پاکستان کیوں غریب ہے ؟
شیئر کریں
مختار عاقل
بلاول بھٹو زرداری نے اپنے نانا کی 89ویں سالگرہ بھٹو خاندان کے آبائی علاقے گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں کیک کاٹ کر منائی۔ اپنے مختصر خطاب میں انہوں نے لاڑکانہ کے حلقہ 204این اے سے الیکشن لڑنے کا اعلان بھی کیا ۔ ساتھ ہی مسلم لیگ (ن) کو یہ ”سندیسہ“ بھی دے دیا کہ ان کی اور ان کے والد آصف زرداری کی قومی اسمبلی میں”شراکت“ن لیگ کی نیندیں اڑادے گی ۔ لاڑکانہ میں قومی اسمبلی کا حلقہ 204بلاول کی نانی بیگم نصرت بھٹو کی نشانی ہے جن کی اپنی ایک کہانی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر ان کی نصرت سے شادی نہ ہوتی تو وہ لاڑکانہ کے صرف ایک وڈیرے ہوتے ۔ 1950ءکی دہائی کے آغاز میں اقتدار کیلئے رسہ کشی عروج پر تھی۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اقتدار کے ایوانوں میں سازشوں کا زور تھا۔ بھارت کے وزیر اعظم جواھر لال نہرو نے کہا تھا کہ ان کی دھوتی بدلنے سے پہلے پاکستان میں وزیر اعظم بدل جاتا ہے۔ نوجوان ذوالفقار علی بھٹو انگلینڈ سے تعلیم حاصل کرکے تازہ تازہ کراچی میں وارد ہوئے تھے اور ایک ہندو وکیل کے جونیئر کی حیثیت سے وکالت شروع کی تھی ۔ کراچی میں واحد بڑی ہوٹل”میٹرو پول“ تھی جواب کھنڈر بنی ہوئی ہے ۔ اس کے بالمقابل سندھ کلب اور اسٹیٹ گیسٹ ہاو¿س ہیں۔ کراچی کی اشرافیہ میٹرو پول ہوٹل میں اپنی شام رنگین بناتی تھی۔ شراب پر پابندی نہیں تھی اور رقص کے لیے فلور بھی مقرر تھا۔ غلام محمد کو اقتدار سے بے دخل کرکے اسکندر مرزا گورنر جنرل بن چکے تھے۔ ان کی اہلیہ ناہیدا سکندر مرزا بھی ہوٹل میٹروپول کو رونق بخشتی تھیں۔ ان کی محفل کی ایک رکن نصرت بھی تھیں خواتین کے اس گروپ میں زیادہ تر ایرانی نژاد تھیں جن میں نصرت بھی شامل تھیں۔ یہاں ذوالفقار علی بھٹو نے نصرت کو دیکھا اور اپنے ذہن میں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کا ایک نقشہ ترتیب دیا۔ انہوں نے نصرت کو شادی کا پیغام دے دیا۔ معمولی ردو قدح کے بعد نصرت نے”ہاں“ کردی اور یوں یہ ایرانی نژاد خاتون لاڑکانہ کے وڈیرے ذوالفقار علی بھٹو کی بیوی بن گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ذہن میں جو نقشہ ترتیب دیا تھا۔ اس پر عمل ہوا اور نصرت بھٹو نے اپنی دوست ناہید اسکندر مرزا سے سفارش کراکے ذوالفقار علی بھٹو کو اسکندر مرزا کی کابینہ میں وزیر لگوادیا۔ بعد کے حالات میں جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کا تختہ الٹ کر مارشل لاءلگادیا اور اقتدار پر قبضہ کرلیا ۔ ہونہار بھٹو ان کی کابینہ میں بھی وزیر بن گئے۔ بیگم نصرت بھٹو بیگم ایوب خان کی دوست بن گئیں۔ نصیب مزید کھل گئے۔ بھٹو نے ایوب خان کے مقرب اور معتمد خاص کا درجہ حاصل کرلیا ۔ 1964ءکے صدارتی انتخابات میں بھٹو نے ایوب خان کی شان میں زمین آسمان کے قلاب ملانا شروع کیے۔ مقرر اچھے تھے ۔ شعلہ بیان بھی تھے۔ ایک بار تو ملتان کے جلسے میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف ایسی آگ اگلی اور ایسے گندے اور رقیق الزامات لگائے کہ اخبارات نے بھی انہیں حذف کردیا۔ ایوب خان صدارتی الیکشن دھاندلی سے جیت گئے لیکن آگے جاکر ذوالفقار علی بھٹو سے اختلافات شروع ہوئے۔ اقتدار کے ایوانوں سے باہر آکر اپنی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی بنائی جو انہیں وزارت عظمیٰ اور بعد ازاں پھانسی کے پھندے تک لے گئی۔ اس تمام عرصہ میں بیگم نصرت بھٹو ان کے شانہ بشانہ جدوجہد میں شریک تھیں۔ 1983ءمیں ایم آر ڈی کی تحریک کی روح رواں نصرت بھٹو ہی تھیں جن کے حلقہ سے اب ان کا نواسہ بلاول الیکشن لڑرہا ہے۔ ان کے والد آصف علی زرداری نواب شاہ سے امیدوار ہیں۔ یہ سیٹ ان کی ہمشیرہ عذرا پیچوہو نے ان کے لیے خالی کی ہے ۔ جنوری کے آخر تک دونوں باپ بیٹا قومی اسمبلی میں موجود ہوں گے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی مثال ہوگی۔ سندھ کی سیاست بھٹو خاندان سے زرداری خاندان کو منتقل ہورہی ہے۔ سینئر سیاستدان اور بھٹو خاندان کے بزرگ ممتاز علی بھٹو کو اس کا بڑا قلق ہے لیکن وہ بے بس ہیں ۔ پیپلز پارٹی پر آصف علی زرداری کا قبضہ ہے جو اقتدار کی کنجی ہے۔ انہوں نے اپنے بیٹے بلاول کے نام کے ساتھ”بھٹو“ لگا کر اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے وہ ایک ذہین سیاستدان ہیں اور ان کے پاس اقتدار کے ساتھ وسائل اور پیسہ بھی بہت ہے جس کے ذریعے وہ اپنے سارے کام بآسانی سر انجام دے سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماءبیرسٹر اعتزاز احسن نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ ابھی اقتدار سیاست سے دور رہ کر بلاول بھٹو زرداری کو کھل کر اور آزادآنہ سیاست کرنے دیں۔ اس طرح ان کی موثر ترتیب ہوسکے گی۔ لیکن اقتدار کی طلب آصف زرداری کو قومی اسمبلی لے جارہی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے اچھے تعلقات کسی”ان ہاو¿س“ تبدیلی کی صورت میں ان کے لیے اقتدار کا زینہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کا وزیر اعظم بننے کے لیے کم سے کم عمر 36سال ہونا ضروری ہے۔ بلاول 2018ءکے انتخابات میں بھی 36سال کے نہیں ہوں گے۔ لہٰذا آصف علی زرداری کے لیے وزیر اعظم بننے کا ایک چانس اور کھلا ہے۔ صدارت کے بعد وزارت عظمیٰ کا تصور ہی بڑا ہوتا ہے۔ انہوں نے پورے سندھ کو اپنی مٹھی میں جکڑ لیاہے ۔ روایت کے بر خلاف وزیر اعلیٰ ہاو¿س پر بھی قومی پرچم کے ساتھ پیپلز پارٹی کا پرچم لہرادیا گیا ہے۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ سندھ پیپلز پارٹی کا ہے ۔ یہاں دوسری پارٹیوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کی تقسیم نے صورتحال کو مزید ساز گار بنادیا ہے۔ پتھر ہر ایک کے لیے سخت ہوتا ہے لیکن وہ اس کے لیے نرم ہوجاتا ہے۔ جس کے پاس اسے توڑنے کے اوزار ہوں۔ ایم کیو ایم جیسی ڈسپلن کی سخت جماعت کو توڑنے کے لیے بھی وہی اوزا
ر اور ہتھیار استعمال کیے گئے ہیں جو انگریز حکمرانوں نے ہندوستان میں استعمال کرکے ڈیڑھ سو برس تک حکومت کی تھی۔ آصف زرداری کی خوبی یہ ہے کہ انہیں حالات کو اپنے موافق بنانے کا گر آتا ہے۔ 1987ءسے پہلے وہ بھی سندھ کے ایک عام زمیندار اور کاروباری تھے ۔ بے نظیربھٹو سے شادی نے انہیں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچادیا اور آج وہ پیپلز پارٹی اور سندھ کی سیاست کے کرتا دھرتا ہیں۔ سندھ کی”وڈیرہ سیاست“ میں پولیس اور پٹواری کا بہت اہم کردار ہے۔ علاقے کو کنٹرول میں رکھنے سے لے کر الیکشن جیتنے تک ان دو اداروں کی اہمیت مسلمہ ہے ۔ یہ دونوں وارے اقتدار کے سہارے ہی وارے نیارے کراسکتے ہیں۔ ماضی میں”ادھر ادھر“ ہونے والے وڈیرے اب پھر پیپلز پارٹی کا رخ کررہے ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ لیاقت جتوئی کے قریبی ساتھی سرتاج خان لغاری بھی ان کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ پی پی رہنما اور صوبائی وزیر نثار کھوڑو سے ملاقات کرکے پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں ۔ بیگم نصرت بھٹو مرحومہ نے پیپلز پارٹی کے ایک ایم این اے سے شکوہ کیا تھا کہ آپ پی پی پی چھوڑ کر جنرل ضیاءالحق کی پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں۔ اس پر مذکورہ ایم این اے نے جواب دیا کہ وہ ہمیشہ ایک ہی جماعت میں شامل رہے ہیں۔ اور وہ ہے ”اقتداری پارٹی“ انہوں نے کبھی یہ پارٹی نہیں چھوڑی ہے۔ یہی پاکستان کا المیہ ہے۔ یہاں کی مخصوص اقتداری سیاست نے جھوٹ کو سچ پر غالب کردیاہے۔ قومی مفادات کو ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔ حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا”میں اس دن پر ندامت کرنے کی طرح کسی چیز پر ندامت نہیں کرتا جس دن کا سورج غروب ہوچکا ہو۔ اس میں میری عمر کم ہوگئی ہو اور میرے علم میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہو۔ جس نے اپنی عمر کا کوئی دن اس کا حق ادا کئے بغیر گزار دیا یا کوئی فرض ادا نہیں کیا یا عزت کا کوئی کام نہیں کیا‘ کوئی قابل تعریف عمل نہیں کیا‘ کسی خیر کی بنیادنہیں ڈالی یا کوئی علم حاصل نہیں کیا تو اس نے اس دن کا حق ادا نہیں کیا اور اپنے اوپر ظلم کیا”ہماری سیاست اور سیاسی جماعتوں کے قائدین میں سے کتنے لوگ ہیں جو اس اسلامی فلسفہ پر عمل پیرا ہوتے ہیں ۔ پاکستان مجرموں کے لیے شاندار ملک ہے۔ یہاں سز ا غریبوں کو ملتی ہے‘ کرپٹ لوگ سزا نہیں پاتے ۔ قانون کی نرمی اور اپنے اثرو رسوخ سے گرفتارہوکر بھی رہا ہوجاتے ہیں۔ شریف برادران اور ان کے خاندان کے خلاف”پاناما لیکس“ کو ایک سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے اب روز مرہ سماعت کی بنیاد پر سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ سابق صدر پاکستان آصف زرداری پر بھی کرپشن کے الزامات ہیں لیکن وہ اطمینان کے ساتھ قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ کر قومی اسمبلی میں جانا چاہتے ہیں ۔ ان کی اہلیہ بے نظیر بھٹووزیر اعظم تھیں تو ایڈمرل منصور الحق پاک بحریہ کے سربراہ تھے۔ وہ 10نومبر 1994ءسے یکم مئی 1997ءتک بحریہ کے سربراہ رہے ۔ ان پر 300ارب روپے کرپشن کا الزام لگا‘ بے نظیر حکومت ختم ہونے کے بعد میاں نواز شریف وزیر اعظم بن چکے تھے۔ انہوں نے ایڈمرل منصور الحق کی ملازمت ختم کردی اور ان کے خلاف تحقیقات شروع کرادیں۔ منصور الحق 1998ءمیں ملک سے فرار ہوکر امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر آسٹن میں پناہ گزین ہوگئے۔ پاکستان میں ان کے خلاف مقدمات چلتے رہے۔ جنرل پرویز مشرف نے 12اکتوبر 1999ءکو میاں نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کردیا۔ انہوں نے”نیب“ کا ادارہ بنایا تو منصور الحق کے خلاف مقدمہ نیب میں منتقل ہوگئے۔ اسی دوران امریکا میں اینٹی کرپشن قوانین پاس ہوئے‘ ان قوانین کے مطابق دنیا کے کسی بھی ملک کا سیاستدان‘ بیورو کریٹ یا تاجر کرپشن کے بعد فرار ہوکر امریکا آئے گا تو اسے گرفتار کرکے مقدمہ چلایا جائے گا۔ نیب نے ان قوانین کی روشنی میں امریکی حکومت کو خط لکھا۔ 17اپریل 2001ءکو منصور الحق کی گرفتاری عمل میں آئی اور انہیں آسٹن کی جیل میں ڈال کر مقدمہ شروع کردیاگیا۔ انہیں جیل میں عام قیدیوں کے ساتھ ڈال کر چھوٹی سی بیرک میں رکھا گیا اور عام مجرموں جیسا سلوک کیا گیا۔ منصور الحق یہ ناروا سلوک برداشت نہ کرسکے۔ انہوں نے امریکی حکومت کو خط لکھ دیا کہ”مجھے پاکستان کے حوالے کردیا جائے ۔ میں اپنے ملک میں مقدمات کا سامنا کروں گا۔“ امریکی جج نے ان کی درخواست منظور کرلی۔ انہیں ہتھکڑی لگا کر جہاز میںسوار کرایا گیا ۔ سفر کے دوران بھی ان کے ہاتھ سیٹ سے بندھے ہوئے تھے لیکن جوں ہی انہوں نے جہاز سے باہر پاکستان کی سر زمین پر قدم رکھا تو ان کے ساتھ وی وی آئی پی سلوک شروع ہوگیا۔ ایف آئی اے اور نیب کے افسروں نے بھی انہیں سلوٹ کیا۔ سہالہ ریسٹ ہاو¿س کو ”سب جیل“ قرار دے کر انہیں ہر قسم کی سہولت فراہم کردی گئی ۔ تفتیشی ٹیم خود چل کر ان کے پاس آتی تھی۔ عدالت بھی ان کے روبرو حاضر ہوتی تھی ۔ انہوں نے کرپشن کی دولت کا 25فیصد حکومت کو دے کر نیب سے”پہلی بار گین“کرلی جس پر انہیں رہا کردیا گیا ۔ آج وہ کراچی میں اپنے عالیشان بنگلے میں شاندار زندگی گزار رہے ہیں ۔ منصور الحق کے بارے میں یہ واقعہ پڑھنے کے بعد مجھے یقین ہوگیا ہے کہ آصف علی زرداری ہی کیا۔ نیب زدہ تمام سیاستدان‘ بیورو کریٹ اور تاجر قومی اسمبلی کے رکن بن سکتے ہیں ۔ یہاں اشرافیہ کے لیے الگ قوانین اور رویے ہیں۔ یہی وہ”بیماری“ ہے جس نے پاکستان جیسے شاندار اور وسائل سے مالا مال ملک کو برباد اور بد حال کر رکھا ہے۔
٭٭