مودی کا 56انچ سینہ اور کسان تحریک
شیئر کریں
کسانوں نے پڑوسی ملک میں محروم طبقات کے لیے امید کی ایک جوت جگادی ہے۔ مودی کے تکبر کو پاؤں تلے روند دیا ہے۔ بھارتی کسانوں کی زبردست مزاحمت کا ولولہ انگیز پراؤ 26/ جنوری کو دہلی تھا۔ بھارتی آئین سال 1950ء میں اسی تاریخ کو منظور ہوا تھا،جس کے بعد یہ ایک قومی دن کے طورپر منایا جانے لگا۔ یوم جمہوریہ کے طور پر اس دن فوجی پریڈہوتی ہے اور بھارتی وزیراعظم دہلی کے لال قلعہ سے خطاب کرتے ہیں۔
بھارتی کسان زرعی اصلاحات کے نام پر متعارف کرائے گئے قوانین کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ قوانین زرعی اجناس کی فروخت، قیمت اور اُسے ذخیرہ کرنے کے مروجہ طریقہ کار کو تبدیل کردیتے ہیں۔ کسان ان نئے قوانین کے بعد آزاد منڈیوں کے رحم وکرم پر ہوں گے جہاں اُنہیں سفاک اور بے رحم سرمایہ دار، منڈی کے من مانے چلن سے بھگتائیں گے۔ کسان سمجھتے ہیں کہ ان نئے قوانین کے بعد وہ زمین پر اپنی گرفت کھودیں گے۔ بیج اور زمین کا فطری رشتہ ختم ہوجائے گا۔ پھر منڈی کے بے رحمانہ طریقوں سے کسان سرمایہ دار کی طلب سے اپنی زمینوں پر ہل چلاسکے گا۔ کسان ان قوانین کو خود اپنی زندگی سے دستبردار ہونے کے مترادف سمجھ رہے ہیں۔ بھارت کے متکبر وزیراعظم نریندر مودی کی پوری سیاست بے رحم اور سفاک سرمایہ داروں کی مرضی کے تابع رہی ہے۔ چند سفاک سرمایہ دار ان نئے قوانین کی پشت پر ہیں جو بھارت کی پوری زرعی معیشت کو اب کنٹرول کرنے پر تُلے بیٹھے ہیں۔ نریندر مودی نے اپنی گردن اُن کے آگے جھکا دی ہے مگر اپنے 56/ انچ سینے کو کسانوں کے سامنے پھلائے بیٹھے ہیں۔ کسانوں کی ستمبر 2020ء سے جاری احتجاجی تحریک مختلف مخالفتوں اور رکاؤٹوں کو عبور کرکے انتہائی ارتکاز اور امتیاز کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ حکومت سے درجن بھر مذاکرات کے ادوار کے باوجود ابھی تک کوئی ایسا راستا نہیں نکل سکا جو بھارتی کسانوں کو مطمئن کرسکے۔ چنانچہ اُنہوں نے بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پر فوجی پریڈ کے مقابل ٹریکٹر پریڈ کی اور دہلی میں داخل ہوگئے۔ کسانوں کے وفورِ احتجاج میں ایک موقع ایسا بھی آیا جب اُنہوں نے لال قلعہ پر سکھ مذہب کا ”نشان صاحب پرچم“لہرادیا۔ احتجاج کے باعث 56 انچ سینے والے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی لال قلعے سے خطاب نہیں کرسکے، اور اُنہیں فوجی پریڈ سے سیدھے گھر پہنچا دیا گیا۔
تاریخ کے یہ دونوں حوالے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔اب بھارت کی درسی کتابوں سے مغلیہ دور کے سنہری واقعات حذف کیے جارہے ہیں۔ مگر لال قلعہ اسی مغلیہ سلطنت کے دور کی یادگار ہے۔ یہی وہ قلعہ ہے جہاں موجود تختِ طاؤس پر بیٹھ کر مغل بادشاہ کوسِ لمن الملک بجاتے تھے۔ کبھی ا س قلعے کی دیواروں سے دریائے جمنا کا پانی بغلگیر ہوتا تھا۔ اب پانی اور اقتدار دونوں نے اس قلعے سے کچھ فاصلہ پیدا کرلیا ہے۔ مگر لال قلعہ دہلی کے اقتدار اعلیٰ کا علامتی اظہار اب بھی کرتا ہے، جہاں بھارت کا قومی پرچم ہر وقت لہراتا ہے۔ کسانوں کی تحریک کے غیر معمولی لمحے میں وہ وقت آیا جب اُنہوں نے اسی پرچم کے ساتھ سکھ مذہب کا ”نشان صاحب پرچم“لہرادیا۔ کسانوں نے متعدد مقامات پر زعفرانی رنگ کے مذہبی اور کسان جدوجہد کے پرچم لہرائے۔اگرچہ سوشل میڈیا کے سیلاب میں ابتدائی طورپر یہ سمجھا گیا کہ کسانوں نے لال قلعہ پر دراصل سکھ علیحدگی کی خالصتانی تحریک کا پرچم لہرایا ہے۔ درحقیقت ایسی کوئی بھی کوشش مودی کی دلی خواہش کو پورا کرتی جو کسانوں کی پرامن اور ولولہ انگیز تحریک کو پرتشدد اور خالصتان تحریک سے جوڑ کر اپنے مذموم کھیل کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔ مودی اپنے ان ناپاک عزائم کو پورا کرنے کے لیے کسانوں کی تحریک میں ایسے ”عناصر“ کو داخل کرنے کی متعدد کوشش کرچکے ہیں جو کسانوں کو انتہا پسند اور تشدد پسند ثابت کرنے کا باعث بنتے۔ کسانوں نے غیر معمولی ذہانت سے اب تک ایسی تمام کوششوں کو ناکام بنایا ہے۔”نشان صاحب پرچم“ کا پیغام بھی کوئی معمولی نہیں۔ مغل بادشاہ جہانگیر کے حکم پر سکھ روایت کے پانچویں گرو،ارجن دیو کو قتل کیا گیا تھا، مگر اس سے قبل ارجن دیو نے اپنے جانشین بال ہر گوبند کو ایک پیغام بھیجا تھا۔ اس پیغام کے تحت نئے سکھ گرو ہر گوبند نے ایک تخت بنایا تاج، اور فوج بنائی تھی۔ اسی گرو نے تب مغل بادشاہ سے اپنی آزاد حیثیت کو ایک علامتی جھنڈے سے ظاہر کیا تھا جسے اب یہی”نشان صاحب پرچم“کہا جاتا ہے۔ دہلی کے لال قلعے پر خالصتانی پرچم تو نہیں لہرایا گیا، مگر تاریخ کے تناظر میں نشان صاحب پرچم کا پیغام اس سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔
لال قلعہ پر پرچم لگانے کے پیغام کی شدت وحدت کو بھارت کے اندر باہر پوری طرح محسوس کیا جارہا ہے۔ شاید اسی لیے امریکی خبررساں ادارے اے پی نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ بھارت میں کسانوں کی احتجاجی تحریک ملک گیر بغاوت میں بدل سکتی ہے۔ بھارت میں 26/ جنوری کے قومی دن کی تمام سرگرمیوں اور تقریبات کو کسانوں نے اپنے ٹریکٹر پریڈ اور لال قلعہ پر جھنڈا لگا کر پس منظر میں دھکیل دیا۔ کسان دوماہ سے دارالحکومت کا گھیراؤکرکے بیٹھے ہیں۔ 26/ جنوری کی شام کسانوں نے ٹریکٹر پریڈ ختم کرنے کا اعلان تو کیا مگر دوماہ سے زائد عرصے سے جاری تحریک کو جاری رکھنے کا عزم بھی ظاہر کردیا۔ نریندر مودی کے اقتدار کو کسانوں کی احتجاجی تحریک نے ایک انتہائی سنجیدہ نوعیت کا چیلنج دیا ہے۔ اگرچہ وسیع پیمانے پر جاری اس تحریک کی اصل مراکز دو ریاستیں یعنی پنجاب اور ہریانہ ہیں۔ مگر اس تحریک کے اثرات نے بھارت بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس تحریک سے بھارت کے پورے معاشی ڈھانچے کے اُتھل پتھل ہونے کا خطرہ جنم لے چکا ہے۔ ذات پات میں تقسیم انتہا پسند بھارتی سماج میں جاری خلقی معاشی عدم مساوات کے خلاف کسانوں کی احتجاجی تحریک نے سماج کے تمام پچھڑے طبقات کو ایک ہمت دی ہے۔ نریندرمودی کی پوری سیاست مسلمانوں کے خلاف اور سخت گیر انتہاپسند ہندو مقاصد سے وابستہ رہی ہے۔ اُنہیں آج تک جس نوعیت کے احتجاج کا سامنا رہا، اُس میں ایک مذہبی عنصر کے باعث ہندو انتہاپسندی ڈھال کے طور پر اُن کے کام آتی رہی۔ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام سے لے کر کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے تک ہر جگہ برہمن نفسیات اُن کی معاون رہی۔ شہریت کے متنازع قانون میں بھی وہ انتہاپسند ہندو نظریات کے پیچھے دبکے رہے۔ دہلی کے شاہین باغ میں طویل عرصے تک مسلمان مردوخواتین کے دھرنے پر مودی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ مگر کسانوں کا غیر معمولی احتجاج مودی کے 56 انچ سینے کو سیکڑ رہا ہے۔ کسانوں کے مسلسل اور غیر لچکدار احتجاج کے باعث مودی کی سیاسی حمایت بھی رفتہ رفتہ تحلیل ہونے لگی ہے۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والی اُن کی اتحادی جماعت اکالی دل حکومت سے علیحدہ ہوگئی ہے۔ بھارت کے محروم طبقات کسانوں کی احتجاجی تحریک کو اپنے مستقبل کے مستقل بدلاؤ کے لیے امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ جس کی چنگاڑیوں میں متکبر مودی کے خرمنِ اقتدار کو جلانے کی صلاحیت موجود ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭