وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے ۔۔۔!!!
شیئر کریں
اسرار بخاری
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
ایک ہاہا کار مچی ہے ،”جنرل راحیل شریف نے سعودی قیادت میں ”اسلامی اتحادی فوج “کی سربراہی قبول کرلی ہے جس کی فرقہ وارانہ بنیاد بہت سے خطرات کو جنم دے گی“ ۔ایک سینئر صحافی کا یہ تجزیہ درست ہے کہ کسی معاملے کی تحقیق اور اس کے درست یا نہ درست ہونے کا سراغ لگانے کی روایت 70ءکی دہائی کے صحافیوں کے ساتھ رخصت ہوتی جارہی ہے اور صورت یہ ہے کہ کسی نے کہا”کتا کان لے گیا تو کان کو دیکھنے کی بجائے کتے کے پیچھے دوڑنے لگے “۔بعض چینلز اور کچھ صحافی اس طرح سیاپا پیٹ رہے ہیں کہ جیسے جنرل راحیل شریف نے سعودی عرب جاکر اسلامی اتحادی فوج کی کمان واقعی سنبھال لی ہے اور اس فوج نے سعودی حکمرانوں کے آرڈر پر ایران پر چڑھائی کردی ہے جس سے نہ صرف خطے میں صورتحال خراب ہوگئی بلکہ ملک کے اندر بھی سنی شیعہ کشیدگی نے تمام حدیں پار کرکے تصادم کی صورت اختیار کرلی ہے ، لیکن کیا واقعی ایسا ہے اگر کسی بھی خبر کے حوالے سے تحقیق کی روایت زندہ ہوتی تو یہ سیاپا گری کی مجلسیں نہ جمتیں ۔
ارے بھائی لوگو،بات تو اتنی سی ہے کہ جنرل راحیل شریف جب آرمی چیف کی حیثیت سے وزیراعظم نوازشریف کے ہمراہ سعودی عرب گئے تو شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی مجوزہ اسلامی اتحادی فوج کی کمان سنبھالنے کی پیش کش کردی ،بعد ازاں سعودی عرب کے وزیر دفاع نے پاکستان کے دورے میں وزیراعظم سے ملاقات میں اس پیش کش کو دہرایا تو وزیراعظم نے اسے پاکستان کے لیے قابل فخر قرار دیا ۔ سعودی وزیر دفاع نے جی ایچ کیو میں جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی اور اس پیش کش کا اعادہ کیا تو انہوں نے اس پیش کش کو ان شرائط سے مشروط کردیا کہ مجوزہ فوج میں ایران شامل ہوگا ،اس فوج کی کمان جنرل راحیل شریف ہی کریں گے ان کے اوپر کوئی اتھارٹی نہیں ہوگی، اور ایران کے ساتھ معاملات کو سلجھانے کے سلسلے میں جنرل راحیل کو مذاکرات کا پورا اختیار حاصل ہوگا ۔
جہاں تک اس مجوزہ فوج کا تعلق ہے ابھی تو اس کے خدوخال ہی واضح نہیں ہیں نہ ہی تاحال ان تین شرائط کی قبولیت یا عدم قبولیت کی کوئی بات سامنے آئی ہے ،ایک اعتراض یہ اٹھایا جارہا ہے کہ اسلامی ملکوں کی فوج بنائی جارہی ہے لیکن ایران ، عراق اور شام کو دعوت ہی نہیں دی گئی یہ کھلی بدنیتی ہے یا بے خبری کی افسوسناک صورتحال کہ جس ملک کے سابق آرمی چیف کو سربراہ بنایا جارہا ہے ابھی تو اس ملک کو بھی باقاعدہ تجویز نہیں دی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ باقاعدہ تجویز مارچ میں تمام اسلامی ممالک کو دی جائے گی تب یہ سوال اٹھایا جاسکے گا کہ ایران ،عراق اور شام کو تجویز دی گئی ہے یا نہیں۔ ویسے جائزہ لیا جائے شام میں باقاعدہ مملکت کہاں ہے؟ روس کی بمباری ،ایرانی فوج اور لبنان کی شیعہ ملیشیا کے حملوں کے نتیجے میں حلب سے دمشق تک بشارالاسدکی ڈھیلی ڈھالی حکومت قائم ہے ، نئی بنتی صورتحال میں لگتا ہے کہ روس کو انطاکیہ بندرگاہ اور طرطوس کی چھاﺅنی سے ہی دلچسپی ہے اور تقسیم کے حوالے سے جو مذاکراتی عمل شروع ہورہا ہے اس کی بنیاد بھی یہی ہے۔ اس کے مطابق تقسیم عمل میں آئی تو حلب سمیت ملک کا بیس ،پچیس فیصد حصہ بشار کے قبضے میں رہے گا باقی 75فیصد کردوں ، بشاراور اس کی اتحادی فوجوں سے نبردآزما اور داعش کے قبضے میں ہے ،کیا موجودہ صورتحال میں بشار اس پوزیشن میں ہے کہ وہ خارجی ، علاقائی یا بین الاقوامی معاملات میں کوئی قردار ادا کرسکے۔جہاں تک عراق کا معاملہ ہے تو شیعہ اکثریتی اس ملک میں شیعہ عراق اور سنی عراق کی تقسیم پہلے ہی بہت گہری ہے، اس بنیاد پر اگر علاقائی تقسیم ہوتی ہے تو ایک سعودی عرب اور دوسرا ایران کے زیر اثر ہوگا۔ اس لیے عراقی انتظامیہ اس صورتحال سے بچنے کے لیے ہاتھ پاو¿ں مار رہی ہے اور اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے غالب امکان ہے اسلامی اتحاد فوج کا حصہ بن جائے ، ایران البتہ ایک مستحکم ملک ہے، تیل کی دولت کے باعث معیشت بھی مستحکم ہے اسلامی ممالک میں جن چار بڑی افواج کا حوالہ دیا جاتا ہے ان میں ایران کی فوج بھی شامل ہے اور ایک خود مختار ملک کی حیثیت سے ملکی اور قومی مفاد میں ایران کوئی بھی فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے، مثلا بھارت کی سرمایہ کاری اور اشتراک سے اپنی چاہ بہار بندرگاہ کو ترقی دینے کا منصوبہ بناتے وقت نہ تو ایرانی حکام نے یہ سوچا ،نہ ایران کے چینلوں اور صحافیوں نے اس بات کو اہمیت دی کہ پاکستان کے دشمن ملک بھارت سے اشتراک و تعاون کا پاکستان پر کیا اثر پڑے گا ،بھارت کے ساتھ اس اشتراک و تعاون کو کس قدر ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جائے گا وغیرہ وغیرہ ،جس طرح پاکستان میں کوئی بات نہ ہو تو بھی بالخصوص ایران کے حوالے سے یہ غلغلہ بلند ہوجاتا ہے کہ ایران کیا کہے گا ،ایران سے کیسے تعلقات رہیں گے وغیرہ وغیرہ۔ یہ ذکر اس لیے ضروری ہے کہ ان دنوں بالخصوص چھ چینلز اور بعض صحافی ، دانش ور اور سابق فوجی حکام جنرل راحیل کے حوالے سے ایک باقاعدہ پراپیگنڈا مہم چلا رہے ہیں اور مجوزہ اسلامی اتحادی فوج کو شیعہ سنی تقسیم کا جامع پہنارہے ہیں حالانکہ شیعہ مملکت آذربائیجان نے جو ایران کو پڑوسی ہے، مجوزہ اتحاد میں شمولیت کا باقاعدہ اعلان کردیا ہے ۔اگرچہ یہ ایک ملک ہے مگر اس سے شیعہ سنی تقسیم کی نفی ہوجاتی ہے اور ابھی تو مارچ میں یہ منصوبہ بطور تجویز تمام اسلامی ممالک کو بھیجا جائے گا ان کی پارلیمنٹ ،کابینہ یا حکمران غور و خوص کے بعد مثبت یا منفی جواب دیں گے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ ہر ملک اسے من وعن قبول کرلے ۔یقینا اس کے ڈھانچے اور طریقے کار کے حوالے سے بھی تجاویز آئیں گی پھر ان ممالک کا اگر اتفاق ہوگیا تب کہیں جاکر اس ڈھانچے کی تشکیل کے لیے ان ممالک کی سیاسی و عسکری قیادتوں کا اجلاس ہوگا تب کہیں جاکر بیل منڈھے چڑھے گی۔ اس دوران یقینی طور پر ایران سے کھلے اور بیک ڈور رابطے رکھے جائیں گے، ایران کی شمولیت کا راستہ ہموار کرنے کے لیے پہلے مرحلے میں باقاعدہ ممبر نہ صحیح بطور مبصر شرکت کو لازمی بنایا جائے گا تاکہ تمام فیصلے اس کی نظروں کے سامنے ہوں، دوسرا غلط تاثر یہ پھیلایا جارہا ہے کہ جنرل راحیل کی قیادت میں یہ سعودی قیادت میں ایسی فوج ہوگی جو سعودی حکام کا اشارہ ملتے ہی ایران سمیت کسی بھی ملک پر چڑھ دوڑے گی ۔یہ اس لیے انتہائی غلط ہے کیونکہ مجوزہ فوج کے لیے جو پالیسی ساز ادارہ بنایا جائے گا وہ تمام اسلامی ملکوں کے وزرائے دفاع پر مشتمل کونسل ہوگی ،سعودی وزیر دفاع بھی جس کا ایک ممبر ہوگا ،ایسی صورت میں اس فوج کا ایران یا کسی ملک پر چڑھ دوڑنا کیسے ممکن ہوگا،اور یہ خوش آئند بات ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے ایران کو اس سال حاجی بھیجنے کی باقاعدہ دعوت دی گئی ہے ،یہ قدم ایران پر ”چڑھ دوڑنے “والا ہے یا بہتر تعلقات کی جانب پیش رفت ؟؟
مجوزہ فوج کا مینڈیٹ صرف انسداد دہشتگردی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی دنیا کو آج دہشت گردی کا سامنا ہے، پیارا پاکستان بھی اس کی لپیٹ میں آئے بغیر نہیں رہ سکا۔ اس سے نمٹنے کے لیے جنرل راحیل شریف کی قیادت میں پاک فوج نے جو کردار ادا کیا اسے امریکا سمیت تمام غیر اسلامی ممالک کی جانب سے بھی سراہا گیا اور ایران کے صدر روحانی نے بھی جنرل راحیل کو ہدیہ تحسین پیش کیا۔ ایسی صورت میں جبکہ سعودی عرب اب بھی دہشت گردی کا شکار ہے اور جو خود دیگر اسلامی دنیا کو دہشت گردی سے پاک کرنے کا آرزو مند ہے اور اس کے لیے ایک منظم ادارہ جاتی کوشش مجوزہ فوج کی صورت سامنے لایا ہے، اگر اس کی نظریں جنرل راحیل شریف پر پڑی ہیں تو یہ قدرتی عمل ہے۔ ہرمسلمان جسے وسائل اور وقت میسر ہو حج اور عمرہ اس کی پہلی ترجیح ہوتی ہے، ریٹائرمنٹ کے بعد عمرہ کے لیے سعودی عرب جانے کے لیے جنرل راحیل نے سعودی سفارتخانے سے رجوع کیا، سعودی حکومت کے علم میں بات آئی ،اس نے شاہی طیارہ بھیج دیا جسے اس فوج کے کمانڈر کی پذیرائی کا نام دیا گیا جو ابھی محض تصوراتی ہے۔ یہ دراصل دہشتگردی کے خلاف جنگ کے فاتح کا استقبال تھا اور اس حوالے سے منفی پراپیگنڈے کی جو دھول اڑائی جارہی ہے یہ مخصوص فوج اور مفادات کا شاخسانہ ہے ۔
٭٭