عدالت عالیہ بلوچستان کا اہم فیصلہ
شیئر کریں
عدالت عالیہ بلوچستان نے 16دسمبر2020ء کو ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ ا ے )ایکٹ2015ء کی قانون سازی کو تب کی حکومت اور اراکین اسمبلی کی نا اہلی اور عدم قابلیت قرار دے کر30مئی2018ء کوجاری کیے گئے نوٹیفکیشن کو غیر مؤثر اور کالعدم قرار دے دیا ۔ نوٹیفکیشن کی رو سے مخصوص علاقہ میں اراضی کے حصول سے متعلق ڈی ایچ اے کے ایگزیکٹیو بورڈ سے اجازت درکار ہوگی۔بلا شبہ چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس جمال مندوخیل کی سربراہی میں جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس ہاشم خان کاکڑ ، جسٹس عبداللہ بلوچ، جسٹس عبدالحمید بلوچ پر مشتمل پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ صوبائی دار الخلافہ کوئٹہ کے عوام نے سراہا ہے۔ایکٹ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی وزارت اعلیٰ کے دور میں یکم اکتوبر2015ء کو پاس ہوا ۔اس حکومت میں مسلم لیگ نواز اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی شامل تھی۔ اس ذیل میں پشتونخوا میپ اورنیشنل پارٹی کے اراکین کے عقلوں پر پردے پڑھ گئے تھے ۔جو اس کی سنگینی نہ سمجھ سکے۔ یقینا یہ اقدام اپنی نیت و فہم کے تحت کوئٹہ کے عوام کے مفاد اور حق میں لیا گیا ہو گا۔ مگر ہوا یہ کہ ڈی ایچ اے کی شکل میں طاقت مضافات کے علاقوں اور اراضیات پر مختارِ کل بن بیٹھی۔ ڈی ایچ اے کے لیے صوبائی دارالحکومت کے شمالی نواحی علاقے میں سرِدست پینتالیس ہزار ایکڑ اراضی مختص ہوئی ہے۔ رفتہ رفتہ مقامی قبائل اپنی اراضیات پر اختیار کھو بیٹھے۔ کسی کو خریدی گئی یا اپنی جدی پشتی زمینوں پر تعمیرات ، اسکیم یا دوسرے تجارتی مقاصد کے تحت تعمیرات پر قدغن لگائی گئی۔ حتیٰ کہ کوئٹہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے نجی اسکیموں کو جاری این او سیز تک منسوخ کروا دی گئیں۔ ایک اسکیم کے اندر ہونے والی تعمیرات تک بلڈوز کر دی گئیں۔ ڈی ایچ اے کی معاونت میں موجودہ صوبائی حکومت شاید بہت ہی گرم جوش ہے ۔ حکم عدولی کی جام حکومت اور سول بیوروکریسی میں ہمت نہیں ہے ۔ اس توسیع پسندانہ روش پر انگشت نمائی ضروری ہوتی ہے ، احتجاج کیا جاتا ہے۔ تاہم راست قدم اس عرصہ میں نہیں اُٹھائے جا سکے ہیں۔ ایک درخواست کوئٹہ کے ایک نوجوان وکیل کاشف پانیزئی کی جانب سے بلوچستان ہائی کورٹ میں لگائی گئی ۔
کوئٹہ کے قبائل کودیگر حوالوں سے بھی اپنی جدی پشتی اراضیات سے محروم ہونے کا خدشہ ہے۔ لینڈ مافیا بھی ایک عنصرہے۔ ان مسائل پر جرگے ہوئے ہیں۔سترہ دسمبر کو کوئٹہ میں ایک بڑا جرگہ منعقد ہوا ۔ سیاسی و قبائلی عمائدین نے درپیش صورتحال پر گفتگو کی۔ سیاسی جماعتوں کے نمائندے اور قبائلی عمائدین وقتاً فوقتاً مختلف فورمز پر مسئلہ اُٹھاتے رہتے ہیں۔ عدالت عالیہ کے فیصلے سے البتہ ڈی ایچ اے سے متاثر ہونے والے علاقوں کے افراد کی اُمید بندھی ہے ۔ درخواست پر عدالت نے عمیق نظر سے معاملے کی نوعیت اور اثرات کو دیکھا ہے ۔ ایکٹ کے مطابق ہر شخص بشمول لوکل باڈی یا کسی بھی ایجنسی کو مخصوص علاقے میں ترقیاتی اسکیم شروع کرنے سے قبل ڈی ایچ اے ایگزیکٹو بورڈ کی اجازت درکار ہو گی۔ عدالت عالیہ کے بینچ نے فیصلے میں کہا ہے کہ آئین کے مطابق ہر شہری کو پاکستان میں جائیداد کے حصول ،اُس پر قبضہ اور تصرف کا حق حاصل ہے ۔ لیکن اس حوالے سے آئین میں لگائی گئی پابندیاں صوابدیدی ، غیر فطری،غیر محدود یا غیر منطقی نہیں ہونی چاہئیں۔ شہری حقوق پر ایسی پابندیوں کے جواز کی معقول وجہ ہوتی ہے ۔ لہذا جائیداد کے حصول قبضہ اور تصرف کی حدود اور پابندی بھی قانون ہی کے تحت ہونی چاہئے۔ عدالت کے مطابق ڈی ایچ اے ایگزیکٹو بورڈ کو حاصل اختیارات کا بنیادی مقصد مخصوص اراضی پر قبضہ کر کے مستقبل میں اپنی رہائشی اسکیمزبنانا ہے ۔ لہذا اگر ڈی ایچ اے کا مقصد صرف عام لوگوں کو سہولیات فراہم کرنا ہے، تو اس طرح کی خدمات بآسانی صوبائی حکام جیسا کہ کیو ڈی اے ، مقامی کونسلوں حتیٰ کہ نجی ادارے کے ذریعے بھی فراہم کی جا سکتی ہیں۔ مخصوص علاقوں میں ترقیاتی منصوں پر پابندیاں عائد کرنے کے بجائے تمام متعلقین کو رہائشی سہولیات فراہم کرنے کی اجازت دینا زیادہ مناسب ہوگا۔ تاکہ مقابلے کے رحجان کی حوصلہ افزائی ہو ۔ اس طرح کسی مخصوص ادارے کے تسلط اور اجارہ داری سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ اور لوگوں کو مناسب جگہ پر پلاٹ کا حصول بھی آسان ہو گا۔ علاقہ میں زمینوں کی قیمتوں پر بھی قابو پایا جا سکے گا۔ جو درحقیقت عوامی مفاد ہے ۔
عدالت عالیہ نے کہا ہے کہ کسی غیر سرکاری ادارے کے ذریعے جو صرف اپنے مقصد کیلئے شہریوں کے حق پر پابندی عائد کرے نہ صرف امتیازی سلوک ہے بلکہ انتہائی غیر معقول بھی ہے ۔ زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی ذمہ داری ہے ۔ اس حوالے سے منصوبہ بندی بھی آئین کے مطابق پی ایس ڈی پیز کے ذریعے پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے رہنما خطوط کے مطابق کی گئی ہے ۔لہذا اس نوعیت کی پابندیاں اور شرائط ایک غیر سرکاری اتھارٹی کے ذریعے لاگو کرنا در حقیقت پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلی ، منتخب حکومتوں، بلدیاتی اداروں اور تمام سرکاری ایجنسیوں کے اختیارات کو محدود کرنے کے مترادف ہے ۔ اگرچہ مقننہ کو قانون سازی کا اختیار حاصل ہے ۔ مگر ڈی ایچ اے ایکٹ 2015ء کے نفاذ کے دوران صوبائی قانون سازوں کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 23کی دفعہ کی غلط تشریح کی گئی ہے ۔ حقوق پر پابندی لگانے کیلئے ایک غیر سرکاری اتھارٹی کو اختیارات تفویض کرنا غلطی ہے ۔ بلوچستان ہائی کورٹ نے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ ڈی ایچ اے ایکٹ 2015ء کی بعض شقوں سیکشن 2(q) 6، ( b)1)(14,14) (bٌ)جن کی افادیت آئندہ نہیں رہے گی۔ اس طرح سیکشن گیارہ ڈی ایچ اے ایکٹ 2015ء جس کے تحت ڈی ایچ اے کی دفعات کو تمام ملک اور وفاقی قوانین پر ترجیح دی گئی تھی آئین سے متصادم ہونے پر غیر موثر و کالعدم قرار دیا ہے ۔ عدالت نے قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ قانون سازوں کو قانون سازی یا ترامیم کا اختیار حاصل ہے مگر اسے آئین سے متصادم نہیں ہونا چاہئے۔ ڈی ایچ اے اگرچہ کوئٹہ کے مضافات میں جدید آبادی کی تعمیر کی منصوبہ بندی یقینا درست ہے۔ مگر ایک وسیع خطے پر اجارہ داری کی نیت و خواہش عوام قبول نہیں کریں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔