کراچی سرد ہوا، اور دھرنوں کی لپیٹ میں ہے
شیئر کریں
کراچی سرد ہوا، اور دھرنوں کی لپیٹ میں ہے، یخ بستہ ماحول ، اور شہر کے 35 سے زائد مرکزی مقامات پر مچھ میں قتل ہونے والے کان کنوں کے لواحقین سے یک جہتی کے لیے کئی دن سے ہونے والے احتجاج نے کراچی کی سڑکوں کو سونا کر دیا ہے، گیس کی لوڈ شیڈنگ نے گھروں کے چولہے ٹھنڈے کر رکھے ہیں تو کچی آبادیوں، ریلوے کی زمین پر برسوں سے قابض کچی پکی آبادیوں ، اور ناجائز تعمیرات کے خلاف آپریشن نے بھی بہت سے علاقوں میں تباہی پھیلا رکھی ہے۔ کراچی کی سیاسی جماعتیں بھی مظاہروں، ریلی، جلسے ، جلوس میں مصروف ہیں، ایسے میں کورونا کا خوف، یا اس سے بچاؤ کے لیے اقدامات یا ایس او پی کا خیال بہت کم ہی دیکھنے میں آرہا ہے۔ کراچی میں آج کل متنازعہ مردم شماری پر بھی گرما گرمی ہے، جماعت اسلامی ، اور پاک سرزمین پارٹی، متحدہ پاکستان، پیپلز پارٹی، سمیت دیگر سیاسی جماعتیں بھی اس مردم شماری پر آواز اٹھا رہی ہیں۔ حکومت سندھ نے تو مردم شماری کے ابتدائی نتائج کو ہی مسترد کردیا تھا، اور مردم شماری میں سندھ کی آبادی کم ظاہر کرنا وفاق کی سازش قرار دی تھی۔
2017 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق ملک کے سب سے بڑے شہر کی آبادی ایک کروڑ 49 لاکھ کے لگ بھگ قرار دی گئی ہے۔ جسے سیاسی جماعتیں تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کراچی کی آبادی کے بارے میں جماعت اسلامی کہتی ہے کہ یہ تین کروڑ ہے۔اور پی ٹی آئی نے مینڈیٹ لینے کے باوجود کراچی کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار بھی یہی دعویٰ کرتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جس شہر میں آبادی کا مسلسل دباؤ بڑھ رہا ہے ، اور جہاں پورے ملک سے آبادی منتقل ہورہی ہے اس کی آبادی میں گزشتہ 17 برس میں صرف 60 فیصد اضافہ دکھایاجارہا ہے۔ 1998 کی آبادی کے تناسب دیکھا جائے تو کراچی کی آبادی میں تقریبا 60 فیصد جبکہ لاہور کی آبادی میں 116 فیصد اضافہ ہوا ہے۔کراچی میں ہزاروں کی تعداد میں کثیرمنزلہ عمارتیں ہیں، پورے ایشیا میں سب سے زیادہ کچی آبادیاں کراچی میں ہیں۔ روز گار اور ساز گار ماحول کے لیے ،خیبر پختونخوا، باجوڑ، سوات اور شمالی پنجاب سے کراچی میں نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ تین سال قبل ہونے والی مردم شماری حکومت نے 19 سال کے وقفے کے بعد بالآخر سپریم کورٹ کے دباؤ پر کرائی تھی۔ آئین کے مطابق یہ ہر دس سال بعد ہونی چاہیے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مردم شماری کے ان نتائج کا تجزیہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ پچھلے19 سال کے دوران شہر کی آبادی میں 2.5 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا ہے،جس پر یقین نہیں کیا جاسکتا۔
قیام پاکستان سے کراچی کی آبادی میں اضافہ کی شرح3.5 فیصد سے کم نہیں دیکھی گئی۔ کراچی میں نہ صرف دوسرے صوبوں اور سندھ کے دیہی علاقوں سے داخلی طور پرنقل مکانی ہوتی رہی ہے، بلکہ افغانستان، بنگلہ دیش اور میانمار جیسے بعض ملکوں کے لوگ بھی یہاں آ کر آباد ہوئے۔یہ اعداد و شمار سٹی گورنمنٹ کے اعداد و شمار سے بھی مطابقت نہیں رکھتے جس کے منصوبے بتاتے ہیں کہ کراچی کو تقریباً22 ملین افراد کی ضروریات پوری کرنا ہوتی ہیں۔کراچی کے تین بڑے شعبے،ہاؤسنگ ، ٹرانسپورٹ اور پانی زبوں حالی کا شکار ہیں۔ ہاؤسنگ کی مانگ اور سپلائی میں ہر سال تقریباً200 یونٹس کے حساب سے خلا بڑھ جاتا ہے، گذشتہ 30 سے اس شہر میں غریب محنت کش طبقات کے لیے ایک بھی ہاؤسنگ اسکیم نہیں بنائی گئی۔ غریب کچی بستیوں اور قبضہ مافیا کے رحم و کرم پر ہیں۔ ایک اندازے کے بطابق کراچی میں ہر تیسرا فرد کچی آبادی میں رہتا ہے۔ یہ آبادیاں زمین پر قبضہ کرنے والوں کی طرف سے قائم کی جاتی ہیں جہاں شہری سہولتوں کا بہت برا حال ہوتا ہے۔ صوبائی اور سٹی گورنمنٹ، شہریوںکو پانی کی مناسب مقدار فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ جبکہ ٹینکر مافیا کو پانی فروخت کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے 30 ہزار بسوں کی ضرورت ہے، جبکہ کراچی کی سڑکوں پر منی بسوں کی تعداد سات آٹھ ہزار سے زائد نہیں ہے۔پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی سے 60 ہزار رکشہ اور پونے دو لاکھ موٹر سائیکلوں نے شہر کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
مرکزی حکومت ، اور صوبائی حکومت کے ایک دوسرے پر الزامات نے ،، گرین لائن بس منصوبہ ،، التوا میں چھوڑ رکھا ہے۔سپریم کورٹ کے بار بار کہنے پر بھی ،،کراچی سرکلر ریلوے ،، بحال نہ ہوسکی ہے۔امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن کراچی کی آبادی پر احتجاج اور مظاہرے کر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ کراچی کے عوام ڈیڑھ کروڑ نہیں 3کروڑہیں ، ٹوٹا پھوٹا اور تباہ حال کراچی بھی پورے ملک کو 70 فیصد ریونیو مہیا کررہا ہے، لیکن اس کے باوجود کراچی کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جاتا ہے ،کراچی منی پاکستان ہے اگر کراچی ترقی کرے گا تو پورا ملک ترقی کرے گا۔ وہ حق دو کراچی کو ، پورا ٹیکس اور آدھی گنتی نامنظور نامنظور کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہین کہ جماعت اسلامی کراچی کے عوام کا مقدمہ لڑ رہی ہے اور ہمارا مطالبہ ہے کہ کراچی کے عوام کو اس کا حق دیا جائے اور کراچی کے عوا م کو صحیح گنا جائے۔حقیقت یہ ہے کہ کراچی سب کا ہے اور کسی کا نہیں ، سیاسی جماعتیں اس شہر سے منڈیٹ تو لیتی ہیں۔ لیکن عوام سے کیے وعدے پورے نہیں کیئے جاتے۔ایم کیو ایم کے بعد عوام نے پی ٹی آئی کو اپنے دکھ درد کا مداوا سمجھ کر ووٹ دیئے، لیکن پی ٹی آئی عوام کے مصائب میں کوئی کمی نہ کرسکی۔ جس نے شہریوں کو شدید مایوسی میں مبتلاکردیاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔