آزادیٗء ہند میں آر ایس ایس کا کردار اور اصل حقیقت
شیئر کریں
(مہمان کالم)
رام پنیانی
برسر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کے بارے میں اکثر و بیشتر عوام میں باتیں ہوتی رہتی ہیں، اس کے مختلف اقدامات سے متعلق بحث و مباحث بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔ اس کی قبیل کی مختلف تنظیمیں اس بات کی کوشش کررہی ہیں کہ عوام کے سامنے یہ ثابت کیا جائے کہ جدوجہدِ آزادی ہند میں آر ایس ایس نے اہم کردار ادا کیا ہے، حالانکہ تحریک آزادی میں آر ایس ایس کا کوئی رول نہیں رہا۔ یہ سارا ہندوستان جانتا ہے۔ آر ایس ایس کے ایک نظریہ ساز راکیش سنہا جنہیں بی جے پی نے راجیہ سبھا کا رکن بنایا ہے‘ کا دعویٰ ہے کہ انگریزوں کے خلاف تحریک نافرمانی نے اس لیے زور پکڑا تھا کیونکہ اس میں آر ایس ایس کے بانی ہیڈگوار نے حصہ لیا تھا۔ بی جے پی قائدین صرف اسی طرح کے دعووں پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ایک اور قدم آگے بڑھتے ہوئے ساجی نارائن یہ کہنے سے بھی نہیں شرماتے کہ آر ایس ایس تحریک آزادی کا ایک اہم حصہ رہی ہے۔ ایک بی جے پی قائد تو قوم کو یہ یاد دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کبھی آر ایس ایس پرچارک رہے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے خود دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے تحریک آزادی میں حصہ لیا تھا۔ یہ بحث پھر اْس وقت شروع ہوئی جب چیف منسٹر مہاراشٹرا ادھو ٹھاکرے نے گورنر کے تحریک تشکر کا جواب دیتے ہوئے پْرزور انداز میں جواب دیا کہ آر ایس ایس نے کبھی بھی جدوجہد آزادی یا تحریک آزادی میں حصہ نہیں لیا۔ ادھو ٹھاکرے کے اس بیان پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے سابق چیف منسٹر مہاراشٹرا دیویندر فڈنویس نے بنا کسی ہچکچاہٹ کے یہ کہہ دیا کہ آر ایس ایس کے بانی ڈاکٹر کے وی ہیڈگوار ایک مجاہدِ آزادی تھے۔ اس معاملے کا بڑی گہرائی سے جائزہ لینے پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ ہندو قوم پرستوں (ہندو مہا سبھا اور آر ایس ایس) نے کبھی بھی ہندوستان کی جدوجہدِ آزادی میں حصہ نہیں لیا جبکہ انگریز سامراج کے خلاف ہندوستانیوں نے جدوجہد کی تھی۔ اس جدوجہد آزادی میں تمام مذاہب کے ماننے والے موجود تھے۔
فرقہ پرست طاقتوں نے ہمیشہ ہی اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے مذہب کے نام پر اقدامات کیے۔ ان کا سب سے بڑا ایجنڈا مذہب کے نام پر قوم پرستی تھی۔ جہاں تک ہندو قوم پرستوں کا سوال ہے، ان لوگوں نے ہمیشہ ہی آزادی کی قومی تحریک سے راہِ فرار اختیار کی اور زیادہ تر وہ قومی تحریک سے دور رہے یا پھر انگریزوں کی مدد کی۔ ساورکر نے پہلے انگریز حکمرانوں کے خلاف جدوجہد ضرور کی تھی لیکن جب انہوں نے رہائی پانے کے لیے ایک مرتبہ انگریزوں سے معذرت خواہی کرلی اس کے بعد کبھی بھی انگریز مخالف تحریک میں حصہ نہیں لیا۔ اس کے برعکس ساورکر نے برطانیا کی جنگی کوششوں میں انگریزوں کے لیے سپاہیوں کی بھرتی کرتے ہوئے اپنی خدمت پیش کی۔
آر ایس ایس کے بانی ہیڈگوار نے 1920ء کی تحریک عدم تعاون میں حصہ لیا تھا اور جس کی پاداش میں انہیں ایک سال جیل کی سزا ہوئی تھی، لیکن 1925ء میں آر ایس ایس کے قیام کے بعد صرف دو ایسے مواقع تھے جب ہیڈگوار ہندوستان کی آزادی کی تحریک سے جزوی طور پر جڑے تھے، لیکن دونوں موقعوں پر ان کے قوم پرستوں سے اختلافات ظاہر ہوئے تھے کیونکہ وہ ہندوستانی قوم پرستی کے بجائے ہندو قوم پرستی کی راہ پر چل رہے تھے۔ 1929ء کے دوران لاہور میں منعقدہ کانگریس کے اہم اجلاس نے ہر 26 جنوری کو پرچم لہرانے کی کال دی تھی، اس میں ہیڈگوار شامل رہے، لیکن ہیڈگوار کی قیادت میں آر ایس ایس نے 21 جنوری 1930ء کو آر ایس ایس ممبران کے لیے یہ حکم جاری کیا کہ وہ پارٹی کے زعفرانی پرچم کو سلیوٹ کریں۔اس طرح کے واقعات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آر ایس ایس ہمیشہ سے ہی قوم پرستی کے بجائے ہندو قوم پرستی پر عمل پیرا رہی ہے۔ہیڈگوار کو اس بات کی امید تھی کہ کانگریس کے اندر آزادی کے لیے قربانیاں دینے کے خواہاں افراد کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے ، جنہیں ہندو قوم پرستی کی طرف لایا جاسکتا ہے۔ انگریزوں کے خلاف سب سے بڑی تحریک نے بھی یہی دیکھا کہ آر ایس ایس انگریزوں کی ہدایت پر عمل کررہی تھی۔ انہیں مان رہی تھی۔
گولوالکر نے آر ایس ایس ممبران کو یہ ہدایت جاری کی تھی کہ وہ اپنا معمول کا کام جاری رکھیں اور ایسا کوئی قدم نہ اٹھائیں جس سے انگریزوں کو رنج پہنچے یا ان میں برہمی پیدا ہو۔ ’’گرو جی سامگراہ درشن‘‘ (جلد نمبر 4 ، صفحہ 39 ) میں گولوالکر کہتے ہیں کہ ملک میں وقفے وقفے سے جو صورتحال پیدا ہورہی ہے اس سے ذہن میں کچھ بے چینی پائی جاتی ہے۔ اسی طرح کی بے چینی 1942ء اور اس سے پہلے 1930-31ء میں بھی تھی۔ اس وقت کئی شخصیتوں نے ڈاکٹر جی (ہیڈگوار) سے ربط پیدا کیا۔جب ایک نوجوان نے ڈاکٹر جی سے کہا کہ وہ جیل جانے کے لیے تیار ہے تب ڈاکٹر جی نے جواب دیا کہ ضرور جیل جائولیکن تمہارے خاندان کا خیال کون رکھے گا؟ اس نوجوان نے جواب میں کہا کہ میں نے نہ صرف اپنے خاندان کے لیے 2 سال کے اخراجات اور ضرورت پڑنے پر جرمانوں کی ادائیگی کے لیے ایک معقول رقم کا انتظام کررکھا ہے تب ڈاکٹر جی نے اس نوجوان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ’’اگر تم نے وسائل کا مکمل بندوبست کرلیا ہے تو پھر دو سال کے لیے آر ایس ایس کی خاطر کام کرنے کے لیے آئو‘‘۔
آر ایس ایس کے ہندو قوم پرستی کے نظریے کے بارے میں ’’Bunch of Thoughts‘‘ میں گولوالکر نے جدوجہد آزادی کو علاقائی قوم پرستی قرار دے کر اس کی مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ علاقائی قوم پرستی نے ہمیں ہندو قوم پرستی کے مثبت مواد سے محروم کیا ہے اور آزادی کی کئی تحریکوں کو عملاً انگریز مخالف تحریکوں میں بدل دیا ہے۔ ہیڈگوار جیل کو گئے ضرور لیکن آر ایس ایس کے بانی کے طور پر نہیں بلکہ ایک کانگریسی کی حیثیت سے گئے اور ہمیشہ تحریک آزادی کی مخالفت کی جو ہندوستانی قوم پرستی کا اولین مقصد تھا۔ انگریزوں کی ہدایت پر ہی گولوالکر نے آر ایس ایس کو فوجی ڈرل اور یونیفارم زیب تن کرنے کی ہدایت جاری کی۔ ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ تحریک کے آغاز کے ڈیڑھ سال بعد برطانوی راج کی بمبئی حکومت نے ایک میمو میں اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ آر ایس ایس نے خود کو قانون کے دائرے میں رکھا ہوا ہے اور خاص طور پر اس نے اگست 1942ء میں انگریزوں کے خلاف اٹھی لہر میں اور احتجاجی مظاہروں میں حصہ لینے سے بھی گریز کیا ہے۔ جہاں تک واجپائی کے تحریک آزادی میں حصہ لینے کا سوال ہے، تحقیق پر یہ معلوم ہوا کہ انگریزوں کے خلاف ان کے آبائی گائوں میں نکالے گئے جلوسوں میں سے ایک جلوس کا وہ نظارہ کررہے تھے، پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور احتجاجی مظاہرین کو گرفتار کرلیاچونکہ واجپائی مظاہرین کے پیچھے پیچھے جارہے تھے، انہیں بھی گرفتار کرلیا گیا، تاہم انہوں نے ایک مکتوب لکھا جس میں معافی طلب کی اور احتجاج منظم کرنے والے رہنمائوں کے ناموں کا انکشاف کرتے ہوئے مظاہرین سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا۔یہ ہے آزادی کی تحریک میں ان لیڈروں کا کردار، اور اصل حقیقت۔ آج بھلے وہ تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے انتخابی فوائد کے لیے جو بھی دعوے کرتے رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔