یوم جمہوریہ پر تشددکا ذمہ دار کون؟
شیئر کریں
گزشتہ 26جنوری کو یوم جمہوریہ کے موقع پر دہلی میں جو کچھ ہوا وہ ناقابل یقین تھا۔ میں گزشتہ 44 برسوں سے اس شہر کا باشندہ ہوں اور کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یوم جمہوریہ کی پریڈ کے دوران جبکہ دہلی میں پرندے کو بھی پر مارنے کی اجازت نہیں ہوتی ، ایسے دلخراش مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔ یہ راجدھانی دہلی ہے جہاں کا نظم ونسق تمام شہروں سے زیادہ چاق وچوبندہے اور خاص مواقع پر تو یہاں کے نظارے ہی مختلف ہوتے ہیں، لیکن اس برس26 جنوری پر جو کچھ دیکھنے کو ملا اس سے یہ اندازہ ضرور ہوگیا کہ نظم ونسق کی مشینری لوگوں کے کپڑوں کو دیکھ کر ہی حرکت میں آتی ہے اور جب کبھی اس کا واسطہ ’’ اپنے‘‘ لوگوں سے پڑتا ہے تو اس کے ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جہاں ایک طرف پولیس کے جوان لاٹھیاںاور آنسو گیس چھوڑرہے تھے تو دوسری طرف کچھ جوان ایسے بھی تھے جو تشدد پرآمادہ مظاہرین سے ہاتھ جوڑکررحم کی بھیک رہے تھے۔اس دھینگا مشتی میں پولیس کے 400جوانوں کے زخمی ہونے کی خبر ہے۔ کسانوں نے رکاوٹوںکو بہت آسانی کے ساتھ اکھاڑ پھینکااور اپنے آپ کو روکنے کے لیے لگائی گئی جے سی بی مشینوں کی مدد سے ہی رکاوٹیں عبور کیں۔ کچھ مقامات پر یا تو پولیس موجود ہی نہیں تھی یاپھر وہ دور سے تماشا دیکھ رہی تھی۔دہلی کے پولیس کمشنر نے اسے غیرمعمولی صبروتحمل کا نام دیا ہے۔ کاش اس قسم کے صبر وتحمل کا مظاہرہ گزشتہ سال شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوںکے ساتھ بھی کیا جاتا۔
بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ ملک کی سب سے بڑی قومی تقریب کے موقع پر کسانوں کا طرز عمل قوم کو رسوا کرنے والا تھا۔ وہ کسان جو گزشتہ دوماہ سے پرامن احتجاج کررہے، اچانک تشدد پر کیوں آمادہ ہوگئے اور انھوں نے ایک قومی تقریب کو سبوتاژکرنے کے لیے پورے شہر میں افراتفری کا ماحول کیوں پیدا کردیا ؟۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا کسانوں کی تحریک کو بدنام کرنے کی کوئی سازش تھی یا سب کچھ اچانک ہی ہوگیا۔ احتجاج میں شامل تحریک کے لیڈروں نے خود کو اس سے علیحدہ کرلیا ہے اور اسے نامناسب عمل سے تعبیر کیا ہے۔پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹریکٹروںپر سوار وہ لوگ کون تھے جنھوں نے دہلی میں افراتفری مچائی اور لال قلعہ کی فصیل پر ’ نشان صاحب ‘ لہرادیا۔ یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ لال قلعہ کی یہ فصیل ہمارے ملک میں اقتدار کی ایک علامت تصور کی جاتی ہے۔ ہرسال یوم آزادی کے موقع پر وزیراعظم یہاںقومی پرچم لہراتے ہیںاور یہاں سے قوم کو خطاب کرتے ہیں۔مغل بادشاہ شاہجہاں کے تعمیرکیے ہوئے اس قلعہ کی ایک الگ ہی شان ہے۔ لیکن گزشتہ 26جنوری کو اسی لال قلعہ میں افراتفری اور لاقانونیت کے جو نظارے دیکھنے کو ملے اس نے موجودہ صاحبان اقتدار کا بھرم خاک میں ملا دیا ہے۔کہا جارہا ہے کہ ایس ایف جے نے لال قلعہ پر جھنڈا پھیرانے والے کو ڈھائی لاکھ ڈالر دینے کا اعلان کیا تھا۔کہا جارہاہے کہ لال قلعہ کی فصیل پر جھنڈا پھیرانے والے نوجوان دیپ سندھو کا تعلق حکمراں بی جے پی سے ہے اور وہ گرداس پور سے منتخب بی جے پی ممبرپارلیمنٹ سنی دیول کا الیکشن انچارج تھا۔بہرحال اس بات کا احتمال ہے کہ لال قلعہ کا واقعہ کسانوں کی تحریک کو بدنام کرنے کے لیے ہی انجام دیا گیا ہو۔عام آدمی پارٹی نے اس کا الزام حکومت ، آرایس ایس اور خفیہ ایجنسیوں کے سر ڈالا ہے۔
افراتفری اور دھینگامشتی کے مناظر صرف لال قلعہ میں دیکھنے کو نہیں ملے بلکہ دہلی کے پولیس کمشنر کی ناک کے نیچے آئی ٹی او پر بھی ایسا ہی نظارہ تھا۔دہلی پولیس کی طرف سے درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ٹریکٹر پریڈ کے دوران آئی ٹی او علاقے میں600ٹریکٹروں پر سواردس ہزار سے زیادہ کسان مظاہرین داخل ہوئے اور انھوں نے لوہے کی 70 رکاوٹوں کو تہس نہس کردیا۔ٹریکٹروں نے ڈی ٹی سی کی بسوں کو ٹکر ماری اور پولیس والوں کو کچلنے کی کوشش کی۔ چھ بسوں اور پولیس کی 30 گاڑیوں کو توڑدیا گیا۔آئی ٹی او ایک میدان جنگ جیسا نظرآرہا تھا جہاں مشتعل مظاہرین گاڑیوں کو توڑ پھوڑرہے تھے۔ اس معاملے میں پولیس نے 25سے زیادہ ایف آئی آر درج کی ہیں۔ ان میں یوگیندریادو اور میگھا پاٹیکر سمیت 37 کسان لیڈروں کے نام ہیں۔ دیپ سندھو کو بھی ملزم بنایا گیا ہے۔
پولیس نے کسانوں کو دوپہر بارہ بجے ٹریکٹر پریڈنکالنے کی اجازت دی تھی، لیکن وہ صبح آٹھ بجے ہی سڑکوں پر نکل آئے اور ان کو روکنے کے لیے سڑکوںپر لگائی گئی رکاوٹیں اور بندشیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ پولیس کا پورا بندوبست چرمرا گیا۔ پولیس کا بیشتر عملہ یوم جمہوریہ کی پریڈ کے انتظامات میں مصروف تھا اور کسانوںکو قابو میں کرنے کے لیے اضافی فورس طلب کی گئی تھی، لیکن جب کسان اپنے ہزاروں ٹریکٹروں کے ساتھ دہلی کی سڑکوں پر نکلے تو پولیس کے ہاتھ پائوں پھول گئے اور وہ پوری طرح لاچار اور مجبور نظرآئی۔ حالانکہ یہ وہی دہلی پولیس تھی جس نے گزشتہ سال جامعہ میں معمولی تشدد کے بعد طلباء کو ایسا سبق سکھایا تھا کہ وہ اب تک اپنے زخموں کو سہلارہے ہیں۔لائبریری میں مطالعہ کررہے طلباء پر اندھا دھند لاٹھیاں برسائی گئی تھیں اور انھیں لائبریری کی عمارت میں محبوس کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
تین زرعی قوانین کے خلاف کسان پچھلے دو مہینے سے دہلی کا محاصرہ کیے ہوئے ہیں۔ یہ احتجاج بہت منظم اور مستحکم ہے۔کسانوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت ان قوانین کو واپس لے اور کسانوں کو سراٹھاکر جینے کا موقع فراہم کیا جائے۔ لیکن حکومت اپنے موقف پراٹل ہے اور وہ انھیں واپس لینے سے انکار کرہی ہے۔ اس تعطل کو دور کرنے کے لیے حکومت کے کارندوں اور کسان لیڈروں کے درمیان مذاکرات کے ایک درجن دور ہوچکے ہیں۔ تمام کوششوں کے باوجود معاملہ جوں کا توں ہے کیونکہ نہ کسان اپنے مطالبات سے دستبردار ہونے کو تیارہیں اور نہ حکومت ٹس سے مس ہورہی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس ڈیڈلاگ کا نتیجہ کیا ہوگا اور یہ مسئلہ کیسے حل کیا جائے گا۔ حکومت نے اس کو انا کا مسئلہ بنالیا ہے اور کسان اسے اپنے وجود کی جنگ مان رہے ہیں۔ دونوں میں سے کوئی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔ اس صورتحال پر بشیربدر کا یہ شعر صادق آتا ہے۔
کوہ انا کی برف تھے، دونوں جمے رہے
جذبوں کی تیزدھوپ میں پگھلا نہ تو نہ میں
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ ہرسال یوم جمہوریہ کے موقع پر راج پتھ پر نکلنے والی پریڈ میں ملک کی دافاعی قوت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور لڑاکا طیاروں کی ریہرسل کے ساتھ ساتھ ٹینکوں اور دیگر جنگی آلات کی نمائش کی جاتی ہے۔ ہرسال اس پریڈ میں کسی بیرونی ملک کا سربراہ بطور مہمان خصوصی شرکت کرتا ہے ، لیکن اس بار یہ پریڈ کسی بیرونی مہمان کے بغیر منعقد ہوئی کیونکہ برطانوی وزیراعظم نے کووڈ کی وجہ سے شرکت سے معذوری ظاہر کردی تھی۔ عام خیال یہ ہے کہ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے اپنا دورہ کسانوں کی تحریک کی وجہ سے منسوخ کیا۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ یوم جمہوریہ کی پریڈ میں جس وقت دفاعی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا جارہا تھا اور فرانس سے درآمد کیے گئے انتہائی مہنگے جنگی طیارے رافیل کی پرواز فضا میں جاری تھی تو ٹھیک اس وقت دہلی کی سڑکوں پر ہزاروں ٹریکٹر حکومت کی داخلی طاقت کو ٹھینگا دکھارہے تھے۔
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگر کسی قانون سے کسانوں کے مفادات متاثر ہورہے ہیںاور انھوں نے اسے جینے مرنے کی لڑائی بنالیا ہے تو پھرکیا وجہ ہے کہ حکومت ان متنازعہ قوانین کو واپس لینے پرتیار نہیں ہے؟اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی عوامی مفادات اور توقعات کو نظر میں رکھ کر ہی کی جاتی ہے۔کوئی بھی حکومت عوام سے بڑی نہیں ہوتی اوران ہی کے ووٹوں سے اقتدار میں آتی ہے۔عوام کے پاس ہی حکومت کا تختہ پلٹنے کی طاقت ہوتی ہے، لیکن یہ پہلی ایسی سرکار ہے جسے عوامی مفادات سے کوئی سروکار نہیں ہے اور وہ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کے سامنے سب کو ڈھیر کرنے پر آمادہ ہے۔ پچھلے برس اسی دہلی میں جب شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی کے خلاف پرامن مظاہرے ہورہے تھے اور تفریق پر مبنی سی اے اے قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا جارہا تھا تو حکومت نے کسی کی نہیں سنی۔جو لوگ اس تحریک میں پیش پیش تھے، انھیں سبق سکھایا گیا۔ تقریباً سبھی سرکردہ سماجی اور سیاسی کارکنوں کو نارتھ ایسٹ دہلی کے فساد میں ماخوذ کرکے جیل بھیج دیا گیا اور حکمراں جماعت کے جن لوگوں پر اس فساد کو بھڑکانے کا الزام تھا انھیں کلین چٹ دے دی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔