میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
امریکا میں قیدیوں کی تعداد23 لاکھ تک جا پہنچی

امریکا میں قیدیوں کی تعداد23 لاکھ تک جا پہنچی

منتظم
منگل, ۱۰ جنوری ۲۰۱۷

شیئر کریں

دنیا بھر میں جیلوں میں زندگی گزارنے والے قیدیوں میں 25فیصد تناسب امریکیوں کا ہے
دنیا بھر میں امریکا کو امن وامان کا گہوارہ سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے شہروں اوردیہاتوں میں قتل وغارت اور جرائم کی دیگر وارداتیں اپنی بدترین شکلوں میں موجود ہیں دوسری طرف پولیس کا نظام ان جرائم کی بیخ کنی کے لیے بھرپور کارروائیوں میںتو مصروف ہے مگراس کے نتیجے میں امریکا میں قیدیوں کی تعداد اب23 لاکھ تک جاپہنچی ہے۔
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا کی پانچ فیصد آبادی جیلوں میں اپنی زندگی کے ایام گزارتی ہے جن میں امریکی قیدیوں کا تناسب 25 فیصد کے قریب بنتا ہے۔ اس وقت ساری دنیا میں قید لوگوں کی تعداد 88 لاکھ ہے جبکہ امریکا میں ان کی تعداد 23 لاکھ ہے اس طرح دنیا بھر کے قیدیوں میں امریکی قیدیوں کا تناسب 25 فیصد کے قریب بنتا ہے۔1980 کی دہائی میں امریکی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد صرف پانچ لاکھ تھی۔ جس میں ہوش ربا اضافے کی کئی وجوہات ہیں ، ان نظر بند لوگوں کی اکثریت معمولی جرائم یعنی ایک اونس یا اس سے کم چرس رکھنے یا معمولی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے جرم میں قید بھگت رہی ہے۔ان قیدیوں کی دیکھ بھال پر امریکا کو سالانہ 7 ارب ڈالر خرچ کرنا پڑتا ہے جس کے لیے حکومتی جیلوں کے علاوہ پرائیویٹ جیلوں کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں ،اس طرح پرائیویٹ جیلوں کا کاروبار امریکا میں منافع بخش کاروبارتصور کیا جاتا ہے۔سابق صدر بل کلنٹن کے دور میں پرائیویٹ جیلوں کا تصور پیش کیا گیا تھا جس کے تحت سرکاری جیلوں کی نجکاری کی گئی اور ان جیلوں کے پرائیویٹ مالکان قیدیوں کے قیام و طعام اور ان کی نگرانی کے ذمہ دار ٹھہرے جس کا فی قیدی معاوضہ انھیں سرکار کی جانب سے دیا جانے لگا۔ اس طرح جیل مالکان کا فائدہ اسی میں ہوا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ جیلوں میں بند رہیں اور وہ سرکارکی جانب سے فی قیدی معاوضہ وصول کرتا رہے ۔اس لیے معمولی جرائم جیسے چاکلیٹ لے کر فرار ہونے والے، نشہ کی حالت میں غل غپاڑہ مچانے پر گرفتار ہونے والے قیدیوں کے چال چلن کی رپورٹ بھی جان بوجھ کر منفی لکھی جانے لگی تاکہ ان کی جلد رہائی کی صورت پیدا نہ ہوسکے ۔ دوسری جانب پرائیویٹ مالکان اپنے اخراجات میں کمی کے لیے ان قیدیوں کو فراہم کی جانے والے خوراک میں کمی کرنے لگے اور ان کی بیرکوں کی حالت پر توجہ نہیں دیتے ۔اس طرح یہ نجی جیل عملا ًبیگار کیمپ کی شکل اختیار کرگئی ہیں جہاں معمولی جرائم میں ملوث مجرموں کو عادی مجرم بننے کے پورے مواقع فراہم کردیے جاتے ہیں۔اور ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ امریکا کی جیلوں میں بند قیدیوں کی تین چوتھائی سیاہ فام اور ہسپانوی نسل کے امریکیوں کی ہے۔ اس سنگین صورتحال پر ہارورڈ لارویو میں جائزہ لیتے ہوئے امریکی نظام انصاف میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اس سلسلے میں امریکی صدر باراک ابامہ کے کردار کا جائزہ لیا ہے۔
فلوریڈا ایئرپورٹ حملے کے ملزم کا انکشاف
امریکا پر داعش کی پشت پناہی کے الزامات درست نکلے ؟
امریکی ریاست فلوریڈا کے فورٹ لاریڈیل ایئرپورٹ کے بیگج لاﺅنج میں 26 سالہ ہسپانوی نژاد سابق امریکی فوجی اہلکار استیبان سانتیاگو نے یہ الزام تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کی تفتیش کے دوران عائد کیے۔استیبان پہلے پورٹیکو نیشنل گارڈ میں بطور سپاہی بھرتی ہوا تھا، اس نے عراق میں بھی ایک سال گزاراہے اور واپسی پر امریکی فوج کے ریزرو دستے میں شامل ہوگیا تھا۔بعد میں اس نے امریکی نیشنل گارڈ میں شمولیت اختیار کرلی تھی تاہم یہاں سے اسے بہتر کارکردگی نہ ہونے کی وجہ سے فارغ کردیا گیا تھا جس کے بعد وہ ذہنی طور پر پریشانی کا شکار تھا بلکہ اس نے الاسکا میں ایک نفسیاتی مرکز سے علاج کرانے کی کوشش بھی کی تھی اور اس مرکز میں اپنے معالج کو بتایا تھا کہ ا سے پراسرار آوازیں سنائی دیتی ہیں۔استبان نے تحقیقاتی اداروں کے سامنے بتایا کہ ایک ایجنسی کے لوگ اسے دہشت گرد تنظیم داعش کے ویڈیو دیکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ملزم کی خالہ ماریہ رویرا نے بھی بتایا کہ استبان عراق سے واپسی کے بعد سے ذہنی طور پر معمول کے مطابق نہیں تھا ،وہ اکثر جنگ کی تباہ کاریوں کا ذکر کرتا جس کا اس نے عراق میں مشاہدہ کیا تھا۔ دہشت گردی میں ملوث اس ملزم کے انکشاف کے بعد امریکا کے تحقیقاتی ادارے اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ کہیں اس تحقیقاتی ادارے میں شامل کوئی شخص دہشت گردوں سے تو نہیں مل گیا جو امریکی نوجوانوں کو اس تنظیم میں شمولیت کے لیے راغب کرنے کی مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔ واضح رہے کہ ترکی کے صدر نے گزشتہ دنوں یہ الزام عائد کیا تھا کہ امریکا داعش کی حمایت کرتا ہے اور اسی طرح کے الزامات روس کی جانب سے بھی امریکاپر عائد کیے جاتے رہے ہیں۔
ریاست ٹیکساس میں ایک اور مسجد پر حملہ
ریاست ٹیکساس کے دارلحکومت آسٹن میں زیر تعمیر اس مسجدکا ابھی صرف ڈھانچہ ہی تعمیر کیا جاسکا تھا کہ نامعلوم افراد نے رات کی تاریکی میں اس ڈھانچے کو نذر اتش کردیا۔ اس آتش زنی سے کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا تاہم مسجد کا مکمل ڈھانچہ ڈھے گیا۔ اسلامک سینٹر آف لیک ٹراویز کے نام سے تعمیر ہونے والی اس مسجد کی تعمیر کے لیے متعلقہ حکام سے باضابطہ اجازت نامہ حاصل کیا گیا تھا، خصوصی طور پر ڈیزائن کردہ یہ عمارت علاقے میں بسنے والے مسلمانوں کی عبادات اور ان کی دیگر سماجی سرگرمیوں کے پیش نظر تعمیر کی جارہی تھی۔ڈونلڈ ٹرمپ کی بحثیت امریکی صدر کامیابی کے بعد سے مسلمانوں کے خلاف امریکا میں بھی نفرت انگیز جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ جن میں خصوصی طور پر مساجد کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ آسٹن کی اس مسجد کو نذر آتش کیے جانے کی وجہ سے اس شہر میں مقیم مسلمان امریکیوں میں سخت خوف وہراس پھیل گیا ہے۔
امریکی ریاست منی سوٹا میں مسلم خاتون پہلی بار منتخب
امریکی ریاست منی سوٹا کی اسمبلی میں پہلی بار ایک مسلمان صومالی خاتون الحان عمر رکن منتخب ہوئیں جنھوں نے اپنے عہدے کا حلف قرآن پر اٹھایا۔تقریب ِحلف برداری امریکا میں انتقال اقتدار کے مرحلے کے آغاز پر منگل کو منعقد کی گئی جس کے تحت تمام ریاستوں کی اسمبلی اور امریکی کانگریس و سینٹ کے نو منتخب اراکین نے بھی اپنے عہدے کا حلف اٹھایا، 34 سالہ الحان عمر نے منی سوٹا کے شہری علاقے مینوپولس میں ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار تھیں جنھوں نے اس علاقے سے گزشتہ 1972 سے مسلسل جیتنے والے فلپس کان کو شکست دی ۔ مینوپولس وہ علاقہ ہے کہ جہاں سے امریکی ایوان نمائندگان کی نشست پر بھی ایک مسلمان کیتھ ایلسن گزشتہ 10 برسوں سے مسلسل کامیاب ہوتے چلے آرہے ہیں اور اب وہ ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن کی صدارت کے مضبوط امیدوار بھی ہیں۔ الحان عمر نے اپنے عہدے کا حلف قرآن پر اٹھایا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں