’مسلم بین‘ ختم ہو چکا ہے
شیئر کریں
(مہمان کالم)
ٹائی میکارمک
30 مئی 2019ء کو عبدالرحمن احمد اپنی کلاس میں بیٹھا امتحان کی تیاری کر رہا تھا مگر اس کے ہمسایوں نے دیکھا کہ اس کی بے جان لاش شمالی کینیا میں واقع داداب مہاجر کیمپ میں ایک بیم کے ساتھ لٹک رہی تھی۔ اس نے خودکشی کر لی تھی۔ ریت کے سمندر میں ترپال کے بنے ان عارضی گھروں میں دو لاکھ سے زائد مہاجر رہائش پذیر ہیں جہاں پانی ہے نہ بجلی۔ یہ کیمپ 1992ء میں قائم ہوا تھا جب صومالیہ میں خانہ جنگی ہوئی تو مہاجرین سرحد پار کرکے کینیا میں پناہ لینے لگے۔ انتیس سال بعد بھی کیمپ کے صومالی مہاجرین‘ جن میں ان کی دوسری اور تیسری نسل شامل ہے‘ کو اس کیمپ سے باہر ملازمت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ وہ اپنے مستقل مکان بھی تعمیر نہیں کر سکتے کیونکہ ایسا کرنے سے وہ سرکاری ریکارڈ میں عارضی مہاجر کے ا سٹیٹس سے محروم ہو جائیں گے۔ عبدالرحمن‘ جس کی عمر چھبیس سال تھی‘ داداب کے مہاجر کیمپ میں ہی جوان ہوا تھا اور تعلیم کے ذریعے اپنا مستقبل سنوارنا چاہتا تھا۔ وہ ایک ذہین ا سٹوڈنٹ تھا۔ اس کے ساتھی اسے قذافی (لیڈر) کہا کرتے تھے‘ اس لیے نہیں کہ اس میں معمر قذافی جیسی صفات پائی جاتی تھیں بلکہ اس لیے کہ اس کے اندر اپنے ساتھیوں کی قیادت کرنے کی صلاحیت موجود تھی۔ داداب کے مہاجرین سالہا سال سے ایک امید پر زندہ تھے۔ بیرونِ ملک، یورپ، کینیڈا یا امریکا میں آباد کاری کی امید! داداب میں رہنے والے ہزاروں مہاجرین امریکا میں آباد ہو چکے ہیں۔ 2015ء میں ہی تین ہزار سے زائد مہاجر امریکا میں آباد ہوئے۔ سہانے مستقبل کے یہ سپنے اس وقت چکنا چور ہوگئے جب 27 جنوری 2017ء کو نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک حکم نامہ جاری کیا اور صومالیہ سمیت سات مسلم ممالک کے مہاجرین کے امریکا آنے پر پابندی لگا دی۔ اس پابندی سے مہاجرین کے لیے اس ملک کے دروازے بند ہو گئے جو چار عشروں میں تیس لاکھ سے زائد مہاجرین کو اپنے ہاں مستقل پناہ دے چکا تھا۔ جب صدر ٹرمپ نے یہ پابندی لگائی تو داداب کے دو لاکھ مہاجرین میں سے چودہ ہزار افراد کے امریکا میں آباد کاری کے کیس پائپ لائن میں تھے مگر اگلے دو سال میں صرف بائیس مہاجرین کو امریکا میں آباد ہونے کی اجازت مل سکی۔ حتیٰ کہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا مہاجرین کو بھی امریکا میں علاج کی سہولت تک نہیں دی گئی؛ اگرچہ ایک فیڈرل جج نے صدر ٹرمپ کے حکم نامے کی بعض شقیں معطل کر دی تھیں اور کچھ مہاجرین کو امریکا آنے کی اجازت مل گئی تھی مگر زیادہ تر آباد کاری کا یہ سلسلہ معطل رہا۔ تیس ستمبر تک کے مالی سال میں صرف 11 ہزار 814 مہاجرین کو امریکا میں آباد کیا گیا جبکہ 2016ء میں امریکا آنے والے ان مہاجرین کی تعداد 85ہزار تھی۔ یہ بارک اوباما کی مدتِ صدارت کا آخری سال تھا۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ 1980ء میں جب اس سکیم کا آغاز ہوا تھا‘ یہ امریکا میں آباد ہونے والوں کی سب سے کم تعداد تھی۔ جب میں نے جون 2019ء میں داداب مہاجر کیمپ کا دورہ کیا تھا تو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ صدر ٹرمپ کے ’’مسلم بین‘‘ کے حکم نامے کے داداب مہاجر کیمپ پر کس قدر سنگین اثرات مرتب ہوئے تھے۔ میں جہاں بھی گیا‘ مجھے مہاجرین نے بتایا کہ وہ اور ان کے عزیزو اقارب اب کسی دوسری جگہ آباد کاری کے سلسلے میں سخت مایوسی کا شکار ہو چکے ہیں اور اب وہ ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ اب یہ تمام مہاجرین یا تو داداب کے اسی کیمپ میں اپنی باقی ماندہ زندگی گزارنے کے لیے خود کو تیار کر رہے تھے یا پھر سوچ رہے تھے کہ اپنے آبائی ملک صومالیہ واپس چلے جائیں۔
عبدالرحمن احمد کے ا سکول کے پرنسپل ایلیس نڈونگا نے مجھے بتایا ’’جب سے ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر بنے ہیں‘ اب وہاں آباد ہونے کا معاملہ تو سرے سے ختم ہو گیا ہے۔ اب مہاجرین کہیں بھی نہیں جا سکتے۔ نہ کسی جگہ آباد ہو سکتے ہیں اور نہ کسی جگہ ملازمت کر سکتے ہیں‘‘۔ کینیا کی مغربی سرحد کے قریب واقع کیکوما مہاجر کیمپ میں‘ جہاں ڈھائی لاکھ مہاجر پناہ گزین ہیں اور ان میں سے زیادہ تر سوڈانی مہاجرین ہیں‘ صدر ٹرمپ کی طرف سے مسلمانوں پر سفری پابندیاں لگنے کے بعد سولہ مہینوں میں نو مہاجر خودکشی کر چکے تھے۔ وہاں کی صورت حال اس قدر سنگین ہو چکی تھی کہ امدادی کارکنوں نے ان کیمپوں میں موجود تاریں، بیٹریوں میں ڈالنے والا تیزاب اور دیگر مہلک اشیا کو ضبط کر نا شروع کر دیا تھا۔ جب صدر ٹرمپ کی جانب سے پابندی لگنے کے بعد امریکا کے دروازے بالکل بند نظر آئے تو کیکوما اور داداب کے کیمپوں میں پناہ گزیں مہاجرین نے متبادل راستوں کی تلاش شروع کر دی۔ عبدالرحمن احمد نے کینیڈا میں تعلیم کے حصول کے لیے ا سکالر شپ کی تلاش شروع کر رکھی تھی۔ جو لوگ بھی اس سے واقف تھے‘ ان کا کہنا ہے کہ عبدالرحمن نے اپنی منزل کے حصول کے لیے دن رات ایک کیے ہوا تھا۔ اس کے والدین صومالیہ واپس جا چکے تھے مگر وہ ابھی تک داداب کے مہاجر کیمپ میں ہی مقیم تھا اور اپنا ہائی سکول گریڈ بہتر کرنے میں مصروف تھا۔ ایک سال پہلے نیشنل ہائی ا سکول کے امتحان میں عبدالرحمن کا گریڈ اتنا اچھا نہیں ا?یا تھا۔ اس کی توقعات سے کہیں کم! وہ اس مہاجر کیمپ میں اکیلا ہی رہتا تھا اور اپنی تعلیم کے لیے ایک ایک لمحہ بروئے کار لا رہا تھا۔ اس کے پرنسپل نڈونگا نے مجھے بتایا کہ وہ کئی مرتبہ صبح ساڑھے پانچ بجے ہی سکول پہنچ جاتا تھا اور کبھی شام سے پہلے ا سکول سے نہیں جاتا تھا۔ ا سکول میں کام کرنے والے ایک بزنس منیجر رمضان ابراہیم نے مجھے بتایا کہ وہ زیادہ تر کسی دوسری جگہ آباد ہونے کی بات کیا کرتا تھا۔ وہ ایک بہتر زندگی کے لیے داداب کیمپ کو چھوڑنا چاہتا تھا۔ جب اسے کینیڈا میں بھی پڑھنے کے لیے ا سکالر شپ نہ مل سکہ تو اس نے اپنی جان لے لی۔ خود کشی سے پہلے اس نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ وہ اپنی خواہشات پوری نہ ہونے کی وجہ سے ایسا کرنے پر مجبور ہوا ہے۔
اپنا منصب سنبھالنے کے فوراً بعد صدر جو بائیڈن نے صدر ٹرمپ کے سفری پابندی کے حکم نامے کو منسوخ کر دیا۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران جو بائیڈن نے وعدہ کیا تھا کہ امریکا میں آباد ہونے کے خواہش مند مہاجرین کی تعداد کو پندرہ ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ پچیس ہزار کر دیا جائے گا۔ ان کے اس وعدے کی تکمیل کی طرف پہلا اقدام ہی دراصل امریکا کے مہاجرین کی آباد کاری کے لیڈر کا کردار بحال کر دے گا مگر صدر ٹرمپ کے اس تباہ کن اور مہاجر دشمن اقدام کی بازگشت عرصے تک مہاجرین کی نسلوں میں بھی سنائی دیتی رہے گی۔ مہاجرین کی آباد کاری کے اس مسئلے کی تلافی کو شاید کئی سال کا عرصہ لگ جائے۔ اب امید کی جا سکتی ہے کہ مہاجرین کی چوتھی اور پانچویں نسل داداب جیسے مہاجر کیمپوں میں نہیں پیدا ہو گی۔ اس کوشش کو عبدالرحمن جیسے ہونہار بچوں کے لیے کافی تاخیر ہو چکی ہو گی جس کے خواب امریکا کے سیاہ دور میں شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے مگر اس جیسے دیگر بچوں کے لیے امید کی کرن ضرور روشن ہو جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔