دماغ کی دہی۔۔
شیئر کریں
دوستو، دماغ کی دہی بنانا کراچی میں ہماری نارمل گفتگو کا حصہ بن چکا ہے۔۔آپ احباب کی زندگی میں اکثر ایسے لوگ ملتے ہوں گے جن سے گفتگو کے دوران آپ کے دماغ کی دہی بن جاتی ہوگی۔۔ معروف براڈ کاسٹر رضاعلی عابدی ایک جگہ فرماتے ہیں۔۔مرد تو دو ہی کام کرتے ہیں، یا تو کتابی زبان بولتے ہیں یا بازاری۔ کتابی یوں کہ مثلاً مزاج کیسے ہیں، اور بازاری یوں کہ فلاں کی پھینٹی لگائی جائے۔پاکستان کی ایک صوبائی اسمبلی میں اردو بولنے والی ایک خاتون نے کسی کی باتوں سے تنگ آکر کہا کہ آپ تو دماغ کا دہی بنا رہے ہیں۔ ہمارے زمانے تک لوگ دماغ کا کچومر نکالا کرتے تھے۔ سچ ہے، دنیا بدل رہی ہے۔ خاتون نے یہ بھی بتایا کہ یہ کراچی کا عام محاورہ ہے۔ ویسے دماغ کا دہی بنانے کی ترکیب سن کر طرح طرح کے خیال آتے ہیں مثلاً کون سا دہی، کونڈے کا؟ضامن کا؟ بالائی والا؟ یا کھٹّا۔ اسمبلی میں خاتون نے یہ محاورہ جس طرح تنگ آکر ادا کیا ان کی مراد ہو نہ ہوکھٹّا دہی ہی ہوگا۔
آج چوں کہ اتوار کی تعطیل ہے چناں چہ ہم آج آپ کے دماغ کی دہی بنانے کی ادنیٰ سی کوشش کریں گے۔۔ لیجئے ہماری اوٹ پٹانگ باتیں حاضر ہیں۔۔دیکھایہ گیا ہے کہ گھروں میں مرد حضرات اپنی بیگمات اور بیگمات اپنے شوہرات کے دماغ کی دہی بنانے میں مصروف رہتے ہیں۔۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ سامنے والے کو ٹوٹل بور کردیاجائے۔۔جب دو حریف آمنے سامنے ہوتے ہیں تو پسپائی وہی اختیار کرتا ہے جس کے دماغ کی دہی بن چکی ہوتی ہے۔۔ ایسے لوگوں سے متعلق باباجی فرماتے ہیں۔۔مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کبھی بوڑھی نہیں ہوتی۔۔مرد ہر راز کی بات بھول جاتا ہے اور عورت یہ بھول جاتی ہے کہ یہ راز کی بات تھی۔۔مرد مزید نکاح اور عورت مزید خوبصورتی کی خواہش سے کبھی آزاد نہیں ہو سکتے۔۔معاملاتِ دل میں مرد کے اور مرحلہِ عمر میں عورت کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔۔عورت کو اپنا مرد اور مرد کو پرائی عورتیں ہمیںشہ اچھی لگتی ہیں۔۔مرد عشق لڑا کے اور عورت بات کر کے ہمیشہ مُکر جاتے ہیں،، عورت کسی مرد کی مستقل محبوبہ صرف اس صورت میں رہ سکتی ہے جب اس کی بیوی نہ بنے جبکہ مرد کسی عورت کا مستقل محبوب صرف اس صورت میں رہ سکتا ہے جب شوہر بن جائے۔۔جس طرح میگزین و پرچے میں عورت کا من پسند صفحہ بیوٹی پراڈکٹس کا ہوتا ہے اس طرح مرد کا من پسند صفحہ ہمیشہ یونانی اشتہاروں کا ہوتا ہے۔۔مرد بولنے سے پہلے یہ سوچتا ہے کہ ۔۔کیا ہوگا۔۔ جبکہ عورت بولنے کے بعد سوچتی ہے کہ ۔۔کیا ہو چکا۔۔مرد کا شریف ہو جانا اور عورت کا خاموش ہو جانا ممکن ہے اگر وہ زندہ نہ ہوں۔۔مرد اور عورت ایک دوسرے سے ضرور خوش رہ سکتے ہیں اگر ایک دوجے سے دور رہیں۔۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے ہم نے چند بزرگوں کے سامنے ایک لطیفہ سنانا شروع کیا، لطیفہ کچھ یوں تھا کہ۔۔۔ایک بارایک آدمی ایک بس میں ایک بہت بڑا تھیلالے کر سوار ہوا، کنڈیکٹر نے اس تھیلے کا بھی ٹکٹ خریدنے کو کہا۔ وہ صاحب پہلے تو کنڈکٹر سے جھگڑتے رہے، پھر بڑی مشکل سے نصف ٹکٹ خریدنے پر راضی ہوئے لیکن جب کنڈکٹر کسی طرح راضی نہ ہوا تو انہوں نے تھیلا کھول دیا اور بولے۔۔بیگم باہر نکل آؤ۔ اگر پورا ٹکٹ ہی خریدنا پڑے، تو پھر تھیلے میں بندرہنے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔لطیفہ سنانے کے بعد کمرہ قہقہوں یا ہنسی کی آواز سے نہیں، بلکہ اعتراضات کی گولہ باری سے گونج اٹھا۔ یہ لطیفہ سرے سے غلط ہے، کیونکہ کسی انسان کو تھیلے میں بند کر کے اتنی دیر تک نہیں رکھا جاسکتا، اس کا دم گھٹ جائے گا۔۔۔دوسرے اعتراض یہ سامنے آیا کہ۔۔ایک دوڈھائی من کی عورت کو کندھے پر اٹھائے رکھنا صرف مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے۔۔تیسرا بولا۔۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ بکس یا بستر وغیرہ لیکر بس میں سفر کرتے ہیں،اس لیے کنڈکٹر کا بحث کرنا ہی فضول تھا۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ ۔۔اتفاق سے اگلے ہی روز فیملی میں ایک شادی کی تقریب چل رہی تھی۔۔ رسومات ادا ہورہی تھیں، خواتین کا مجمع تھا۔۔وہاں لطیفہ سنانے کا دل چاہا، ہال میں خواتین کی پرشورباتوں کی آواز سے کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی۔۔ گلے لاؤڈاسپیکر بنے ہوئے اور ہر معززخاتون اپنی آواز کو دوسری خاتون کی آواز پر حاوی کرنے کے لیے پوری زور آزمائی کر رہی تھی، ایسے میں رگِ لطیفہ پھڑکی، اور اپنی بغل میں بیٹھی اپنی عزیزکزن کو لطیفہ سنانا شروع کیا۔۔۔ سن کر وہ زور سے ہنس پڑیں ۔۔ان کی بغل میں بیٹھی ہوئی ایک فیشن ایبل خاتون نے پوچھا۔۔۔کیوں، کیا ہوا، کاہے کی ہنسی ہو رہی ہے؟۔۔کزن بولی۔۔انہوں نے ایک لطیفہ سنایا تھا۔۔۔فیشن ایبل خاتون فرمانے لگیں۔۔ اچھا، مجھے بھی تو سنائیے۔۔کزن نے لطیفہ سنانا شروع کیا۔۔ایک بارایک محفل میںایک لڑکی۔۔اچانک ایک اور خاتون نے بیچ میں دخل دیتے ہوئے کہا۔۔کس لڑکی کا ذکر ہورہا ہے، میں بھی تو سنوں۔۔ کزن بولی، لطیفہ سنارہی ہوں۔۔ وہی خاتون کہنے لگیں۔۔اچھا! اچھا! ہمیں بھی تو سنائیے۔۔کزن نے لطیفہ دوبارہ شروع کیا۔۔جی! تومیں کہہ رہی تھی۔۔۔ ایک بارایک محفل میں ایک لڑکی ڈھیر سازیور پہنے۔۔۔ارے یہ رضیہ کا تو ذکر نہیں، جس کا شوہر کسٹم میں ہے، اسے ہی شوق ہے زیورات سے لدھنے کا۔۔ ایک کونے سے زور دار سی آواز آئی۔ ۔کزن نے کونے کی طرف منہ کرکے کہا۔۔ جی نہیں، یہ ایک لطیفہ ہے۔۔کونے والی محترمہ بولیں۔۔ اوہ، اچھا تو پھر کیا ہوا؟؟۔۔کزن نے لطیفہ آگے بڑھایا۔۔ لڑکی ایک سنسان گلی سے گزر رہی تھی۔۔ایک بوڑھی سی محترمہ کہنے لگیں۔۔ زمانہ خراب ہے، اتنے ڈھیر سارے زیورات پہن کر اسے سنسان گلی سے گزرنے کی کیا پڑی تھی؟؟پہلی والی نے سمجھایا، اماں یہ لطیفہ ہے۔۔پھر وہ کزن کی طرف مڑکر بولی، آگے سنائیے پھر کیاہوا؟؟ کزن جھلاکربولی۔۔ وہ لڑکی بھاڑ میں چلی گئی۔۔۔ بڑی بی نے پوپلے منہ سے بڑی مشکل سے چخ چخ کی آواز نکالتے ہوئے کہا۔۔ ارے وہ کیوں؟؟ کیا ضرورت تھی بھاڑ میں جانے میں کی اسے؟؟پھر تو ہرطرف سے لڑکی کے بھاڑ میں جانے کے بعد ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں اظہارافسوس کررہا تھا۔۔ اور اس ہائے وائے کے ماحول میں لطیفے کے خاتمے سے پہلے ہی پوسٹ مارٹم ہوگیا۔
ہمارے پیارے دوست بتارہے تھے کہ۔۔۔آج ایک لڑکی نے کہا’’ نمبر دو‘‘۔۔میں نے بھی بول دیا تم نمبر دو تمہارے گھر والے نمبر دو تمہارا پورا خاندان نمبر دو۔۔باباجی نے دیکھا کہ ان کی اہلیہ آدھے گھنٹے سے موبائل کے کیمرے کے لینز صاف کرتی پھر سیلفی لیتی اور دیکھ کر ڈلیٹ کر دیتی۔۔باباجی کافی تحمل سے اپنے مزاج کے برخلاف یہ سارا ماجرا دیکھتے رہے ، آخر جب برداشت نہ ہوا تو بول اٹھے۔۔ ایک بار اپنے منہ پر بھی کپڑا مار کر ٹرائی کر لو ہو سکتا ہے کام بن جائے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔سوشل میڈیا پر شیئر اور وائرل والا آپشن اس سے پہلے خواتین کے پاس تھا۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔