جرمنی کووِڈ جنگ ہار چکا ہے؟
شیئر کریں
اینا ساربری
’ ’ہم اس پر اپنا کنٹرول کھو رہے ہیں‘‘۔ یہ تھے وہ الفاظ جو جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے جنوری کے آخر میں ملکی حالات کے بارے میں ہونے والی ایک خفیہ میٹنگ کے دوران ادا کیے تھے۔ انہوں نے بڑے اختصار سے کام لیا۔ جرمنی میں‘ جس نے اپنا لا ک ڈائون 7 مارچ تک بڑھا دیا ہے‘ صورت حال ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ اکتوبر سے کووڈ کیسز میں اضافہ ہونا شرو ع ہوا تھا جو اب آہستہ آہستہ کم ہونے لگا ہے۔ جرمنی میں اب تک پچاس ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہر طرف سنگین صورتِ حال جاری ہے۔ کیا جرمنی ان عالمی ممالک میں سے ایک نہیں تھا جس نے ابتدا میں ہی کووڈ پر قابو پا لیا تھا؟ کیا جرمنی میں گرمیوں میں ساحلوں پر سیاحوں کی آمد ورفت نارمل نہیں رہی تھی؟ کیا جرمن بچے اگست اور ستمبر میں ا سکولوں میں واپس نہیں آ گئے تھے؟ ہاں! ہاں! مگر جب خزاں کا موسم شروع ہوا تو حالات بگڑنا شروع ہو گئے۔ یہ بدقسمتی نہیں تھی بلکہ سیاست کا شاخسانہ تھا۔
گزشتہ موسم بہار میں جب کووڈ نے پورے یورپ کو روند ڈالا تھا جرمنی کے پالیسی میکرز نے زبردست اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑی تیزی سے کام کیا۔ مارچ میں ا سکول، مارکیٹیں اور ریستوران بند کر دیے گئے تھے اور دو افراد کے ایک جگہ جمع ہونے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ چند ہفتے بعد کووڈ کیسز میں کمی آنے لگی تو اپریل‘ مئی میں پورا ملک آہستہ آہستہ کھلنے لگا۔ موسم گرما ختم ہونے کے بعد پابندیاں برائے نام رہ گئیں اور کووڈ کا بھی خاتمہ ہونے لگا تھا مگر جب خزاں میں کیسز پھر بڑھنے لگے تو پالیسی میکرز وہی حربہ دہرانے میں ناکام رہے۔ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں کیسز اتنے ہی ہو گئے جتنے یہ پہلا لاک ڈائون لگنے کے بعد مارچ میں دیکھے گئے تھے۔ کئی لوگوں نے کیسز میں اضافے کی وجہ زیادہ ٹیسٹو ں کو قرار دیا اور کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد کو بالکل نظر انداز کر دیا اور اس مناسبت سے کوئی عملی اقدام نہ کیا گیا۔
آنے والے ہفتوں میں وائرس نے جرمنی کے اطمینان کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اکتوبر کے آخر تک کووڈ کیسز کی تعداد تین گنا ہو گئی۔ حکومتی ردعمل میں بے دلی نظر آ رہی تھی۔ ریستوران اور بارز تو بند کردیے گئے مگر ا سکول کھلے رکھے گئے۔ اس ہلکی نوعیت کے لاک ڈائون سے صورتحال کسی حد تک کنٹرول ہو گئی تھی مگر کرسمس تک معاملات بہت بگڑ گئے۔ اس موقع پر کیسز میں شدید اضافہ ہونے لگا تو سیاستدانوں نے ایمرجنسی کا اعلان کر دیا اور پورے ملک کو بندکر دیا گیا۔ فیصلہ کرنے میں اس قدر تاخیر ہو گئی کہ جنوری تک بہت سے ہسپتالوں کے آئی سی یو مریضوں سے بھر گئے۔ روزانہ مرنے والوں کی تعداد ابتدائی لہر کے مقابلے میں چار گنا ہو گئی۔ جنوری کے وسط تک فی لاکھ مرنے والوں کی تعداد امریکا کی شرح اموات سے بھی بڑھ گئی۔ بزرگ شہریوں کو سب سے زیادہ تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ نوے فیصد مرنے والوں کی عمریں ستر سال یا اس سے زیادہ تھیں۔ ایک ایسا ملک جس کی کووڈ سے نمٹنے کی صلاحیت کو دنیا بھر میں سراہا گیا تھا‘ افسوسناک صورت حال میں گھر گیا تھا۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کا مختصر سا جواب ہے سیاست۔
2021ء میں جرمنی کی چھ ریاستوں میں الیکشن ہونے والے ہیں اور پھر ستمبر میں قومی الیکشن منعقد ہوں گے۔ اگر کسی موقع پر سیاسی رسک لینے کا وقت تھا بھی اور اگر کسی ناقابل یقین فائدے کے لیے شہریوں کو ان کی آزادیوں سے محروم کرنے کے لیے کوئی بڑا رسک لیا بھی جا سکتا تھا تو وہ کسی بڑے الیکشن والے سال کا وسط نہیں ہو سکتا تھا۔
گزشتہ موسم بہار میں کورونا وائرس کے سنگین خطرے کے پیش نظر انتخابی پروسیس کو عارضی طور پر معطل کر دیا گیا تھا مگر اب ویسی صورت حال نہیں ہے۔ اگرچہ کووڈ کے ختم ہونے کا ابھی دور دور تک نام و نشاں بھی نظر نہیں آتا مگر اب وقت آ گیا ہے کہ کسی قسم کا کمپرومائز کرنے کے بجائے انفرادی سیاسی کردار پر توجہ دی جائے، اجتماعی فلاح عامہ کے بجائے مقامی ووٹرز کے مخصوص مفادات کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے۔
سیاسی تحفظات پر توجہ دینے کا وقت دوبارہ آ گیا ہے۔ وہی تحفظات جو سولہ ریجنل گورنرز کے باہمی تنازعات اور گورنرز اور چانسلر کے مابین پائی جانے والی کشیدگی کے دوران پیدا ہوئے تھے۔ جرمنی میں سست رفتاری سے پابندیوں کو متعارف کرانے کی ایک وجہ یہ تھی کہ ریجنل سربراہان یہ سمجھتے تھے کہ چانسلر انجیلا مرکل اپنے اختیارات کی نمائش کرنے کے لیے ان پر دھونس بازی سے کام لے رہی ہیں۔
انتہائی بھونڈے انداز میں ویکسین متعارف کرانے کی کوشش نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا۔ یورپی یونین‘ جس نے کورونا ویکسین کے معاہدے کرنے میں سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کیا ہے‘ کا حصہ ہونے کی وجہ سے جرمنی نے بھی اپنے عوام کو ویکسین لگانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ فی الحال صرف چار فیصد جرمن شہریوں کو ویکسین لگائی جا سکی ہے۔
جب ویکسین بنانے والی سب سے بڑی کمپنی آسٹرازینیکا نے جنوری میں یہ اعلان کر دیا کہ وہ یورپی یونین میں شامل ممالک کو ویکسین کی سپلائی روک رہی ہے تو ایک سیاسی جنگ شروع ہو گئی۔ ممالک، مخلوط حکومتوں میں شامل سیاسی جماعتوں اور وزرائے صحت‘ سب نے ایک دوسرے پر یا پھر انجیلا مرکل اور برسلز پر الزام تراشی کا سلسلہ شروع کر دیا۔ جرمن شہری اپنے بزرگ عزیز واقارب کو ویکسین لگوانے کا وقت لینے کے لیے مارے مارے پھر رہے تھے۔
ماضی کے چند مہینوں کی ناکامی کے بعد جرمنی پھر سے ایک میراتھن میں شامل ہے اور فنش لائن کے قریب تر پہنچنے کے لیے ایک مختلف اپروچ پر عمل کر رہا ہے۔ ماہرین کا ایک گروپ ایک ایسی حکمت عملی کو فروغ دینے میں مصروف ہے جسے No Covid کا نام دیا گیا ہے۔ اس پالیسی کے مطابق جن علاقوں میں روزانہ ایک لاکھ افراد میں 10 سے کم کورونا کیسز نہیں نکلیں گے‘ وہاں سے لاک ڈائون ختم نہیں کیا جائے گا۔
اس کے لیے قربانیوں کی ضرورت ہو گی مگر اس حکمت عملی کے نتیجے میں الیکشن والے پورے سال میں ہم ایک لاک ڈائون سے نکل کر اگلے لاک ڈائون کی طر ف جا رہے ہوں گے؛ تاہم جب تک کورونا کیسز کی تعداد تسلی بخش سطح تک نہیں آ جاتی ان پابندیوں کو طول دینے کے لیے بڑے حوصلے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ ہفتے لاک ڈائون میں توسیع کے فیصلے سے پتا چلتا ہے کہ شایدکئی سیاستدان جرا?تمندانہ اقدام کرنے کے لیے تیار ہوں مگر کیا ان کے اعصاب اس قدر مضبوط ہیں کہ جوں جوں انتخابی مہم ااگے بڑھے گی وہ ان پر آسانی سے قابو رکھ سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔