بلدیہ کراچی میں آمدنی،ریکوری کی صورتحال سنگین ہوگئی
شیئر کریں
( رپورٹ: جوہر مجید شاہ ) بلدیہ کراچی میں مالی بحران شدت اختیار کر گیا، ڈائریکٹر لینڈ طارق صدیقی نے ایڈمنسٹریٹر کراچی کے گرد اپنا حصار قائم کرلیا، کرپٹ و راشی ڈائریکٹر نے ادارے میں منجھے ہوئے کھلاڑیوں کی بساط بچھا دی، کچی آبادی اور اورنگی ٹاؤن لیز کے تمام تر اختیارات کیساتھ میدان کار زار میں ٹیم اتار دی۔ دوسری جانب لیز کے ریٹ بھی دگنے کردیے گئے، دلچسپ بات یہ ہے کہ طارق صدیقی جو گریڈ 18 کے افسر ہیں خلاف ضابطہ 19 گریڈ کے افسران پر راج کررہے ہیں،اسکے ساتھ ذرائع نے بتایا کہ مالی بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے، ادارے میں آمدنی،ریکوری کی صورتحال سنگین ہوگئی جس کے باعث دیگر مسائل بھی سر اٹھا رہے ہیں۔ ادھر ایک سیاسی جماعت نے ایڈمنسٹریٹر کراچی کے خلاف باقاعدہ احتجاج کرتے ہوئے انکی تبدیلی کا مطالبہ بھی کردیا ہے۔ ادھر شہری دگنی قیمت وصولی کو سرا سر زیادتی نا انصافی اور شہریوں کی جیبوں پر ڈاکہ زنی کے مترادف عمل قرار دے رہے ہیں اور اس کے مرتکب عناصر کے خلاف سخت ترین قانونی کارروائی کا مطالبہ بھی کررہے ہیں، جبکہ انتہائی بااعتماد و باوثوق اندرونی ادارتی ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق اسکروٹنی کمیٹی لینڈ و لیز افسر کے علاوہ ڈائریکٹر لینڈ کو بھی فی کس5ہزار دینے کا گورکھ دھندا جاری ہے۔ ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمیٰ کراچی کے بعض نامناسب فیصلوں جن کے پیچھے طارق صدیقی ہیںکے سبب کے ایم سی مالی مشکلات سے دوچار ہے، لیز کو ذاتی و انفرادی فیصلے کے تحت دوسری جگہ منتقل کرنے کے فیصلے سے ایک جانب تو لیز کی قیمت میں دگنا اصافہ ہوا،جبکہ اس عمل سے کرپشن کے بے تاج بادشاہ و بازی گر طارق صدیقی کیلئے میدان صاف ہوگیا اور مزید یہ کہ گریڈ 19کے افسران گریڈ 18کے افسر کی ماتحتی میں آگئے، ذرائع بتاتے ہیں لیز کی قیمت ڈبل ہونے سے لیز کے امور ٹھپ ہوکر رہ گئے، ملنے والی مزید اطلاعات کے مطابق اسکروٹنی کمیٹی،چالان،کمپوٹر ملازمین سمیت انٹری کلرک نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے شروع کر دیے ہیں، مخصوص طے شدہ رقم کی وصولی کے بعد لیز پر20 سے 25ہزار اضافی دینے پڑ رہے ہیں۔لینڈ اور لیز افسر کے علاوہ ڈائریکٹر لینڈ کو فی کس 5 ہزار جا رہے ہیں، اس اضافی بوجھ اور غیرقانونی وصولیوں پر شہریوں میں شدید غمِ وغصہ اور منفی سوچ پروان چڑھ رہی ہے، جو نقصان دہ ہے، اس حوالے سے انتہائی بااعتماد و باوثوق اندرونی ادارتی ذرائع نے انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ مزکورہ فیصلہ جس کے تحت طارق صدیقی کا ون مین شو چل رہا ہے اس اسکرپٹ کے رائٹر ڈائریکٹر پروڈیوسر طارق صدیقی ہی ہیں جس کا براہ راست نشانہ و نقصان بلدیہ عظمیٰ کراچی اور اس کے ملازمین کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ مذکورہ فیصلے کے روح رواں طارق صدیقی نے ایڈمنسٹریٹر کراچی کو گمراہ کرتے ہوئے یہ فیصلہ کروایا اور طارق صدیقی لیزوں پر ایڈمنسٹریٹر کراچی کے نام پر کمیشن الگ سے وصول کررہے ہیں، جبکہ لیزوں کا کام نہ ہونے کے برابر ہوگیا ہے، جس کی وجہ اضافی رقم کی وصولی ہے۔ طارق صدیقی کی فرمائش پر موٹیشن، امالگا میشن، ٹرانسفر اور تمام اختیارات کچی آبادی، پی ڈی اورنگی اور لینڈ افسران سے چھین کر امجد زیدی کو ڈائریکٹر لینڈ کی فرمائش پر دیے گئے ہیں، جبکہ اسکروٹنی کمیٹی میں بھی دونوں افسران لینڈ کے ہیں۔ چالان بار کوڈ بھی لینڈ سے لگایا جا رہا ہے۔ جبکہ یہ سسٹم ان محکموں میں بھی موجود ہے، لیکن وصولی مہم کے تحت یہ اختیار ڈائریکٹر لینڈ کو دیا گیا ہے۔ لینڈ ڈپارٹمنٹ میں بھی موٹیشن اور لیز کی رقم دگنی کردی گئی ہے، جس کی وجہ اعلیٰ افسران کی پرسنٹیج فکس بتائی جاتی ہے۔ ریکوری کی پوزیشن مرکزی سسٹم کی وجہ سے خراب تر ہوگئی ہے، جبکہ انفرادی طور پر اختیارات دیکر افسران کو حدف دیکر پابند کیا جا سکتا تھا، جس کے تحت معاملات میں بہتری کے قوی امکانات ہیں۔مختلف سیاسی سماجی مذہبی جماعتوں اور شخصیات نے سپریم کورٹ وزیر اعلیٰ سندھ گورنر سندھ وزیر بلدیات ایڈمنسٹریٹر کراچی سمیت تمام تحقیقاتی اداروں سے اٹھائے گئے حلف اور اپنے فرائض منصبی کے مطابق سخت ترین قانونی و محکمہ جاتی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔