پورے ملک کو یرغمال بنائے رکھا تو یہ حکومت بندوق برداروں پر کیسے قابو پائے گی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔