میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
منطقی انجام کیاہوگا

منطقی انجام کیاہوگا

ویب ڈیسک
پیر, ۲۹ مارچ ۲۰۲۱

شیئر کریں

پاکستان میں بزنس مین ، سیاستدان ، تاجر اور نہ جانے کون کون سے طبقات باقاعدہ مافیاز کا روپ دھارچکے ہیں ان میں سے بیشتر کی بیوروکریسی،فوجی اسٹیبلشمنٹ، ججز،اوراشرافیہ سے رشتہ داریاں ہیں ملک میں جس کی بھی حکومت ہو یہ سب کے ساتھ اس حکومت میں شامل ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کے پیش ِ نظرفقط اپنے ہی مفادات کا تحفظ ہوتاہے یقین نہیں آتا تو خود گذشتہ 40-30سال کی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں آپ کو چند مخصوص خاندان ہی پاکستان کی تقدیر کے مالک نظر آئیں گے ،یہ لوگ ہرسال کوئی نہ کوئی بحران ارینج کرکے کھربوں روپے کمالیتے ہیں اور غریب عوام اپنی قسمت کو کوس کر ہمیشہ جلتے کڑھتے رہتے ہیں کبھی آٹامافیاسراٹھاتاہے تو کبھی شوگرمافیا،کبھی لینڈمافیا سرکاری زمین اپنی ہائوسنگ سوسائٹیوںمیں شامل کرلیتاہے ا اور حکمران نعرے لگانے کے علاوہ کچھ نہیں کرپاتے آٹا، اور چینی چونکہ عام استعمال کی پراڈکٹس ہیں جس کی کھپت ہمیشہ زیادہ ہے اس لیے یہ ان کا خاص ٹارکٹ ہیں،جب ہی تو شوگر ملز مالکان اور آٹا مافیاحکومت سے اربوں روپے کی سبسڈی بٹورنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے اپناتے رہتے ہیں۔ شوگر ملز مالکان اور آٹامافیاگندم ملک سے باہر بھجوانے کے نام پر حکومت سے سبسڈی اور مراعات لیتے ہیں ،فوائد حاصل کرنے تک آٹا چینی کو ملک میں نامعلوم جگہ پر ا سٹور کرلیا جاتا ہے۔جیسے ہی حکومتی مفادات موصول ہوجاتے ہیں اسی آٹاچینی کو مقامی مارکیٹ میں ہی فروخت کردیا جاتا ہے۔

اسی سال فروری میں وزارت صنعت و پیداوار نے اقتصادی رابطہ کمیٹی سے رابطہ کرکے بغیر ٹیکس کی ادائیگی کے تین لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کی تجویز پیش کی تاکہ ملک میں چینی کی بڑھتی قیمتوں پر قابو پایا جا سکے۔ ای سی سی نے اس کی شدید مخالفت کرتے ہوئے خبردارکیا تھاکہ ڈیوٹی فری درآمد کے نتیجے میں حکومت کو ٹیکس استثنیٰ اور ڈیوٹی کی مد میں 14 ارب روپے کا نقصان ہوسکتاہے۔ جبکہ قیمتیں کنٹرول میں نہیں رکھی جاسکیں گی جس سے مہنگائی ہونا یقینی امرہے اور ایسے ہی ہوا جب کابینہ اجلاس میں اسد عمر نے یہ معاملہ اٹھایا اور نتیجتاً کابینہ نے چینی کی درآمدات پر ریگولیٹری ڈیوٹی ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا بعد میں در آ مد کردہ چینی پر 750 ڈالر فی ٹن کے حساب سے سیلز ٹیکس عائد ہوا حالانکہ اس وقت بین الاقوامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت 375 ڈالرز فی ٹن تھی اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس وقت مقامی چینی پر سیلز ٹیکس کی شرح 11 روپے فی کلوگرام تھی، اس وقت درآمد کردہ چینی پر 21 روپے فی کلوگرام ٹیکس وصول کیا جا رہا تھا۔ صاف ظاہر تھا اس کے نتیجہ میں چینی کا کاروبار کرنے والوں کو مزید 10 روپے کلو کا فائدہ پہنچایا گیا جس سے شوگرمافیا نے واتوں رات کھربوں روپے کما لیے ۔ جب کابینہ کے کچھ ارکان نے یہ معاملہ حکومت کے روبرو اٹھایا تو اس کے لیے عمران خان نے واجد ضیاء کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن بنادیا جس نے دودھ کا دودھ پانی کا پانی الگ کردیا اس کمیشن کی فرانزک رپورٹ سامنے آنے کاانتظارکیا جارہاہے کہ تاکہ ذمہ داروںکا تعین کیا جاسکے توقع ہے کہ 25 اپریل کو انکوائری کمیشن کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد سب کچھ واضح ہوجائے گا۔

اب چندسوال توجہ طلب ہیں جن کے جواب حکمرانوںکو ہر صورت تلاش کرناہوں گے ورنہ اس ساری ایکسرسائزکا کوئی فائدہ نہ ہوگا اولاً طاقتور شوگر لابی سمیت کون ملوث ہے؟ ثانیاًجب وفاقی حکومت نے ریگولیٹری ڈیوٹی معاف کی تو 750 ڈالر فی ٹن کے حساب سے سیلز ٹیکس کس نے لگایا۔ اب کورونا وائرس کی وبا کے دوران، حکومت نے کھانے پینے کی تمام اشیاء پر ڈیوٹی اور ٹیکس ختم کرنے کی کوشش کی لیکن چینی کے درآمد کنندگان کو 5.5 فیصد پیشگی انکم ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے جبکہ مقامی چینی کے لیے گزشتہ بجٹ میں ایڈوانس انکم ٹیکس کی شرح 4.5 فیصد سے کم کرکے صرف 0.25 فیصد کر دی گئی تھی۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے کہاجاسکتاہے کہ حکومت کی جانب سے مقامی شوگر انڈسٹری کی بھرپور سرپرستی جاری ہے اور قیمت پاکستانی عوام سے وصول کی جا رہی ہے۔ اب کہا جاتا ہے کہ مسابقتی قیمتوں پر چینی کی د رآمد سے حکومت کو ملک میں چینی کی بڑھتی قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی۔ چونکہ آج چینی کی قیمت 90-85 روپے فی کلوگرام تک ہوگئی ہے اور ڈالر 167 روپے کا ہوچکا ہے ،یہ صورتحال مقامی مارکیٹ میں چینی پیدا کرنے والوں کے لیے بہت خوشگوار ہے جبکہ رمضان المبارک کے مہینہ میں چینی کی قیمت 100 روپے فی کلوگرام ہوگئی۔ اب تو شک شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی کہ شوگر ایکسپورٹ پالیسی سے فوائد حاصل کرنے والوں میں بااثر نامور سیاسی شخصیات شامل ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں ،شریف خاندان ، چوہدری فیملی ، زرداری اورجہانگیر ترین گروپ ن،خسرو بختیار کے بھائی عمر شہریار گروپ ،انور مجید گروپ شامل ہیں سب کے پیٹ میں غریبوں سے محبت کا مروڑ اٹھتارہتا ہے۔جہانگیر ترین گروپ چینی پر دی جانے والی کل سبسڈی کا 22 فیصد حاصل کرکے 56 کروڑ روپے کی سبسڈی حاصل کی اسی طرح وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی عمر شہریار کے گروپ نے 35 کروڑ سے زائد کی سبسڈی لی، المعیز گروپ نے 40 کروڑ روپے کی سبسڈی حاصل کی ، مئی 2014ء سے جون 2019ء تک کے عرصے میں چینی کی قیمت میں 16 روپے فی کلو کااضافہ ہوا، شوگر برآمد کنندگان نے 3 ارب روپے کی سبسڈی اور قیمت میں اضافے دونوں کا فائدہ اٹھایا جس سے قیمت میں اضافہ اور بحران پیدا ہوا یہ بھی رپورٹ تیارکرلی گئی ہے کہ گذشتہ پانچ سال میں حکومت کی جانب سے 25 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی اس بہتی گنگا سے آر وائی گروپ ، جہانگیر ترین ، ہنزہ گروپ ، فاطمہ گروپ ، شریف گروپ ، اومنی گروپ اور چوہدری گروپ نے فیضیاب ہوئے۔

شوگر ملوں کو سبسڈی ملنا، چینی کی صنعت کا سیاست میں اثرورسوخ ظاہرکرتا ہے ۔ پاکستان میں سب سے زیادہ شوگر ملز شریف خاندان ،انور مجید گروپ اور آصف زرداری کی ہیں انہی تینوں گروپس نے عددی برتری کے حوالہ سے سب سے زیادہ فوائد اور سبسڈی لے کر کھربوں روپے کما لیے لیکن سوشل میڈیا پر شور مچاہوا کہ جہانگیر ترین نے بہت زیادہ لوٹ مارکی ہے یہ پروپیگنڈہ اس لیے کارگر ہورہاہے کہ وہ حکومت کا حصہ ہیں اس کا یہ مطلب بھی نہیں لیا جاسکتاکہ چینی کے بحران میں جہانگیر ترین بے قصور ہیں بات یہ ہے کہ اپوزیشن صرف ان شوگرملز مالکان کے خلاف مہم چلا رہی ہے جو عمران خان کے ساتھ ہیں حالانکہ یہ سب کے سب بے رحم لوگ ہیں جنہوںنے ہمیشہ بحران پیدا کرکے حکومتوں کو بلیک میل کیا اور اپنی تجوریاں بھری ہیں اس سارے معاملہ کا سب سے خوفناک پہلو یہ ہے کہ چینی مافیا کے کچھ لوگوں نے وزیراعظم کو دھمکی دی ہے کہ اگر شوگر کمیشن کی جاری تحقیقات بند نہ کی گئیں تو چینی کی قیمت مزید بڑھ جائے گی ،اسی ایک بات سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ شوگرمافیا کس قدر طاقتورہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاء کو بھی اسی مافیا نے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ تحقیقات بند کی جائے۔ اس طرح کا ایک سکینڈل 4جنوری 2017میں بھی سامنے آیا تھا جب پشاور کے ڈائریکٹوریٹ آف کسٹمز انٹیلی جنس اور انویسٹی گیشن نے پانچ ہزار چارسو بیس میٹرک ٹن چینی کی بر آمد کا ایک فراڈ سامنے لے آیا تھا۔ یہ چینی چارہزارآٹھ سو چھ تھیلوں میں پشاور کے رنگ روڈ پر واقع ایک غیر قانونی ویئر ہاوس میں ذخیرہ کی گئی تھی بہرحال چینی اور آٹا بحران پر جاری تحقیقاتی رپورٹ پر ملک بھر میں ہنگامہ برپا ہے اس بحران کے ذمہ دار اہم شخصیات میں موجودہ کابینہ میں شامل ایک وزیر کے عزیز اور ان کے ایک قریبی سیاسی ساتھی جہانگیر ترین‘ مسلم لیگ (ق) کے رہنما مونس الہی اور دوسرے بااثر افراد شامل ہیں بلاشبہ وزیراعظم کے لیے ایک بڑی آزمائش ہے یہ بھی کہاجارہاہے ایسا پاکستان کی تاریخ میں پہلی بارہورہاہے اس لیے عوام کو خوشگوارحیرت ہے کہ پہلی مرتبہ کسی وزیراعظم نے ایک سیکنڈل میں اپنے سیاسی رفقاء کے ناموں کے ساتھ انکوائری رپورٹ شائع کرنے کی اجازت دی۔ یقینا پاکستان میں ایک نئی تاریخ رقم ہورہی ہے فورینزک رپورٹ نے ملکی سیاست میں ہلچل تو مچادی ؟ لیکن پھرہوا کیا؟ بیشترلوگوںکا خیال ہے کہ یہ مافیا اتنا طاقتور ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت بھی جاسکتی ہے یہ تو بات یقینی ہے کہ عمران خان ان اہم شخصیات کے خلاف ایکشن لے کر ایک تاریخ رقم کریں گے لیکن ساتھ ہی ان کے لیے سیاسی چیلنجز بھی درپیش ہوں گے اب دیکھتے ہیں ان کے خلاف ایکشن لینے کاجو اعلان کیاگیا تھا اس کا منطقی انجام کیاہوگا؟ یہ ایکشن لیا جانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اب گندم کا بحران آنے والا ہے یہ بحران حکومت کو ہلاکررکھ دے گا کیونکہ جب لوگوںکو کھانے کے لیے آٹا نہیں ملے گا تو پھر شہر شہر احتجاج کو کوئی نہیں روک سکتا شاید اپوزیشن کو اسی موقع کاانتظارہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں