کاغذکی ایجاد
شیئر کریں
کاغذ تہذیب کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ چینی زبان میں یہ چھوٹا سا جملہ چین کے شمالی مغربی ویغور خود اختیار علاقے سنکیانگ کے ہوتان پریفچکر کی مویو کانٹی کے قدیم کاغذ تیار کرنے والے کارخانے میں لکھا تھا۔ یہ کارخانہ مویو کانٹی کے ایک ٹان شپ میں قائم ہے۔مویو کانٹی کا ‘‘پو چا کا چی’’( pu qia ke qi) نامی یہ ٹان شپ کاغذسازی میں ایک خاص شہرت رکھتا ہے۔ اس ٹان شپ میں ایک گلی ہے جس کے تقریبا سبھی خاندان کاغذ سازی کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ جب مجھے یہ پتہ چلا کے آج ہم کسی کاغذ سازی کے کارخانے کا دورہ کریں گے تو میرے ذہن میں جو ابتدائی تصور ابھرا وہ ایک بڑی اور جدید پیپر مل کا تھا۔ جہاں سینکڑوں لوگ ادارے سے وابستہ ہوں گے، بڑے بڑے بوائلر لگے ہوں گے، کاغذ کے خام گودے کو پیسنے کے لیے ہائیڈرالک پریس ہوں گے مشینوں کا شور اور بھٹیوں سے اٹھتا ہوا سفید دھواں ہمارا استقبال کرے گا۔جب ہماری گاڑی ایک دورازے کے سامنے رکی تو بظاہریہ کسی حویلی نما گھر کا دروازہ تھا۔ مقامی افراد نے ہمارا استقبال کیا۔ دورازے پر ہی تعارفی سیشن ہوا جس میں بتایا گیا کہ چین کے تانگ شاہی خاندان کے دور سے اس علاقے میں لکڑی کے گودے سے بغیر کسی مشین کی مدد کے ہاتھوں سے کاغذ تیار کیا جاتا ہے۔ یہ فن ایک ہزار سال سے زائد قدیم فن ہے۔ یہ نسل در نسل اس علاقے کے لوگ اپنی آئندہ نسلوں کو منتقل کر رہے ہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہونے جدید ترقی کے باعث لوگوں نے اپنے آپ کو اس فن سے الگ کرنا شروع کردیا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ مارکیٹ میں اس کاغذ کی مانگ میں کمی اور اس سے وابستہ لوگوں کی معاشی مشکلات تھیں۔ چینی حکومت نے اس صورت حال کے پیش نظر اس فن کو ختم ہونے سے بچانے کے لیے سن 2006 میں غیر مادی ثقافتی ورثوں کی فہرست میں شامل کیا۔ اس فن کو زندہ رکھنے کے لیے اس وابستہ لوگوں کو سرکاری سرپرستی میں لیا، اس فن کو آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے اور متعارف کروانے کے لیے’’ پیپر ا سٹریٹ’’ متعارف کروائی۔یوں سرکاری سرپرستی میسر آنے سے یہ فن ختم ہونے سے بچ گیا ہے۔ بہت سے نوجوان اب اسے بخوشی سیکھ بھی رہے ہیں۔
اب اس کاغذ کی تیاری کے حوالے سے کچھ معلومات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ یہ کاغذ شہتوت کے درخت کی چھال سے تیار کیا جاتا ہے۔ اس علاقے میں شہتوت کے درخت ایک کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق شہتوت کی چھال یا لکڑی کی مدد سے تیار کیا جانے والا کاغذ دیرپا، مضبوط اور کیڑے مکوڑوں کا مقابلہ کرنے کی بہتر صلاحیت کا حامل ہوتا ہے۔اس لیے زمانہ قدیم سے اس طریقے سے کاغذ تیار کیا جا رہا ہے۔ یہاں ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ پیلس میوزیم سمیت چین کے کئی تاریخی مقامات پر موجود پینٹنگز موجود ہیں وہ اسی طرح کے کاغذ پر بنائی گئیں ہیں۔کاغذ کی تیاری کے مراحل سب سے پہلے چھال کو بارہ گھنٹے کے لیے پانی میں بھگو دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد جب یہ چھال نرم ہو جاتی ہے تو اس کی بیرونی بران پرت کو کٹر یا چھری کی مدد سے چھیل کر علیحدہ کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد چھال کے نیم سفید حصے کو نرم ہونے تک ابالا جاتا ہے۔ ابلی کو چھال کو ٹھنڈے پانی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ٹھنڈی چھال کو پتھر کی ایک سل کے اوپر لکڑی کے ایک ہتھوڑے کی مدد سے کوٹا جاتا ہے۔ کٹائی کا یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک یہ ابلا ہوا گود اپیسٹ کی شکل اختیار نہ کر لے۔ اس پسیٹ نما گودے کو ایک برتن میں ڈال کر دو گھنٹے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ماہرین کے مطابق یہ عمل خمیر جیسا ہے۔ تقریبا دوگھنٹے کے بعد یہ گودا پانی میں اچھی طرح حل ہو جاتا ہے اور سوپ سے کچھ زیادہ گاڑھے سیال کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس کے بعد اس گودے سے کاغذ کی تیار کا مراحلہ آتا ہے۔
یہ مرحلہ بھی خاصا دلچپسپ ہے۔ اس میں جالی لگے لکڑی کے مختلف سائز کے فریم استعمال ہوتے فریم کا سائز کاغذ کے سائز کے مطابق ہوتا ہے یہ بالکل ہمارے ہاں استعمال ہونے والی آٹا چھاننی یا چائے چھاننی کی طرح کا فریم ہوتا ہے لیکن اس کی شکل مستطیل ہوتی ہے۔ کاغذ تیار کرنے والا شخص اس فریم کو پانی کے حوض کی شکل میں بنی ایک میز پر تیرا دیتا ہے۔ اس کے بعداس فریم میں لکڑی کے گودے والاسیال ڈالا جاتا ہے۔ سیال کو ہموار انداز میں پورے فریم میں پھیلانے کے لیے لکڑی کی مدھانی ہاتھوں کی مدد سے اس میں چلائی جاتا ہے۔ جو گودے کو سارے فریم میں ہموار انداز میں پھیلا دیتی ہے۔ اس کے بعد فریم کو آہستہ سے اوپر اٹھایا جاتا ہے۔پانی جالی سے چھن جاتا ہے اور گودے کی باریک ہموار تہہ جالی کے اوپر باقی رہ جاتی ہے۔ اس جالی کو سوکھنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ درجہ حرارت کے مطابق یہ جالی ایک سے دوگھنٹے میں مکمل سوکھ جاتی ہے۔ اس کو گرم کمرے میں رکھ کر جلد بھی سکھایا جا سکتا ہے۔ مکمل خشک ہونے پر اس جالی والے فریم سے تیار کاغذ کو الگ کر لیا جاتا ہے۔میں نے اس کاغذ کو ایجاد کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کاغذ کی تیاری کے مختلف مراحل میں حصہ لیا اور ایک ’’ تھری سائز کا کاغذ’’ خود تیار کیا۔یہ کاغذ کارخانے کی انتظامیہ نے مجھے بطور یادگار ساتھ لے جانے کے لیے بطور تحفہ دے دیا۔ جو یقینا میرے لیے ایک گراں قدر تحفہ ہے۔ یہ پیپر ا سٹریٹ ایک قدیم فن کو نئی نسلوں تک منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ ٹان شپ میں روزگار کے نئے مواقع کی فراہمی میں بھی مدد گار ثابت ہو رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔