سیاسی استحکام کا تقاضا
شیئر کریں
فارن فنڈنگ کیس کی براہ راست کوریج کے متعلق وزیرِ اعظم کے دیے چیلنج کو بڑی اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے قبول کرتے ہو ئے کہا ہے کہ وزیرِ اعظم کی درخواست اور حکم کا نتظار کررہے ہیں مگر الیکشن کمیشن نے سکروٹنی کمیٹی کی سماعت پبلک کرنے سے انکارکر دیاہے اور کہا ہے کہ یہ بہت اہم اور حساس کیس ہے اِس لیے غیر ضروری اور بغیر شواہد تبصروں سے گریزکیا جائے مگرکیمروں کے سامنے سیاستدان کہاں چُپ رہتے ہیںکیونکہ بولنے سے کوریج ملتی ہے اور جب وزیرِ اعظم کیمروں کے سامنے بولتے ہیں تو کچھ زیادہ ہی بے احتیاطی کا مظاہرہ کر جاتے ہیں حالانکہ اِس طرح اپنے لیے ہی مسائل میں اضافہ کرتے ہیں الیکشن کمیشن میں جاری فارن فنڈنگ کیس پر بات کرتے ہوئے بھی انھوں نے اپنی جماعت کوہی بند گلی میں دھکیلنے کی کوشش کی ہے بولتے ہوئے الفاظ اورموضوع کے چنائو میں احتیاط نہایت ضروری ہے ۔
پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک کے دوسرے مرحلے کی ابتدا رواں ماہ کی اُنیس تاریخ کوالیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج سے چکی ہے اور اپوزیشن حکومت سے وہی سلوک کرنے کررہی ہے جو مسلم لیگ ن کی حکومت سے روارکھا گیاعمران خان نے مسلسل احتجاج اور طویل ترین دھرنے سے ہی مقبولیت حاصل کی بلکہ نواز شریف دیانتداری سوالیہ نشان بنانے کے ساتھ سیاسی زوال کو یقینی بنایاموجودہ اپوزیشن نے بھی حکومت کے خلاف مسلسل احتجاج سے حکومت کا سُکھ چین غارت کردیا ہے ۔
الیکشن کمیشن میں زیرِ سماعت فارن فنڈنگ کیس نے وزیرِ اعظم کی نیک نامی اور دیانتداری پرسوال اُٹھا دیے ہیں لوگ بھی حقیقت جاننے میں متجسس ہیں کیونکہ فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے کو التوا میں ڈالنے کے لیے تحریکِ انصاف کے تاخیری حربوں سے شکوک وشبہات کے سائے گہرے ہوئے ہیں جنھیں دور کرنا بحرحل حکمرانوں کا کام ہے مگر عمران خان دفاع کرنے میں سنجیدہ نظرنہیں آتے ایسا ہی طرزِ عمل نواز شریف نے اپنایا جب پانامہ کیس اور اقامہ کی بابت عدالت سے جواب طلبی ہوئی تو انھوں نے بریت ثابت کرنے کی بجائے عوامی عدالت میں جاکر آہ و بکا شروع کر دی جس کے نتیجے میں قانونی اور انتخابی میدان میں شکست سے دوچار ہوئے حیران کُن بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت بھی ایک سیدھے سادے کیس میں پوچھے گئے سوالوں کے جواب دینے کی بجائے بگاڑ رہی ہے جس سے حکومت کونقصان ہو سکتا ہے حکومت کے نادان ترجمانوں اور قانونی مشیروں کو کون سمجھائے کہ تاخیر ی حربے اختیار کرسے کیس ختم نہیں ہوتے بہتر یہ ہے کہ اپوزیشن سے تلاشی دینے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ الزام تراشی کی بجائے اپنی پارسائی ثابت کرنے سے اجتناب نہ کیاجائے۔
پی ٹی آئی کے بانی رُکن اکبر ایس بابر نے 2014 جماعتی فنڈز میں کی گئی بے قاعدگیوں کے خلاف الیکشن کمیشن سے رجوع کیادرخواست میں تحریر کیا گیا کہ تحریکِ انصاف نے بینک اکائونٹس میں کئی آف شورکمپنیوں کے ذریعے لاکھوں ڈالر غیر قانونی طریقے مثلاََ ہنڈی وغیرہ سے منتقل کیے رقوم سے الیکشن کمیشن کو لاعلم رکھا گیا یہ درخواست مسلم لیگ ن یا پی پی کی طرف سے نہ تھی لیکن جلد ہی مسلم لیگ ن اور پی پی بھی فریق بن گئیں جس سے پی ٹی آئی کو پریشانی لاحق ہوئی تو اُس نے الیکشن کمیشن کے اختیارات کو چیلنج کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ جماعتوں کے عطیات کی چھان بین کا اُسے اختیار نہیں مگرخلاف فیصلہ کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے درخواست کو قابل سماعت قراردیتے ہوئے فارن فنڈنگ کے حوالہ سے پی ٹی آئی کو جواب جمع کرانے کا حکم جاری کر دیالیکن جواب جمع کرانے کی بجائے 2015میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ اپیل کر دی گئی جو 2017میں مسترد ہوگئی فیصلے سے پریشان ہو کر پی ٹی آئی نے مسلم لیگ ن اور پی پی پر بھی بیرون ملک سے عطیات کے الزامات لگا کر الیکشن کمیشن کے روبرو درخواست دائر کردی اِس طرح شاید وہ افہام وتفہیم کا کوئی راستہ نکالنا چاہتی تھی لیکن مقصد پورا نہ ہوا ۔
مسلم لیگ ن نے موقع غنیمت جانتے ہوئے تحریکِ انصاف کو سبق سکھانے کے لیے حنیف عباسی کی مدعیت میں سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرادی جس میں عدالتِ عظمٰی سے استدعا کی گئی کہ الیکشن کمیشن کو فارن فنڈنگ کیس کا جلد فیصلہ سنانے کا حکم دیا جائے جسے منظور کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے جلد فیصلہ سنانے کا حکم دے دیا 25جولائی 2018کے عام انتخابات میں دونوںسابق حکمران جماعتوں کو شکست ہوئی اور پی ٹی آئی نہ صرف انتخاب جیت گئی بلکہ بڑے آرام سے ایک اتحادی حکومت بنا لی جس پر مسلم لیگ ن اور پی پی نالیکشن کمیشن سے بیرونی عطیات کے متعلق کیس کا جلد فیصلہ سنانے کا مطالبہ کرنے لگیں لیکن حکومت تاخیری حربوں تک محدود رہی جس پر الیکشن کمیشن نے 2009سے لیکر2013تک پی ٹی آئی کے اکائونٹس کی تفصیلات براہ راست ا سٹیٹ بینک سے طلب کر لیں بینک نے تیس کے لگ بھگ اکائونٹس کی تفصیلات فراہم کردیں جن میں رقوم کے متعلق کافی ابہام تھا ابھی کچھ روز قبل ہی اکائونٹس کی جانچ پڑتال کے متعلق بنائی ا سکروٹنی کمیٹی کے اجلاس میں حکمران جماعت نے جواب میں موقف اپنایا ہے کہ بیرونِ ملک سے عطیات جمع کرنے کے لیے جماعت اپنے نمائندے یعنی ایجنٹ مقررکرتی ہے اور اگر کوئی ایجنٹ عطیات کی تفصیلات نہیں دیتا یا کوئی بے قاعدگی کرتا ہے تو ذمہ دار جماعت نہیں ایجنٹ ہو گا یہ جواب یا وضاحت کسی طور تسلی بخش نہیں بلکہ بات کو گھمانے پھرانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہی نہیں صورتحال کافی خراب ہے جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شایدہی فارن فنڈنگ کیس سے حکمران جماعت شاید ہی سنبھل سکے خلاف فیصلہ آنے کی صورت میںحکومتی جماعت سے انتخابی نشان چھن سکتا ہے ۔
2017میں الیکشن ایکٹ کے فارن فنڈنگ کے حوالے سے کئی ضابطے تبدیل ہوئے لیکن فارن فنڈنگ کیس میں لگائے الزامات پہلے کے ہیں جن کے بارے قانونی موشگافیوں سے آشنا ماہرین کہتے ہیں کہ فارن فنڈنگ کیس پی پی او 2017کی بجائے 2002کے مطابق دیکھا جائے تو پی ٹی آئی پر حرف نہیں آتا مگر یہ بات بتانے کی بجائے اپوزیشن کو رگیداجا رہا ہے لیکن شاید یہ نہیں جانتے کہ تبدیل شدہ قواعد کی رو سے مشکوک فارن فنڈنگ پر جماعت بھی تحلیل ہو سکتی ہے ۔
سیاسی جماعتیں اور قائدین بیرون ملک سے عطیات اور تحائف وصول کرنے میں کافی فراٖ غ دل ہیں نوازشریف جب جلاوطنی ختم کرکے ملک واپس آئے توبیش قیمت بلٹ پروف گاڑی سعودی شاہ سے تحفے میں لی پھر 2008 کی انتخابی مُہم بھی سعودیہ کی طرف سے فراہم کیے ہیلی کاپڑ پر چلائی 1988میں لیبیا کی طرف سے کئی مذہبی جماعتوں پر مالی نوازشات ذرائع ابلاغ کا حصہ بن چکی ہیںجن میں جمعیت علمائے پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام خاص طور پر قابلِ زکر ہیں مولانا فضل الرحمٰن پر بھی اسی نوعیت کے الزامات ہیں آصف زرداری کی خلیجی ریاستوں سے مالی منفعت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں مگر اِس کا مطلب یہ نہیں کہ فارن فنڈنگ کو جائز قراردے کر کیس کا فیصلہ ہی نہ کیا جائے الیکشن کمیشن کا غیر جانبدارانہ فیصلہ سیاسی جماعتوں میںپید اہونے والی خرابیوں کو دور کرنے کے ساتھ سیاسی استحکام کا باعث بن سکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔