تعلیم پر ڈاکو مافیاکا راج
شیئر کریں
پاکستانپر مسلط طبقہ اشرافیہ دن رات ایک ہی کام میں مصروف ہے کہ کسی نہ کسی طور پہلے سے موجود بنیادی تعلیم وصحت کی سہولتیں یا تو تباہ و برباد کر دی جائیں ، یا پھر ان کو اتنا ناقابلِ استعمال کردیا جائے کہ لوگ مجبواً سرکاری شعبے سے مایوس ہو کر ان کی ذاتی مافیا گیری اور دکانداریوں کی طرف پلٹ جائیں اور وہاں پر یہ مافیا ان عوام کی کھالیں اتارکر نہ صرف مقامی طور پر محفوظ کر سکیں بلکہ برآمد کرکے اپنے بیرونِ ملک اثاثوںمیں بھی اضافے کرسکیں۔
کوئی ڈھائی سال جاتے ہیں کہ پنجاب کے خادمِ اعلیٰ نے اسمبلی کے فلور پر صوبے کے پیشہ ورانہ اداروں میں سے داخلے کے خواہش مند طلبہ و طالبات کے لیے مشرف دور میں شروع کیا جانے والا ’انٹری ٹیسٹ ‘ ختم کرنے کا اعلان کیا۔ میڈیکل اور انجینئرنگ کے پیشہ ورانہ اداروں میں داخلوں کے لیے یہ انٹری ٹیسٹ اس لیے شروع کروائے گئے تھے کیوں کہ انٹرمیڈیٹ بورڈز میں امتحانی پرچوں کی مناسب اور ایماندارانہ جانچ پر بہت سے سوالات اُٹھ رہے تھے جب کہ ان بورڈزمیں اپنے پسندیدہ افراد کی سال ہا سال تک بغیر کسی میرٹ کے تعیناتی نے یہاں کسی مناسب نظام کو پنپنے ہی نہیں دیا تھا۔ اس پر مستزاد سیاسی سفارشوں اور بدعنوانی کی بناءپر بھرتی ہونے والے کلرکوں کی ایک فوج ظفر موج۔ ان سب عوامل نے مل کر اُس وقت کی حکومت کو مجبور کیا کہ جب تک کوئی شفاف اور قابلِ اعتماد امتحانی جانچ کا نظام وجود میں نہیں آ جاتا تب تک عارضی طور پر پیشہ ورانہ اداروں میں انٹری ٹیسٹ متعارف کروادیا جائے جہاں پر سرکار بہت زیادہ زرِ تلافی سے تعلیم کا اہتمام کرتی ہے۔
لیکن بعد ازاں پنجاب کے تعلیمی اداروں کے امتحانی نظام میں خاطر خواہ تبدیلیاں لائی گئیں۔ اس دوران خادمِ اعلیٰ تو اتنے جذباتی ہوئے کہ وہ صوبے کا پورے کا پورا امتحانی نظام ہی کیمبرج والوں کے حوالے کرنے لگے تھے، کہ ہزاروں اساتذہ اور بورڈ کے ملازمین سڑکوں پر نکل آئے اور خادمِ اعلیٰ کے ذریعے رو بہ عمل آتی بیوروکریسی کی اربوں روپے کی دیہاڑی ماری گئی۔ لیکن امتحانات میں بین الاقوامی رحجانات کے عین مطابق کثیرالانتخاب مختصر سوالناموں کو متعارف کروانے اور امتحانی بورڈز کو مکمل طور پر خودمختار کمپیوٹرائزڈ کرنے کے بعد اس امتحانی نظام میں اس قدر قوت ہوگئی کہ ’داخلہ ٹیسٹ‘ کی افادیت کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ اب اصولی طور پر امتحانی نظام میں بہتری کے بعد تعلیمی نظام میں سے داخلہ امتحان نامی بیماری کا خاتمہ ہوجانا چاہیے تھا، لیکن ہوا یوں کہ اس دوران اس نو دریافت شدہ شعبے میں اس قدر بھاری مالی مفادات وابستہ ہو گئے کہ ان مفادات پر ہاتھ صاف کرنے والوں نے اس نظام کو ختم نہیں ہونے دیا۔
بھکر، ڈیرہ غازی خان یاپنجاب کے دیگر دور دراز علاقوں میں ایف ایس سی کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کرنے والا بچہ پہلے ہی ’اے لیول ‘ کے مقابلے میں ایک طبقاتی احساس کمتری اپنے دل میں سموئے تعلیم کا یہ زینہ چڑھتا ہے۔ لیکن جب اس کو اس کے ہم عصر اپنے قول و فعل سے یہ باور کروا دیتے ہیں کہ انٹری ٹیسٹ کی تیاری اگر نہ ہو سکی توہو سکتا ہے کہ وہ اپنے خوابوں کی حقیقت پانے میں ناکام ہو جائے تو وہ بچہ ‘ شفقتِ پدری‘ کا خوب خوب استحصال کر کے انہیں اس بھاری بھرکم خرچے کو برداشت کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یوں گزشتہ ایک دہائی میں کئی خاندان کے خاندان ان تیاری کے دنوں میں لاہور کو سدھار جاتے ہیں ، جہاں پر ان کو داخلہ امتحانوں کی تیاری کروانے والی یہ نجی اکیڈمیاں ان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے کا فریضہ سرانجام دے رہی ہوتی ہیں۔
اس وقت پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں داخلے کے اس ٹیسٹ کے ضمن میں پیدا ہونے والی معیشت ، صرف لاہور کی حد تک، ایک محتاط اندازے کے مطابق تیس ارب روپے سے زائد ہو چکی ہے۔ لیکن نیا اور کم یاب شعبہ ہونے پر اتنی بڑی معیشت کے محض دو یا تین ہی ساجھے دار بن پائے ہیں۔ ان میں سے دو مافیا رکن تو اردو بازار میں مختلف جماعتوں کے لیے گائیڈز اور گیس پیپر چھاپا کرتے تھے۔ جب انٹری ٹیسٹ کی اس جعلسازی کا آغاز ہوا تو انہوں نے جھٹ سے اِدھر اُدھر سے کاغذات جوڑ جاڑ کر ان امتحانوں کے لیے گائیڈز شائع کر دیے۔چوں کہ امتحان لینے اور دینے والے دونوں اناڑی تھے اس لیے گیس پیپر بنانے والے جاہل بھی چل گئے۔ لیکن مارکیٹ میں اس نئی طرز کے امتحاناتی سوالات کی ٹیوشن پڑھانے والے اساتذہ کی کمی تھی، وہ بھی انہی پبلشروں نے ہی پوری کردی، اور یوں محض تین سال میں ہی پورے پنجاب کے بڑے شہروں سے لے کر چھوٹے شہروں تک ہر جگہ ان کے ”گروپ آف کالجز “کھڑے ہو گئے اور ہو رہے ہیں۔جو اس نئے موقع سے فائدہ نہ اُٹھا سکے ،انہیں ہم نے بہت افسوس سے ہاتھ ملتے دیکھا ہے۔
اسی طرح کے ایک کردارسے ایک نجی محفل میں ملاقات ہوئی، مشترکہ میزبان کے ہاں ہم محض سامع رہے جب میزبان نے ان کی خادمِ اعلیٰ کے نئے بیان کی طرف توجہ دلائی جس کے تحت پیشہ ورانہ اداروں کے داخلہ ٹیسٹوں کا خاتمہ ہو جانا ٹھہر گیا تھا اور یہ کہ اب ان کی جعل سازی کی دکان بڑھانے کا وقت آ گیا ہے تو وہ بڑی بے نیازی سے گویا ہوئے ”کچھ نہیں ہوگا، بس ہمارا تھوڑا سا خرچہ بڑھ جائے گا“۔ پھر خود ہی وضاحت کرتے بولے کہ دیکھو، اربوں روپے کمانے کے لیے اگر کروڑوں خرچ بھی کر دیے جائیں تو کیا حرج ہے؟ کچھ ماہ بعد انہی دوست کی وساطت سے پتہ چلا کہ معاملہ تیس کروڑ میں طے ہوا تھا، براہِ راست نہیں بلکہ بالواسطہ ،ایک چھوٹے سے زمین کے ٹکڑے کے نام کی تبدیلی کی صورت میں(واللہ اعلم بالصواب) ۔ اس کی وجہ شائد یہ بھی تھی کہ خادمِ اعلیٰ مسلسل مائیک گراتے ہوئے یہ منتردہرا سکیں کہ ’میرے خلاف ایک پائی کی کرپشن بھی ثابت ہو تو آپ کا ہاتھ اور میرا گریبان ہو گا‘ حالاں کہ کرپشن کا یہ کھرا ان کی ذات سے تو نہیں لیکن ان کے ’انتہائی قریبی لوگوں ‘کی طرف ضرور جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ’وہ قریبی لوگ‘ اب ان کے ’زیر کفالت ‘ نہیں تو ان کا اس لوٹ مار سے کیا تعلق؟
وہ صاحب پتہ نہیں کس حد تک درست کہتے تھے، اس کا تو ہمیں نہیں معلوم لیکن اس کے بعد خادمِ اعلیٰ نے کبھی بھی انٹری ٹیسٹ کے خاتمے کا ذکر تک نہیں کیا۔ اور اب تو یہ صاحب پنجاب کے تمام شہروں میں اپنی برانچیں دھڑادھڑ کھولتے پائے جاتے ہیں۔ ویسے ان کو کیا ہے انہوں نے تو نجی تعلیمی اداروں کی نگرانی کے لیے صوبائی سطح پر ایک کمیشن بنانے کا اعلان بھی کیا تھاجس کے لیے پنجاب اسمبلی سے باقاعدہ قانون سازی بھی ہو چکی ہے، لیکن پھر اس کمیشن کو منصہ شہود پر لانے کی بجائے یہ سارا معاملہ متعلقہ ضلعوں کے ای ڈی او افسران کے حوالے کر دیا گیا اور اب ضلعی نظام میں چونکہ چوں چوں کا ایک مربہ بن گیا ہے تو پتہ نہیں اب یہ اختیارات کون استعمال کرے گا؟ شائد یہی خادمِ اعلیٰ کا مقصد بھی تھا کہ کسی طور بھی اسکول مافیا پر ہاتھ نہ ڈالا جا سکے۔
دراصل خادمِ اعلیٰ ہو یا کوئی پرویز الٰہی ، مقصد واحد یہی ہوتا ہے کہ ملک میں جاری کم قیمت نظامِ تعلیم کو تباہ و برباد ، بے وقعت و بے اعتبار کیا جائے ،یہ ایک بہت مشترکہ سازش تھی اور ہے۔ایک طرف کم تنخواہوں سے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو اپنے کام سے متنفر کیا گیا جب کہ دوسری طرف امتحانی نظام کو مشکوک بنا کر اس کی اعتباریت پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیا گیا اور یوں اپنی اگلی نسل کے لیے سہانے مستقبل کے خواب آنکھوں میں بسانے والے والدین دھڑا دھڑ ان نجی تعلیمی اداروں کے مافیا کے ہاں جا کر اپنی عمر بھر کی پونجیاں لٹانے لگے، جن میں بعض نے ملکی اور بہت سوں نے غیر ملکی اداروں کے سول ڈسٹری بیوشن کھول رکھے ہیں۔
ریاستیں ہمیشہ اپنے عوام کو بنیادی سہولتوں کی کم قیمت فراہمی کے لیے کوشاں رہتی ہیں اور ان کے لیے اربوں روپے کی زرتلافی بھی صرف کرتی ہیں۔ لیکن نواز لیگ کی شائد وہ واحد حکومت ہے جو صحت اور تعلیم کے شعبے میں مختلف مافیاو¿ں کو نہ صرف رواج دیتی ہے، پالتی ہے بلکہ عوام کے ٹیکسوں کی زرِ تلافی بھی انہی کی جیبوں میں ٹھونس رہی ہے۔
٭٭