میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اسلامی عسکری اتحاد۔۔۔ کیا تاخیر ہوچکی؟

اسلامی عسکری اتحاد۔۔۔ کیا تاخیر ہوچکی؟

منتظم
بدھ, ۱۱ جنوری ۲۰۱۷

شیئر کریں

محمد انیس الرحمن
پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف کے حوالے سے خبر آئی ہے کہ انہوں نے اسلامی اتحادی فوج کی کمان سنبھال لی ہے۔عالمی دہشت گردی کے خلاف تشکیل کردہ اس عسکری اتحاد کا جب باقاعدہ اعلان کیا گیا تھا اس وقت اس اتحاد میں شامل مسلم ملکوں کی تعداد 33 تھی جو بعد میں 42تک جاپہنچی ۔اس اہم عسکری اتحاد کے لیے ایک پاکستانی جنرل کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ اس حوالے سے معاملات کئی رخ لیے ہوئے ہیں ہم یہاں پاکستان اور پاکستانی کمانڈر کی بحث میں پڑے بغیر اس عسکری اتحاد کے مستقبل کے حوالے سے بات کریں گے کہ جس خطے میں یہ اتحاد تشکیل دیا گیا ہے آنے والے وقت میں یہ اس میں کتنا کارآمد ہوگا۔
”اسلامی اتحاد“ کا تصورچاہے سیاسی سطح پر ہو ، اقتصادی شکل میں ہو یا اب عسکری شکل میں اُبھر کر سامنے آیا ہو، عام مسلمان کئی دہائیوں سے اسے خواب کی شکل میں دیکھتے آئے ہیں، اس لیے یہ ان کے لیے انتہائی خوش کن نعرہ ہے۔ اسی حوالے سے علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ ع
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر
اس لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ اتحاد امت کا خواب نیا نہیں ہے بلکہ 1924ءمیں سقوط خلافت کے بعد سے مسلمان اسے مختلف شکلوں میں دیکھتے رہے اور اکابرین امت اسلامی دنیا کے مختلف حصوں میںاس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے اپنی زندگیاں کھپاتے رہے ہیں۔لیکن نومبر 1915ءمیں ”سایکس پیکوٹ معاہدہ“ کے تحت خلافت اسلامیہ کے جغرافیائی ترکے کی بندربانٹ کے نتیجے میں ظاہر ہونے والی علاقائی حکومتوں نے اتحاد امت کی کوششوں کو اپنی اپنی حکومتوں کے لیے خطرہ تصور کیا۔ یہی وہ معاہدہ تھا جس نے مسلمانوں کے درمیان سرحدی دیواریں کھینچیں۔ برطانیہ اور فرانس کے درمیان یہ خفیہ معاہدہ برطانوی سفارتکار سر ٹیٹون بینوینیٹو مارک سایکس SirTatton Benvenuto Mark Sykesاور اس کے فرانسیسی ہم منصب فرانسوا پیکوٹFrançois Georges-Picot کے درمیان طے پایا تھا جس کی نسبت سے اسے سایکس پیکوٹ معاہدے Sykes–Picot Agreement کا نام دیا گیا تھا۔ بعد میں اس معاہدے کی توسیع کے لیے برطانیہ کی طرف سے اس وقت کے وزیر خارجہ سر ایڈورڈ گرے Sir Edward Greyاور فرانس کی جانب سے اس وقت برطانیہ میں فرانسیسی سفیر S.E. M. Paul Cambon نے دستخط کیے تھے۔اس خفیہ معاہدے کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان طے پایا تھاکہ خلافت اسلامیہ کے خاتمے کے بعد اس کے ترکے خصوصا مشرق وسطی کو آپس میں کس طرح انتظامی طور پر تقسیم کیا جائے گا۔ زار روس سے وعدہ کیا گیا تھا کہ روس کی شمولیت کے نتیجے میں قسطنطنیہ (استنبول) روس کے حوالے کردیا جائے گا کیونکہ تاریخ میں یہ شہر مشرقی آرتھوڈکس عیسائیت کا مرکز تھا مسلمانوں کے اس شہر کو فتح کرنے کے بعد یہ مرکز قسطنطنیہ سے ماسکو منتقل ہوگیا تھااور روسی تاحال اس شہر کی بازیابی کا خواب دیکھتے تھے جس سے برطانیہ اور فرانس پوری طرح آگاہ تھے۔ لیکن جیسے ہی 1917ءکے شروع میں برطانیہ اور فرانس کو اس میں کامیابی حاصل ہوئی ایک منصوبے کے تحت زار روس کے خلاف روس میں بالشیوک انقلاب برپا کروا دیا گیا بادل نخواستہ زار روس کو خطے سے فوجیں واپس بلانا پڑیں مگر اب خاصی دیر ہوچکی تھی۔ ۔۔
فرانس اور برطانیہ کے درمیان مسلمانوں کے علاقوں کی اس بندربانٹ کا خفیہ معاہدہ شاید منظر عام پر نہ آتا اگر ماسکو میں زار روس کا تختہ الٹ کر کمیونسٹ انقلابی حکومت پر قبضہ نہ کرلیتے۔ کمیونسٹ انقلابیوں نے زار روس کے آفس کے ریکارڈ سے سایکس پیکوٹ معاہدے کی وہ دستاویز حاصل کرلی جس میں زار روس سے قسطنطنیہ کی حوالگی کا معاہدہ کیا گیا تھابالشیوک انقلابیوں نے اس دستاویز کو عام کرکے برطانیہ اور فرانس کے درمیان خفیہ معاہدے کا بھانڈا تمام دنیا کے سامنے پھوڑ دیا جس کی وجہ سے فرانس اور برطانیہ کے ساتھ ساتھ امت کے خائن شریف حسین مکہ اور اس کی اولاد کو بھی خاصی خفت اٹھانا پڑی تھی جبکہ ترکوں نے اس انکشاف پر خوشیاں منائیں ۔اس ساری تمہید کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ جہاں اس قسم کے معاملات ترتیب پاچکے ہوں وہاں اتحاد امت کا خواب کس طرح شرمندہ تعبیر ہوتا؟ بعد میں اسی خواب کے بطن سے کبھی او آئی سی نے جنم لیا تو کہیں یہی خواب علاقائی طورپر عرب لیگ کے قیام کا سبب بھی بنا تھالیکن یہ تنظیمیں کبھی مسلمانوں کے مشترکہ مقاصد کے حصول میں کامیاب نہ ہوسکیں کیونکہ ان تنظیموں کی باگ دوڑ ان ہی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے خاندانوں کو” سایکس پیکوٹ معاہدے“ کے تحت علاقائی حکومتیں تفویض کی گئی تھیں۔ یہ اس تاریخی رومن قانون کے مطابق تھا جس کے تحت مفتوحہ علاقوں پر مقامی لوگوں کے ذریعے حکومت کی جاتی ہے۔۔۔۔۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس سارے ”بندوبست“ کے تحت مسلمانوں کے درمیان اتحاد ممکن تھا؟
اوپر بیان کردہ ماضی کا وہ تاریخی بیانیہ تھا جس کے تحت عالمی اقتدار کی منتقلی یورپ سے امریکا کو ہورہی تھی اب ہم مستقبل کی تاریخ کی جانب آتے ہیںاور دیکھتے ہیں کہ آج کے اس تاریخی مرحلے میں اسلامی عسکری اتحاد کیا کردار کرسکے گا ؟ یا او آئی سی یا عرب لیگ کی طرح ہوا میں تحلیل رہے گا؟ان تمام عوامل کو سمجھنے سے پہلے اس بات کا بھی تعین کر لینا چاہئے کہ موجودہ عالمی جنگی صورتحال میں اصل حریف کون ہیں؟ اس لحاظ سے یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ اس جنگ کے اصل حریف روس اور اسرائیل ہیںجبکہ اسرائیل کی جانب سے متحرک کردار امریکا ادا کررہا ہے۔ مرحلہ واشنگٹن سے یروشلم ”عالمی اقتدار“کی منتقلی کا ہے۔ اس کے لیے نہ صرف خطے پر بلکہ یہاں کے معدنی اور تیل کے ذخائر پر عملی طور پر اسرائیل کی مکمل اجارہ داری ضروری ہے۔شدید ردعمل روس اور چین کی جانب سے آنا ہے جن کی معاشی شاہراہ پر مشرق وسطیٰ واقع ہے۔ اس کے بغیر روس اور چین کو افریقہ میں بھی معاشی رسائی حاصل نہیں ہوسکے گی۔ اس حوالے سے داخلی طور پر اسلامی جہادی تحریکیں اسرائیل کی دجالی سامراجیت کے خلاف بھرپور کردار ادا کرسکتی ہیں۔ انہی امکانات کے خاتمے کے لیے پہلے اس خطے کو دہشت گردی اورفرقہ ورانہ پراکسی جنگ میں جھونکا گیا ہے ۔ داعش کو تخلیق کیا گیا اور اس کے ذریعے دنیا کے سامنے اسلامی نظام حکومت کی ”انتہائی خوفناک شکل “ پیش کی گئی۔ اس تنظیم کے ذریعے ان جہادی گروپوں کے خلاف کارروائی کرائی گئی جو شام کی بشار حکومت کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ اس جنگ میں شام اور عراق کو مکمل طور پر تباہ کردیا گیا۔ ایران کو مصالحت کا جھانسہ دے کر خطے میں کھلی مداخلت کی چھٹی دے دی گئی یوں جلتی پر تیل کا کام کیا گیا ۔ اس سارے منظرنامے میں ترکی بھی ایک اہم فریق ہے ۔ وہ ترکی جو نیٹو کا حصہ ہے جبکہ نیٹو کی تشکیل سوویت یونین کا عسکری سامنا کرنے کے لیے عمل میں لائی گئی تھی۔ اچانک ایک ”ناکام فوجی بغاوت“ کے سبب ترکی نوے ڈگری کے زاویہ پر روس کی جانب اپنا رخ کرلیتا ہے۔ اب ترکی کا موقف ہے کہ داعش امریکا کی تخلیق ہے۔۔۔ !! ایسا کیوں کہا گیا؟ حقیقت یہ ہے کہ ترک لیڈر طیب اردگان روز اول سے جانتے تھے کہ داعش امریکا اور برطانیہ کی تخلیق ہے، کیونکہ مغرب سے شام اور عراق میں داخل ہونے والے داعش کے عناصر ترکی کی سرزمین ہی عبور کرکے جنگ زدہ علاقوں میں داخل ہوتے تھے، ان سب کو وہاں سے گزرنے کی کون سہولت فراہم کرتا رہا تھا؟ یقینا ترکی۔۔۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ طیب اردگان اپنے خلاف فوجی بغاوت سے پہلے سے آگاہ تھے۔۔۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اس میں امریکا کا ہاتھ ہے، انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ ترک صوفی لیڈر گولن کو اس سازش میں استعمال کیا جارہا ہے !! یہ حقیقت بھی کسی وقت کھل کر دنیا کے سامنے آجائے گی کہ گولن اور ان کے دوسرے اتحادی جو اردگان کے طرز حکومت کے مخالف ہیںدھوکے سے امریکا اور اس کے دجالی عسکری اتحاد نیٹو کے ہاتھوں قربانی کا بکرا بنائے گئے ہیں۔۔۔۔ اس میں شک نہیں کہ ناکام فوجی بغاوت نے اردگان کو مزید مضبوط بنایا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ترکی کئی قسم کی سیاسی پیچیدگیوں کا شکار بھی ہوچکا ہے۔ ”ناکام انقلاب“ کے بعد ترک لیڈر نے ماسکو کا دورہ کرنے میں کیوں جلدی کی؟ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس دورے کے دوران ترکی کی جانب سے نیٹو سے علیحدگی کا اعلان بھی نہیں کیا گیا اور نہ ہی روس کے ساتھ کوئی متبادل عسکری اتحاد قائم کرنے کی بات کی گئی۔۔۔!! اس” اچانک“ صورتحال کے تناظر میں تو روسی لیڈر پوٹن کو اپنے ذاتی باڈی گارڈز میں اضافہ کرلینا چاہئے۔۔۔
ہمارے خیال میں ایک مضبوط ترکی جو ”خلافت اسلامیہ“ کی طرز پر مسلم دنیا کا اعتماد بھی رکھتا ہو نیٹو کی شدید ضرورت ہے بلکہ اس بات کا ضامن بھی ہے کہ آنے والی”بڑی جنگ“ میں مسلم دنیا روس کے خلاف نیٹو کا ساتھ دے۔۔۔کیونکہ روس اور ایران نواز ملیشیاوںکی شام میں عسکری کارروائیوں میں جس انداز میں مسلمانوں کو بے دردی سے مارا گیا ہے وہ مناظر بھی روس کے خلاف نیٹو کے حق میں جاتے ہیں۔ترکی میں ”ناکام بغاوت“ کے بعد اس تناظر میں ترکی میں خاص طور پر عسکری ادارے میں ایک وسیع کریک ڈاون کیا گیا ہے وہ کسی بھی وقت ایک اور ردعمل کو جنم دے سکتا ہے اور اگر یہ ردعمل کامیاب ہوگیا تو دنیا کے سامنے بہت کچھ سامنے آجائے گا جیسا کہ داعش کی حمایت۔۔۔اور ترک سرزمین کا بطور راہداری ان کے لیے استعمال ہونا۔۔ ۔ ۔ ان حالات نے ماسکو میں فیصلہ ساز قوتوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیاروسی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یوکرین اور کرائمیا میں شکست کھانے کے بعد امریکا اور اسرائیل اسے شام میں گھسیٹ کر لانے میں کسی حد تک کامیاب ہوچکے تھے، حلب میں روسی مدد سے جزوی کامیابی اور اس کے مقابل موصل میں امریکی مدد کے باوجود تاحال ”ناکامی“ نے بھی ماسکو میں بہت سے سوال اٹھا دیئے ہیں۔دوسری جانب نیٹو نے کسی بھی بڑے ”روسی حملے“ کا مقابلہ کرنے کے لیے بلقان میں بھاری اسلحہ ذخیرہ کرنا شروع کردیا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جس طرح 1914ءمیں زار روس کو قسطنطنیہ کی حوالگی کا چکمہ دیا گیا اور کامیابی کے بعد 1917ءمیں روس کے اندر بالشیوک انقلاب کو ہوا دے دی گئی۔ یوں روسی حکومت نہ قسطنطنیہ کی رہی اور نہ ماسکو کی ، اسی طرح شام میں روس کو مزید پھنسا کر یوکرین میں بڑی بغاوت کا منصوبہ ہے ۔ اسی منصوبے کی بو پاکر لگتا ہے کہ روسی فوجی دستے تیزی کے ساتھ شام سے نکالے جارہے ہیں۔ روسی بحری بیڑے سے منسلک کئی جنگی بحری جہاز طرطوس کی بندرگاہ سے واپس بحیرہ باسفورس او ر بحیرہ اسود منتقل کیے جارہے ہیں۔
دوسری جانب روس ایشیا میں تیزی کے ساتھ اپنا ”مورچہ“ مضبوط کررہا ہے۔ پاکستان میں سی پیک کے منصوبے سے منسلک ہونے کی خواہش اسی معاملے کی تمہید ہے۔ اس ساری صورتحال میں بھارت پاکستان کے خلاف بُری طرح پٹ چکا ہے، صہیونی مغرب کا خیال تھا کہ آنے والے حالات میں بھارت میں انتہا پسند ہندو جماعت کی حکومت اس کے لیے چین اور پاکستان پر دباﺅ ڈالنے میں معاون ہوگی۔ دوسری جانب اسرائیل اپنے ”آئندہ دجالی منصوبے “میں چین اور پاکستان کو کاﺅنٹر کرنے کے لیے امریکا کے بعد اپنی سب سے بڑی اتحادی ریاست بھارت کو استعمال کرے گا لیکن سی پیک کے قیام کے بعد اور چین اور روس کی اس جانب تابڑ توڑ پیش قدمی نے اس صہیونی منصوبے کے تارپور بکھیر دیئے ہیںصاف محسوس ہوتا ہے کہ ان حالات میں ان کے لیے کانگریس شاید زیادہ مفید رہتی لیکن واشنگٹن، لندن اور تل ابیب اندازہ لگانے میں مار کھا گئے۔۔۔
ان تمام معاملات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ امریکا میں نئی آنے والی ٹرمپ انتظامیہ میں مشرق وسطی کے معاملات کی چابی ڈونالڈ ٹرمپ کے یہودی داماد جیرڈ کوشنرJared Corey Kushner کے ہاتھوں میں ہوگی۔دوسری جانب ٹرمپ کی ”روس نواز“ پالیسی ہے جس نے امریکی اسٹیبلشمنٹ کو دو حصوں میں تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔۔ کیا یہ سب کچھ بھی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہے؟ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی دجالی سیادت کے سامنے جس وقت روس بڑی رکاوٹ کھڑی کرنے کی پوزیشن میں آئے گا اس وقت اسرائیل روایتی طور پر امریکا کی جانب دیکھے گا جہاں سے طے شدہ منصوبے کے تحت مناسب جواب نہ ملنے پر اسرائیل کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ” اب خطے کے حالات سے نمٹنے کے لیے کسی بین الاقوامی فورم کی ضرورت نہیں۔۔!!“ (جہاں تک اقوام متحدہ میں اسرائیلی یہودی بستیوں کی تعمیرکے خلاف قرارداد کا منظور ہونا شامل ہے تو یہ اپنی جگہ ایک بڑا ڈراما ہے جس کی تفصیل پھر کبھی سہی۔۔۔) یوں ایک بڑی جنگ وجود میں آجائے گی۔ اس جنگ کی تمہید یا پراکسی وار جو اس وقت خطے میں جاری ہے اس کے تمام فریق ہوا میں تحلیل کردیے جائیں گے نہ کہیں داعش کا نشان ملے گا اور نہ کوئی اور عرب نواز یا ایران نوازحرکت کرسکے گا۔ اس صورتحال میں یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اسلامی ملکوں کا ”عسکری اتحاد“ کیا کرے گا، کیونکہ جلد ہی صورتحال پراکسی جنگ سے نکل کر ملکوں کی ©©”بڑی جنگ“ تک آنے والی ہے پھر کونسی دہشت گرد تنظیم کے خلاف اس اتحاد کو بروئے کار لایا جاسکے گا؟ کیا مسلمانوں نے اس میں دیر نہیں کردی؟
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں